تحریر: سید بدرسعید۔۔
ٹیلن نیوز بند ہونا ہی تھا ، وجہ کیا تھی۔۔ٹیلن نیوز کی لانچنگ کے موقع پر بریار صاحب سے ہاتھ ملا کر چینل سے باہر نکلتے وقت میں نے ایک دوست سے کہا تھا ،یہ کمپنی نہیں چلے گی ۔
ٹیلن نیوز کے بند کرنے کی مختلف وجوہات بتائی جا رہی ہیں ۔ کچھ لوگ ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں ۔ ہمارے سینئر دوست گل نوخیز اختر نے تفصیلی پوسٹ بھی لکھی ہے اور ان وجوہات کا ذکر کیا جو ادارے کو درپیش تھیں ۔ ہر شخص کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق ہے لیکن ادارے کی تباہی کی وجوہات جاننا بھی ضروری ہے۔۔ٹیلن نیوز 6 سال تک ” انڈر پریکٹس” رہا ۔ یہ بہت طویل عرصہ ہے لیکن بریار صاحب نے کامیاب بزنس میں کی رح اخراجات برداشت کیے ۔ 6 سال کی پریکٹس کے بعد لانچ ہونے والے ادارے کا ایک ہی سال میں بند کر دیا جانا اس سے بھی بڑا سوال ہے ۔ ہم اس تحریر میں اسی سوال ک جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔
ٹیلن کے بند ہونے کا اندازہ بہت پہلے ہو گیا تھا ۔اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک ادارہ جو 6 سال صرف ڈیجیٹل پر چلایا گیا ۔ 6 سال ایک عرصہ ہوتا ہے لیکن اس عرصہ میں ٹیلن نیوز ڈیجیٹل میں اپنی نمایاں جگہ نہیں بن سکا ۔ یہ پہلا سائن تھا جسے نظر انداز کر دیا گیا ۔ ٹیلن نیوز کی لانچنگ کی شام میں وہیں تھا ۔ 6 سال کی پریکٹس کے بعد لانچنگ پر ایسے بہت سے چہرے نظر آئے جنہیں فلاپ سمجھا جاتا ہے ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ انہیں بڑے اور کامیاب بنا کر کس نے پیش کر دیا ہے ۔ سب سے پہلے یہ بات کہ ٹیلن کی رپورٹنگ بیت کمزور رہی ۔ رپورٹنگ میں کوئی بڑا نام اگر ٹیلن نیوز میں تھا تو وہ بھی مارکیٹ میں نظر نہیں آیا ، اداروں میں ٹیلن کے رپورٹر نظر نہیں آتے تھے ، غالبا واٹس ایپ رپورٹنگ کا سہارا لے کے مالکان کو چونا لگایا جاتا رہا ہے ۔ رپورٹر اپنے ادارے کا چلتا پھرتا اشتہار ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے ٹیلن نیوز اس ایڈورٹائزنگ سے محروم رہا۔ یہی صورت حل پروگرامنگ کی تھی ۔ ٹیلن پر صرف ایک اینکر ایسا نظر آیا جسے عوامی سطح پر فین فالونگ حاصل ہے اور وہ نام رؤف کلاسرا کا تھا ۔ رؤف کلاسرا آج بھی اپنا پروگرام باقاعدہ تیار کرتے ہیں ۔ میری اطلاعات کے مطابق ریٹنگ میں بھی صرف وہی تھے ۔دوسرا نام کراچی سے فہیم صدیقی کا تھا ، وہ کرائم کی دنیا کے بندے تھے لیکن ٹیلن میں ضائع ہو گئے ،انہیں اس طرح سے سکرین پر پیش ہی نہیں کیا گیا جیسے ہونا چاہیے تھا ۔ فہیم صدیقی اور رؤف کلاسرا دونوں ہی بروقت ڈوبتے جہاز سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے ۔ پرائم ٹائم کسی بھی چینل کا اہم وقت ہوتا ہے ۔اس وقت میں ایک بھی اینکر یا تجزیہ نگار ایسا نہیں تھا جو عوامی سطح پر ہو ، کسی کا اپنی فیلڈ میں کسی عہدے پر ہونا الگ بات ہے لیکن سکرین کی ڈیمانڈ الگ ہے ، زیادہ تر تجزیہ کار ایک ہی جماعت کے تھے جس سے پرائم ٹائم کی مخوص گرما گرمی کی بجائے ون سائیڈ تھکی ہوئی رائے ہی نشر ہوتی رہی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھی وہ لوگ شامل رہے جو ہمارے سینئر ہیں لیکن اس سے پہلے اسی طرح مختلف ادارے بند کروا چکے ہیں جیسے آج ٹیلن نیوز ہوا ۔ ہارے ہوئے بوڑھے گھوڑوں کو ریس میں اتارنے کا نتیجہ یہی ہونا تھا ۔ چبھتے ہوئے فیلڈ پروگرام ریٹنگ لاتے ہیں لیکن ٹیلن کے تمام شہزادے سٹوڈیو میں گھنٹہ گزارنے والے پروٹوکول سے باہر نہیں نکلے ۔ کرائم شوز ریٹنگ کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن اس طرف بھی توجہ نہیں دی گئی ۔ ڈیجیٹل کاپی پیسٹ اور خبروں کی وائس اوور تک محدود رکھا گیا ۔ آپ نیوز ، اب تک اور دن نیوز کے تباہ اور بند ہوتے وقت جو ٹیم تھی وہ ٹیلن کی سینئر اور اہم ٹیم کے طور پر لانچ کر دی گئی اور ان کی چینل تباہ کرنے والی پروفائل میں مزید اضافی ہو گیا ۔یار دوست اور گٹھ جوڑ نے ٹیلن نیوز کی تباہی پر مزید تیل چھڑک دیا ۔ وہ تمام لوگ جنہیں فیلڈ پروگرام یا فیلڈ رپورٹنگ کرنی چاہیے تھی وہ بیوروکریٹ سٹائل میں الگ الگ دفاتر کے کر بیٹھ گئے اور یار دوستوں میں شو مارتے رہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بریار صاحب نے بے پناہ پیسہ لگایا لیکن یہ بھی درست ہے کہ ان کے ارد گرد ایسے افراد اہم پوسٹوں پر پہنچ گئے تھے جنہوں نے اپنی ایک بوٹی کے لالچ میں پوری بھینس کاٹ دی ۔ ٹیلن اس سے کہیں کم اخراجات کے ساتھ کامیاب ہو سکتا تھا لیکن جو ٹیم لانچ ہوئی اسے دیکھ کر پہلے دن لانچنگ کے موقع پر ہی جب ہم بریار صاحب سے ہاتھ ملا کر باہر نکلے تو میں نے حافظ مظفر محسن کے کام میں کہا تھا ، سر یہ کمپنی نہیں چلے گی ۔ ایک زبردست بزنس مین کو مخصوص لوگ چونا لگا رہے ہیں ۔ مظفر محسن اس بات کے گواہ ہیں ، ممکن ہے اس بات کی تصدیق بھی کر دیں . ایک مخصوص ٹولہ چند اچھے اور قبل افراد کو بھی کھا گیا اور ان کے کیریئر پر بھی فلا ہونے کا دھبہ لگا گیا ہے (سید بدر سعید)