خصوصی رپورٹ۔۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ٹی وی پروگرام میں پیپلزپارٹی کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی قادر خان مندوخیل کو تھپڑ جڑ دیا۔۔وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ٹی وی پروگرام میں پیپلزپارٹی کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی قادر خان مندوخیل کو تھپڑ جڑ دیا ،پروگرام کے دوران میزبان روکتے رہے لیکن ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان الجھ پڑیں ،جھگڑے کی ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، اس حوالے سے ڈاکٹر فردوس عاشق نے کہا کہ جو ویڈیو لیک کی گئی ہے وہ سلیکٹو ہے، چاہتی ہوں مکمل ویڈیو لیک ہو۔فردوس عاشق اعوان نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں اس واقعے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ نجی چینل کے ٹاک شو میں قادر مندوخیل سے بحث کا ایک رخ دکھایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مندوخیل کے رویے کیخلاف جلد قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔فردوس عاشق نے درخواست کی کہ معاملے کی مکمل ویڈیو سامنے لائی جائے، قادرمندوخیل نےمجھےہراساں کیا اور دھمکیاں دیں، بدزبانی کی وجہ سے مجھے اپنے دفاع میں انتہائی قدم اٹھانا پڑا، میری سیاسی ساکھ اور عزت داؤ پر لگی۔
بدھ کی شب نشر ہونے والے ٹاک شو میں بات بجلی کی کمی سے شروع ہوئی اور ہوتے ہوتے ٹرین حادثے تک آ پہنچی۔فردوس عاشق اعوان نے سندھ کے وزیر اعلی کے جائے حادثہ پر نہ جانے پر تنقید کی تو قادر مندوخیل نے کہا وفاقی وزیرِ ریلوے بھی تو نہیں پہنچے۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے کی حکومتوں کو ‘کرپٹ’ گردانتے رہے۔تاہم بات اس وقت بڑھ گئی جب قادر مندوخیل نے حکومت کے بعد فردوس عاشق اعوان کو ذاتی طور پر ‘کرپٹ’ کہہ دیا اور طعنہ دیا کہ ‘کرپشن ہی کی وجہ سے ان سے وزرات لے لی گئی’۔اس کے بعد دونوں رہنماؤں میں مزید تلخ کلامی ہوئی اور فردوس عاشق اعوان نے مڑ کر شو کے میزبان جاوید چوہدری کو کہا، جو خاموشی سے یہ منظر تک رہے تھے، ‘چوہدری صاحب، آپ نے یہ تماشا لگوایا ہے۔وائرل ہونے والے کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قادر مندو خیل کچھ کہتے ہیں جس پر فردوس عاشق اعوان سیخ پا ہو جاتی ہیں۔ پھر دونوں اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد پھر سے دونوں رہنماؤں کے درمیان تلخ کلامی ہوتی ہے اور پھر ایک ’بیپ‘ کی آواز آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس موقعے پر نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ٹاک شو کے دوران پیپلزپارٹی کے قادر مندوخیل کی جانب دھمکیاں دی گئیں۔ قادر مندوخیل نے بدزبانی اور بدکلامی کرتے ہوئے میرے مرحوم والد اور مجھے گالیاں دیں۔ اپنے دفاع میں مجھے انتہائی قدم اٹھانا پڑا! قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد قادر مندوخیل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ٹوئٹر پر ان کا مزید کہنا تھا ‘جاوید چوہدری صاحب کے ٹی وی شو میں پیپلزپارٹی کے قادر مندوخیل کے ساتھ ہونے والی بحث میں تصویر کا ایک رخ دکھایا جارہا ہے۔ قادر مندوخیل کی غلیظ زبان اور گالیوں کو اس ویڈیو کا حصہ نہ بنا کر یکطرفہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔انھوں نے ایکسپریس ٹی وی سے درخواست ہے کہ معاملے کی مکمل ویڈیو سامنے لائیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قادر مندوخیل کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ فردوس عاشق اعوان اپنے سامنے کسی کو بولنے نہیں دیتیں تاہم وہ پہلی مرتبہ ان کے ساتھ کسی ٹاک شو میں شریک ہوئے تھے۔ان کے بقول انھوں نے کوئی ایسی نازیبا بات نہیں کی تھی جس پر فردوس صاحبہ طیش میں آ جاتیں۔وہ آدھا گھنٹا بولتی رہیں، میں خاموش رہا لیکن جب میں بولنے لگا تو وہ بیچ میں ٹوکنے لگیں کہ آپ کیا بولیں گے آپ تو سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں، جس میں پر میں نے ان سے کہا کرپٹ تو آپ ہیں۔ آپ کو آپ کی حکومت نے کرپشن پر عہدے سے الگ کیا۔ اس پر وہ گالم گلوچ پر آگئیں۔قادر مندوخیل کا کہنا تھا ’میں گالم گلوچ برداشت کرتا رہا تو وہ ہاتھا پائی پر اتر آئیں، میرا گریبان پکڑا اور مجھے تھپڑ مارنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد مجھے کپ (پیالی) مارنے کی کوشش کی۔ میں بچنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ میرے پیچھے بھاگیں تو میں نے دروازہ بند کر کے جان بچائی۔ ان کا مزید کہنا تھا ’میری تربیت ایسی نہیں کہ میں خاتون پر ہاتھ اٹھاؤں۔ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسی حرکت کر سکتی ہیں۔اپنے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا ’موسٹ ویلکم! میں خود سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، میڈیا لاز میں پی ایچ ڈی ہوں میرا بے داغ ماضی ہے۔ وہ قانونی کارروائی کرنا چاہتی ہیں تو انھیں نہ صرف شکست ہوگی بلکہ الٹا ان کے لیے اور عذاب بنے گا جب میں کارروائی کروں گا۔
دونوں سیاستدان جب تلخ کلامی کر رہے تھے تو پروگرام کے میزبان جاوید چوہدری پہلے تو خاموشی سے دونوں کو دیکھتے رہے پھر وقفے وقفے سے انھیں ٹوکنے کی بھی کوشش کی۔ تاہم زیادہ تر وہ دونوں کی لڑائی کو بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہے۔اس حوالے سے سینیئر صحافی مبشر زیدی کا کہنا تھا ’ چونکہ بیشتر اینکرز روزانہ بے معنی سیاسی موضوعات پر بات کرتے ہیں اور عوام سے متعلق معاشرتی امور پر گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں اسے لیے فردوس عاشق اعوان اور قادر مندوخیل کے مابین تلخ کلامی جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔سینیئر خاتون صحافی اور اینکر پرسن نسیم زہرہ کا کہنا تھا جہاں تک صحافتی اقدار کی بات ہے تو یہ سو فیصد اینکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بات کو اس نہج تک پہنچنے ہی نہ دے۔ان کا کہنا تھا کہ چینل اور پروگرام کی ٹیم چاہتی ہے کہ شو کی ریٹنگ اچھی ہوں، اکثر بات ہوتی ہے کہ تھوڑا سا تو جانے دیں۔ لیکن میرے ساتھ کام کرنے والے سمجھتے ہیں کہ صرف ریٹنگ کے لیے ایسی چیز نہیں ہونے دی جا سکتی۔سینئر صحافی ایم ضیا الدین بھی اس رائے سے متفق نظر آئے۔ انھوں بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ اینکر کا کام ہوتا ہے کہ وہ پروگرام کو مینیج کریں مگر عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب آپ دو مخالفین کو پروگرام میں بلاتے ہیں تو اینکر کی کوشش ہوتی ہے کہ انھیں لڑوایا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پروگرام کی ریٹنگ بڑھ جاتی ہے، (لڑائی) کا کلپ وائرل ہوجاتا ہے۔ضیا الدین کا کہنا تھا کہ ‘یہاں پر لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ کا کلپ اگر وائرل ہوگیا ہے تو یہ بہترین پرفارمنس ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا ‘جو سٹینڈرڈ پروسیجر ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ کسی قسم کا بحران ہو تو فوراً اینکر پرسن اشارہ دیتا ہے کیمرہ مین کو اور وہ فوراً اسے روک دیتے ہیں۔ عام طور پر یہی ہونا چاہیے کہ جب تک یہ کرائسس ختم نہ ہو جائے اسے روکے رکھا جائے۔ کیونکہ یہ (میڈیم) ویژوئل ہے تو یہ سب ایک منظر بن جاتا ہے۔ اس میں صحافتی تنظیموں کے تمام اخلاقی معیار کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ان کے بقول ‘اینکر کو فوراً پروگرام روک دینا چاہیے تھا۔ وہ کیمرہ مین کو اشارہ کرتے کہ اس کو بند کر دو۔ایم ضیا الدین کے مطابق ‘ہمارے ہاں سیاسی یا اہم موضوعات کی سمجھ بوجھ لوگوں میں کم ہوتی ہے تو یہاں جھگڑوں کے مناظر زیادہ مقبول ہو جاتے ہیں۔
اس معاملے پر پروگرام کے اینکر پرسن جاوید چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تلخ گفتگو تو ہر لگ بھگ ہر پروگرام میں ہوتی ہے تاہم ہاتھا پائی والی بات ان کے لیے بھی غیرمتوقع تھی۔ان کا کہنا ‘یہ لڑائی پروگرام کے پہلے بریک میں ہوئی جس کے بعد پروگرام کے دو مزید حصے آن ائیر ہوئے۔ ہم نے اس سب کو روکا اور پروگرام کو آگے بھی چلایا۔جاوید چوہدری کا کہنا تھا ‘ٹاک شوز کا مطلب ہی یہی ہے کہ لوگ آپس میں بات کریں۔ یہ کوئی خاموش شو تو ہے نہیں۔ جب شرکا چار یا پانچ ہوں گے تو ان میں گفتگو بھی ہو گی اور تلخ بات بھی ہو گی۔ ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا ‘عموماً ٹاک شوز میں ایسا ہوتا ہے، لیکن وقفے میں لوگ رک جاتے ہیں۔ ہم نے بھی بریک لی لیکن وہ لوگ وقفے میں بھی لڑتے رہے۔ تاہم ہم نے اس صورتحال کو کنٹرول کیا اور وقت پر باقی کا پروگرام بھی کیا۔جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ کسی بھی اینکر کے پاس یہ ماپنے کا طریقہ نہیں ہوتا کہ کب کس وقت کوئی شریک گفتگو اٹھ کر بد تمیزی کرنے لگے گا۔ ‘جب تک کوئی بد تمیزی، جرم یا گناہ ہو نہیں جاتا تب تک ہر انسان نارمل لگتا ہے۔ایسے شرکا کو تنبیہ کیے جانے سے متعلق جاوید چوہدری کا کہنا تھا ‘نہیں وارننگ دینا تو ممکن نہیں۔ یہ لوگ سیاسی جماعتوں نے نامزد کیے ہوتےہیں۔ ہم نہ کسی کو آف کر سکتے ہیں نہ آن کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں اور حکومت پاکستان نے کرنا ہے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی قادر خان مندوخیل کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا۔اپنے ایک ٹویٹ میں فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ انہوں نے وکلاء سے مشاورت کے بعد پیپلزپارٹی کے قادر مندوخیل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کردیا ہے تاکہ آئندہ کسی بھی خاتون کے ساتھ بدتمیزی اور گھٹیا رویہ اختیار کرنے کا راستہ روکا جائے۔ قانونی نوٹس جلد انہیں موصول ہوجائے گا۔جب کہ قادرمندوخیل نے بھی پارٹی قیادت سے صلح مشورے کے بعد فردوس عاشق اعوان کو قانونی نوٹس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔(خصوصی رپورٹ)۔۔