تحریر: مومل منظور۔۔
ٹیلن نیوز کی بندش نے ذہن کے دریچے پر کچھ پرانی یادیں تازہ کردیں۔۔صحافیوں سے روزگار چھن جانے کی یہ روایت نئی نہیں۔۔یہ سب تو پہلے بھی ہوچکا ہے۔۔کردار نئے ہیں لیکن اس اسکرپٹ پر پہلے بھی عمل ہوچکا۔۔کچھ سال پہلے جب میں نے اپنا پہلا چینل جوائن کیا تھا۔تب صرف ایک سال کے اندر اندر چوتھے فلور پر قائم اس چینل کو اچانک ہی تالے لگ گئے تھے۔۔میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب ہوگا۔شاید باقی سینئر لوگ اس دھچکے کے لیے تیار تھے۔۔مگر میرے لیے یہ سب کچھ نیا تھا۔۔مجھے کسی طور یقین نہیں آرہا تھا کہ سال بھر پہلے جو فورتھ فلور صحافیوں کے وجود سے آباد تھا۔۔وہ یوں اچانک خالی ہوجائے گا۔یہ دفتر سے زیادہ تو ہمارا گھر تھا جہاں ہم کبھی آٹھ تو کبھی آٹھ گھنٹے سے زائد وقت گزارتے تھے۔۔کام کے ساتھ ساتھ ہنسی مذاق کا دور بھی چلتا تھا۔۔ہمارے ایک مسیحی کولیگ رومیل کینتھ جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔ان کی زندہ دلی سے وہ سب لوگ واقف ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ اکثر دفتر میں ناشتے کی محفلیں سجاتے تھے۔۔پورے پورے دفتر کو وہ کبھی حلوہ پوری تو کبھی نہاری اور پراٹھوں کا ناشتہ کراتے تھے۔اس کے بعد دوپہر کو دفتر کے شاندار سے کیفے ٹیریا میں جب فورتھ فلور کے مکین رعایتی نرخوں پر مزے دار کھانوں پر ہاتھ صاف کرتے تو بڑے بڑے ہوٹلوں کے ذائقے بھول جاتے تھے۔وہاں کے سنگاپورین رائس تو بھلائے نہیں بھولتا۔۔پھر ایک دن باس نے فورتھ فلور کے مکینوں کی دو دریا پر دعوت کی نوید سنائی ۔۔چوتھے فلور کے سبھی مکین دعوت پر جانے کے لیے بہت پرجوش تھے۔میرے تو پیر ہی زمین پر ہی نہیں ٹک رہے تھے۔۔میں بہت خوش تھی دفتر کے سب دوست احباب نجی محفل میں ساتھ ہوں گے۔یہ سوچ کے ہی دل میں خوشی کا احساس تھا۔کام کے علاوہ فکروں سے آزاد ایک نشست لگنے والی تھی۔۔جہاں ٹھنڈی ہواٶں کے سنگ سب نے ایک دوسرے سے مزیدار گپ شپ کرنی تھی۔میں یہاں آپکو یہ بتانا بھول ہی گئی کہ اتفاق سے ہم چار کلاس فیلوز کی چوتھے فلور پر ہی نوکری لگی تھی۔۔لڑکیوں نے دعوت میں شرکت کے لیے نئے ڈریس خریدے تو لڑکے بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے ۔آخر کار وہ دن بھی آگیا جب سبھی باس کی دعوت پر دو دریا جانے کے لیے تیار تھے۔۔سب کی سج دھج نرالی تھی۔۔اور یوں سب بہت ہی ذوق و شوق سے وہاں پہنچے۔۔اور دو دریا پر سنجے والی یہ یادگار بیٹھک زندگی کی یادوں کا حصہ بن گئی ۔۔اینکر عبدالقادر کی باتوں سے محفل کشت زعفران بنی تو سبھی کے لبوں پر زبردست سی مسکراہٹ آگئی ۔اور یوں کھانے اور پھر چاۓ کا دور چلا۔۔اور اس طرح وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔۔دفتر میں کافی دنوں تک اس یادگار نشست کا چرچا ہوتا رہا۔۔ابھی ہم انہی خوشیوں بھرے ماحول میں کام کررہے تھے کہ اچانک ایک دن اڑتی اڑتی خبر سننے میں آئی کہ فورتھ فلور کو جلد تالا لگنے والا ہے۔۔ذہن یہ سب ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔کتنی یادگار صبحیں اور شامیں یہاں آباد تھیں۔۔کتنے سہانے پل بتاۓ تھے یہاں۔۔یہ دنیا ہم سب نےمل کر آباد کی تھی۔۔ابھی تو اس چینل کا سورج سر چڑھ کر بول رہا تھا۔۔یہ کیسے اچانک غروب ہوگیا۔۔ہم یہاں سے ایسے رخصت ہوئے جیسے کئی صدیوں سے یہیں کے مکین تھے۔۔اور یہاں سے بچھڑنے پر آنسوٶں کی جو جھڑی لگی وہ بڑی مشکل سے خشک ہوئی ۔اور وہ وقت بھی آگیا جب فورتھ فلور کو تالے لگ گئے اور یہ سفر اپنے بام عروج پر تمام ہوگیا۔۔(مومل منظور)۔۔