تحریر: حمیرا کنول۔۔
ارے ایک تو آپ بولتی بہت ہیں، سنتی کم ہیں‘۔ٹی وی پروگرام میں پینل میں شامل تجزیہ کار نے یہ کہا اور اس کے بعد ان کے ساتھ بیٹھے دیگر افراد بھی ہنسنے لگے۔اس پروگرام میں میزبان کی کرسی پر علینہ شیخ بیٹھی ہوئی تھیں۔بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ خواتین میزبانوں کو اکثر اس قسم کے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شاید ہر شعبے میں ایسا ہے۔وہ کہتی ہیں ’جب ہم دلیل کے ساتھ کوئی بات کر رہی ہوتی ہیں اور مرد مہمان کو برداشت نہیں ہوتا تو وہ ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ وہ سب ہنستے ہیں اور یہ ایسا ہے کہ جیسے سب نے اسے انجوائے کرنا ہوتا ہے۔‘
پیر کو سینئیر تجزیہ کار حسن نثار اور ریما عمر کے درمیان بھی کچھ مکالمات کا تبادلہ ہوا جو سوشل میڈیا اور نیوز رومز میں موضوع گفتگو ہے۔۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ برس پہلے بھی حسن نثار اور ریما عمر کے درمیان گفتگو تلخی میں بدل گئی تھی۔اس بار بھی ریما عمر اور حسن نثار جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں بطور تجزیہ کار شریک تھے جب ایک موقع پر حسن نثار نے ریما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی پیدائش سے پہلے بھی یہی کچھ ہو رہا تھا ۔۔۔‘ جس پر ریما نے کہا کہ ’میں تو اس پر بھی تنقید کرتی ہوں‘۔ اس کے جواب میں حسن نثار نے کہا کہ ’کرتی رہیں تنقید لیکن چیزوں کو کنفیوز اور گڈمڈ نہ کریں‘ اور جب ریما نے کہا کہ ’کنفیوز تو آپ کر رہے ہیں‘ تو حسن نثار نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی سمجھ چھوٹی ہے، یہ کھلے گی آہستہ آہستہ۔اسی طرح مزید کچھ جملوں کا تبادلہ ہوا تو اینکر نے مداخلت کی اور اختلاف رائے کی خوبصورتی کی بات کی جس پر حسن نثار نے کہا یہ خوبصورتی نہیں ’سٹرِپٹیز‘ ہے۔
یہ درست ہے کہ اس پروگرام کا فارمیٹ ایسا ہے کہ اختلاف رائے ہوتی ہے لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک منٹ 27 سیکنڈ کے بجائے پورا چونتیس منٹ کا پروگرام دیکھا جائے تو بات واضح ہوتی ہے کہ آخر ہوا کیا تھا۔دونوں تجزیہ کاروں کے درمیان براہ راست مکالموں کی ابتدا اس وقت ہوئی جب حسن نثار نے کہا ’ریما دی ٹیکنیشن‘ اور پھر ریما نے جواباً کہا ’سینِک ہیں آپ۔تلخ جملوں کا تبادلہ جاری رہا، اینکر نے کہا کہ پرسنل نہ ہوں۔ پروگرام اپنے آٹھویں منٹ میں پھر سے معمول کی گفتگو پر آ گیا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ لیکن پروگرام کا ایک مخصوص کلپ وائرل ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر حسن نثار پر تنقید کرنے والے کم نہیں لیکن انھیں شاباش دینے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔
پروگرام رپورٹ کارڈ کی میزبان علینہ شیخ نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ’میرے سامنے پینل میں موجود دو لوگ ون آن ون ہو گئے تھے، وہ پروگرام کے موضوع سے نکل کر ذاتیات پر اتر آئے تھے، اگر آپ پورا پروگرام دیکھیں تو میں نے اس صورتحال کی تائید نہیں کی، یہی کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے یہاں کوئی صنفی تخصیص نہیں۔اگر آپ پورا پروگرام سنیں تو آخر میں اینکر نے ایک بار پھر کہا اختلاف رائے ہونا چاہیے لیکن پرسنل بالکل نہیں ہونا چاہیے اور صنف کا امتیاز نہ عمر کا، سب تجزیہ نگار معتبر ہیں۔لیکن پروگرام میں ایسی صورتحال کا سامنا کرنے والی اینکر پرسنز پر اس تجربے کے کیا اثرات ہوتے ہیں اور وہ کس قدر بااختیار ہیں۔
بی بی سی نے اس حوالے سے ڈان نیوز کی ہوسٹ نادیہ مرزا کے علاوہ آج نیوز کے پروگرام ’فیصلہ آپ کا‘ کی میزبان عاصمہ شیرازی اور پروگرام گونج کی میزبان ثنا بُچہ سے گفتگو کی۔ثنا بُچہ کہتی ہیں کہ اینکر کی حیثیت سے اس قسم کی صورتحال کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔بہت مشکل ہوتا ہے سنبھالنا، میرے ساتھ تو بہت مرتبہ ہوا لیکن میں میزبان یا مہمان کے طور پر میں کبھی بھی اس قسم کی صورتحال کی اجازت نہیں دیتی۔ جب دو تین لوگ ایک ساتھ بولیں تو مجھے انھیں واسطے دینے پڑ جاتے ہیں کہ خیال کریں میں ایک عورت ہوں۔تاہم وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنی ٹیم کو بتا دیا ہے کہ اگر کوئی دوسری دفعہ میں نہیں سنتا تو آپ اسے میوٹ (مائیک بند) کر دیں۔ وہ کہتی ہیں ’یا میں میوٹ کرتی ہوں یا پھر میں بریک پر چلی جاتی ہوں۔عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’میرے پروگرام میں کوئی شخص خواتین کو نشانہ بناتا ہے تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ خواتین کو اس لیے ہراساں کیا جا رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ خاتون ہیں اور میں ہمیشہ عورت کا ساتھ دیتی ہوں اور اس موقع پر اینکر کا اصل کام ہوتا ہے کہ وہ صورتحال کو کنٹرول کرے۔وہ کہتی ہیں کہ رپورٹ کارڈ میں حسن نثار کی گفتگو سن کر ’مجھے حیرت ہوئی کہ اینکر کو روکنا چاہیے تھا اور کہنا چاہیے تھا کہ میں آپ کا مائیک بند کر دوں گی۔نادیہ کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں خواتین کو بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے جس کی بہت کمی محسوس کی جاتی ہے۔وہ کہتی ہیں مرد ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں لیکن عورتوں میں اس رویے کی کمی ہے۔عاصمہ شیرازی اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انھیں اس قسم کے رویے کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے ساتھی اینکروں نے ان کا ساتھ نہیں دیا، ’اینکر خاموش کردار بن جاتے ہیں۔لیکن پروگرام میں شمولیت کے لیے نازیبا زبان اور رویے کا استعمال کرنے والے افراد کو بلایا ہی کیوں جاتا ہے؟عاصمہ شیرازی کے مطابق ’میرا خیال ہے کہ کچھ مجبوریاں ہیں، بڑے چینلوں کی تو نہیں، چھوٹے چینلز کی مجبوریاں ہیں۔ رائے، نقطہ نظر کو بیلنس کرنے کے چکر میں آپ لوگوں کو برداشت کرتے ہیں۔ دوسرا، ریٹنگ بھی ہیں جس کے لیے پروگرام کے کوارڈینیٹر کو یا پروگرام کے میزبانوں کو ایسے لوگوں کو جن کا نقطہ نظر الگ ہو، بلانا پڑتا ہے۔تاہم وہ کہتی ہیں کہ مخصوص بیانیے، ’مخصوص ریٹنگ کے لیے لوگوں کو آپ بلائیں گے تو پھر آپ کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ ایسا ہوگا۔عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی شخص ننگی گالیاں دے، خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرے بلکہ اب تو مردوں کے ساتھ بھی بدتمیزی ہو رہی ہوتی ہے۔ایسی صورتحال میں ان کے مطابق ’چینلوں کی مینیجمنٹ کو سوچنا ہے کہ اگر آپ نے اپنے چینل کو ایک تھڑا بنانا ہے تو تھڑا تو نہیں بنا سکتے آپ اسے۔وہ کہتی ہیں پروگرام میں نازیبا گفتگو ہو تو بریک تو لی ہی جا سکتی ہے جو اکثر اوقات لی ہی نہیں جاتی، ’اینکر فوری طور پر بریک پر تو جا ہی سکتا ہے۔ثنا بُچہ کے خیال میں اینکرز کو بھی اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
آج کل مہمان بھی سمجھدار ہو گئے ہیں، وہ بتا دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں شخص کے ساتھ پروگرام میں نہیں بیٹھنا اور میرا خیال ہے کہ اینکروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریٹنگ مہمانوں کو ایک دوسرے کو گرِل کرنے سے نہیں آپ کے ان کے ساتھ کیے جانے والے سوالات سے آتی ہے۔ پروگرام میں آنے والوں سے جواب لینے ہیں، انھیں لاجواب کرنے سے ریٹنگ آتی ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔