تحریر: قرۃ العین شیرازی۔۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کے ایک نجی نیوز چینل کے لائیو پروگرام میں متنازع بیان نشر کیے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سیاست دانوں کو لائیو ٹی وی پر کتنا وقت دیا جانا چاہیے؟
ایک طرف جہاں شہباز گل کو ان کے مسلح افواج کے بارے میں متنازع بیان کے نتیجے میں گرفتار کر لیا گیا، وہیں دوسری جانب انہیں نہ ٹوکنے یا روکنے پر نجی چینل اے آر وائی کو بھی ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔
آٹھ اگست 2022 کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اس گفتگو کے پیش نظر اے آر وائی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے اس کی نشریات بند کر دی تھیں۔ سندھ ہائی کے حکم کے باوجود یہ چینل ملک کے کئی مقامات پر اب دوبارہ آن ایئر نہیں ہوا ہے۔
سیاست دانوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر یا جو منہ میں آئے اکثر بول دیتے ہیں۔ وہ اپنے بیانیے کے حق میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، تو ایسے میں ٹی وی چینلز کیسے ایک متوازن پروگرام ناظرین تک پہنچا سکتے ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ کسی مہمان کے غیر مناسب یا متنازع بیانات کے تدارک کے لیے پیمرا قوانین کے ساتھ ساتھ نیوز چینلز میں اپنا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟
کیا بیان لاتعلقی سے چینل مبرا ہو سکتا ہے؟
صحافت کو بطور مضمون پڑھانے والے ڈاکٹر توصیف احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ لائیو ٹرانسمیشن اب دنیا میں کم کر دی گئی ہیں کیونکہ ان میں ایسا مواد نشر ہو جاتا ہے جو ادارے کی پالیسی کے مطابق نہیں ہوتا۔ ’اسی وجہ سے ٹائم ڈیلے مکینزم کو استمعال کیا جاتا ہے۔ لائیو ٹرانسمیشن ضرورت تو ہے، جسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘
ان کی رائے تھی کہ پیمرا کے قانون میں شروع سے ایک سقم ہے۔ بقول توصیف احمد خان: ’اس (پیمرا) کا کام چارج لگانا ہے، یہ ادارہ جج نہیں ہے۔ سزا دینے کے لیے معاملے کو عدالت میں بھجوانا ہوگا۔ 75 سال سے انتظامیہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے، اس کے منفی نتائج ہوں گے اور یہ عمل آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کے خلاف بھی جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ اے آر وائی کی پالیسی کے حق میں نہیں لیکن اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ نیوز چینل میں ڈائریکٹر نیوز کی ذمہ داری سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات جاوید جبار اور سابق جسٹس ناصر اسلم زاہد کی پٹیشن پر جو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا، اس پر کسی نے عمل نہیں کیا۔ اس فیصلے میں کہا گیا کہ ’پروفیشنل صحافیوں کو ہی ڈائریکٹر نیوز کا عہدہ‘ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو اس رپورٹ پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔‘
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پی ٹی آئی رہنماؤں سے موقف لینے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا، لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستان میں بظاہر اکثر صحافی اور اینکر لائیو ٹی وی کے حق میں ہیں۔ وہ اسے ان کے پروگرام کے غیرجانبدار اور سینسرشپ سے پاک ہونے کے سب سے بڑے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی حکومت میں پیمرا کے چیئرمین رہنے والے ابصار عالم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں لائیو ٹرانسمیشن کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا: ’اس کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ پیمرا قوانین کے تحت لائیو ٹرانسمیشن میں ٹائم ڈیلے مکینزم (وقت کی تاخیر کا طریقہ کار) لازمی ہے۔
’یہ طریقہ کار استعمال نہ کیے جانے پر پیمرا کی جانب سے کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ 10 سیکنڈ کے مکینزم سے بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کون کیا بات کرنے جا رہا ہے۔ شہباز گل کے معاملے میں اس طریقہ کار کے ہونے یا نہ ہونے کا قصور نظر نہیں آ رہا۔‘
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بات نشر کیے جانے سے روکنی ہو تو وہ روکی جا سکتی ہے، تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ لائیو ٹرانسمیشن کا نقصان یہی ہے کہ ایسے الفاظ اور حرکات نشر ہوجاتی ہیں، جو نہیں ہونی چاہییں اور وہ غیر ارادی غلطیاں ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اینکرز کی پروگرام سے قبل تیاری میں کمی بھی آڑے آتی ہے۔ ایک تازہ واقعے میں بدھ کی رات کو ایک سینیئر اینکر کے پروگرام میں مہان سیاست دان افواہوں پر بات کرتے سے کترا رہے تھے لیکن میزبان انہیں اس پر اکسا رہے تھے۔ ’نہیں آپ کر لیں بات افواہوں پر۔‘
’شہباز گل کے اتنے لمبے بیان کے دوران انہیں کسی نے نہیں روکا۔ وہ بظاہر ان ممنوعہ الفاظ سے بچ کر بات کر رہے تھے، جن پر چینل انہیں خاموش کر دیتے ہیں، لہذا بات مکمل کر گئے۔‘
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ عموماً اینکرز پروگرام کے شرکا کی جانب سے غلط بات نشر ہو جانے پر وضاحت دیتے ہیں، یہاں وہ بھی نہیں دی گئی۔ قانون کے مطابق جو بھی مواد ٹیلی وژن چینل پر نشر ہوگا وہ اس چینل کے ڈائریکٹر، مالکان یا لائسنس ہولڈر کی ذمہ داری ہوگی۔
پاکستان میں میڈیا میں عام تاثر یہ ہے کہ کسی مہمان کے متنازع بیان یا تحریر کی ذمہ داری ان پر نہیں ہوتی جوکہ مروجہ صحافتی قوانین اور ضابطہ اخلاق کے برخلاف ہے۔ بعد ازاں چینل کے مالک سلمان اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وضاحتی بیان میں اسے شبہاز گل کی ذاتی رائے قرار دیا۔
دوسری جانب جیو نیوز کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ نازیبا الفاظ نشر نہ کرنا چینل کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ’لائیو ٹرانسمیشن کے دوران ٹائم ڈیلے مکینزم اس لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ جو شخص سکرین پر بول رہا ہے، اس سے کوئی نازیبا بات بھی ہوسکتی ہے، جو ناظرین کے لیے نامناسب بھی ہو سکتی ہے۔
’کئی مرتبہ اس مکینزم کی مشین خراب بھی ہو جاتی ہے۔ دوسری صورت میں پروگرام کے میزبان یا اینکر کے بعد پینل پروڈیوسر اور ٹکرز بنانے پر مامور افراد یہ گفتگو سن رہے ہوتے ہیں۔ فوری طور پر پروگرام سننے اور دیکھنے والا پروڈیوسر روک سکتا ہے، میوٹ پر لگا سکتا ہے یا کال بھی کاٹ سکتا ہے۔ یہ تمام وہ طریقہ کار ہیں جو ساری دنیا میں مانے جاتے ہیں۔‘
اپنے نیوز چینل کا حوالہ دیتے ہوئے رانا جواد کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد بار کئی افراد کو ٹوکا۔ ’صحافی ماحول کو سمجھتا ہے، اسے پتہ ہوتا ہے کہ دوسرے فرد کا بیان کتنا حساس ہے یا زیربحث معاملہ ایسا تو نہیں جسے لے کر بعد میں ذمہ داری عائد ہو جائے۔ بلاتعطل ٹرانسمیشن چلنا سمجھ کی کمی اور موضوع کی حساسیت نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘
بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ لائیو ٹرانسمیشن کا کوئی نقصان نہیں ہے اور اسے ختم نہیں ہونا چاہیے۔ نقصان اس وقت ہوتا ہے جب غیر ذمہ دار افراد کو مواقع دیا جاتا ہے کیونکہ پروگرام کرنے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کس فرد کو بلائیں اور وہ کس طرح کی بات کرے گا۔
قوانین کیا کہتے ہیں؟
لائسنس کی شرائط و ضوابط کی شق 3.9 کے تحت ٹیلی ویژن چینل لائیو پروگراموں کے دوران وقت میں تاخیر کا طریقہ کار لاگو کرنے کا پابند ہے تاکہ گفتگو کے دوران بےساختہ تبصروں کی صورت میں چینل کے ذریعے بہتر ادارتی کنٹرول کا استعمال کیا جاسکے۔
پری ریکارڈڈ بمقابلہ لائیو
بعض بین الاقوامی نشریاتی ادارے جیسے کہ بی بی سی ورلڈ اکثر سیاست دانوں کے پہلے سے ریکارڈ شدہ پروگرام نشر کرتا ہے۔ اس سے مہمانوں کی موضوع سے ہٹ کر یا بے بنیاد بات ایڈٹ کی جاسکتی ہے، لیکن ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس کا خطرہ یہ ہے کہ سیاسی طور پر متحرک چینل کسی کی بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نشر کرسکتا ہے، جس سے ایک دوسرا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔
میڈیا ماہرین کا ماننا ہے کہ جب تک چینلز اپنی ساکھ میں بہتری اور غیرجانبداری کے بارے میں نہیں سوچیں گے، وہ جو بھی کریں مسائل جنم لیتے رہیں گے۔(بشکریہ انڈی پینڈنٹ اردو)