خصوصی رپورٹ۔۔
پہلے گوگل میپ ہمارے لیے مصیبت بن گیا اور اس کے بعد ہمارے ملکی شناختی دستاویزات، جن کی بنیاد پر ہمیں 11 روز تک کابل میں قید میں رکھا گیا۔۔ یہ کہانی ہے بلوچستان میں خضدار سے تعلق رکھنے والے 92 نیوز چینل کے نمائندے محمد اقبال مینگل اور کیمرا مین شہزاد سلطان کی جو طالبان کے آنے کے بعد افغانستان کوریج کے لیے گئے اور کابل میں راستہ بھٹکنے پر طالبان کے ہاتھوں پکڑے گئے۔صرف قید میں رکھا جاتا تو کوئی بات نہیں تھی۔‘ یہ اقبال مینگل کے الفاظ ہیں جنھیں افغانستان کی کوریج کرنے جانے کا فیصلہ مہنگا پڑ گیا۔ وہ کہتے ہیں۔۔ لیکن اس کے ساتھ تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا اور (ہمیں) پاکستانی ہونے کے ناطے نفرت انگیز جملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ان سے پوچھتے رہے کہ اسلام میں کہاں اجازت ہے کہ جرم کے ثبوت کے بغیر تشدد کیا جائے۔ لیکن انھوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی اور ہم پر (قید میں) تشدد کرتے رہے۔نائنٹی ٹو چینل کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کی جانب سے دونوں صحافیوں کی رہائی کے لیے تمام دستیاب ذرائع بروئے کار لائے گئے اور اب یہ دونوں پاکستان واپس آ چکے ہیں۔تاہم افغان طالبان کے ایک ترجمان نے پاکستانی صحافیوں کو 11 روز تک حراست میں رکھے جانے کے کسی واقعے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مجاہدین نے ’کسی پاکستانی صحافی کو حراست میں نہیں رکھا۔‘
اقبال مینگل نے بتایا کہ طالبان کے آنے کے بعد چونکہ افغانستان میں 20 سال بعد ایک مرتبہ پھر بڑی تبدیلی آئی تھی اس لیے ’دنیا اور پاکستان کے دیگر درجنوں صحافیوں کی طرح ہم بھی افغانستان کوریج کرنے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے ’ہم نے قندھار میں طالبان کے عہدیداروں سے رابطہ کر کے ان سے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کیا۔ اجازت نامہ ملنے کے بعد ہم چمن کے راستے سپین بولدک گئے اور وہاں سے قندھار کا راستہ لیا۔ان کے بقول انھیں قندھار ہی میں طالبان کے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا۔اقبال مینگل نے بتایا کہ دو روز تک شہر میں کوریج کے بعد وہ قندھار پریس کلب گئے۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں افغانستان میں شہروں کی ترقی اور خوبصورتی کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے لیکن اپنے قیام کے دوران ‘جن شہروں کو ہم نے دیکھا ان سب کے مقابلے میں ہرات بہت زیادہ خوبصورت تھا۔قندھار پریس کلب میں غیر معمولی صورتحال تھی۔ یہ ویران تھا۔ ہم نے دیکھا وہاں طالبان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ ہمارے لیے حیران کن بات تھی کیونکہ ہم نے ابھی تک جتنے پریس کلب دیکھے ان میں ایسی صورتحال نہیں دیکھی۔جب اقبال مینگل اور ان کے ساتھی نے پریس کلب میں موجود طالبان سے پوچھا کہ یہاں کوئی صحافی کیوں موجود نہیں اور آپ لوگ کیوں یہاں اتنی بڑی تعداد میں جمع ہیں ’تو شاید ہماری یہ بات انھیں اچھی نہیں لگی۔ اس لیے ان کا رویہ ہم سے سخت ہوا اور انھوں نے ہمیں قندھار میں مزید کوریج کرنے سے منع کیا۔جب قندھار میں رپورٹنگ سے منع کیا گیا تو ہم نے افغانستان کے ایک اور اہم شہر ہرات کا رُخ کیا۔اقبال مینگل نے کہا کہ ’ہمارے پاس کوریج کے لیے دوسرا بہتر آپشن ہرات کا تھا۔ اس لیے ہم نے قندھار سے بذریعہ سڑک ہرات کا رخ کیا۔قندھار سے ہرات تک ہائی وے جنگ کی وجہ سے بعض جگہ خراب ہے۔ تاہم شہروں کے اندر شاہراہیں بہتر تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں افغانستان میں شہروں کی ترقی اور خوبصورتی کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے لیکن اپنے قیام کے دوران ’جن شہروں کو ہم نے دیکھا ان سب کے مقابلے میں ہرات بہت زیادہ خوبصورت تھا۔ہمارے ذہن ایسا بالکل نہیں تھا کہ ہرات اتنا خوبصورت ہو گا۔ ہرات کی کشادہ سڑکوں، صفائی اور عمارتوں کی خوبصورتی نے ہمیں بہت زیادہ متاثر کیا۔لیکن اشرف غنی حکومت ختم ہونے کے بعد اصل دلچسپی کابل میں تھی لہٰذا انھوں نے ہرات سے کابل جانے کا فیصلہ کیا۔
محمد اقبال نے بتایا کہ ہرات سے کابل روانگی کے لیے انھوں نے جب بس کا ٹکٹ لیا تو بتایا گیا کہ چار بجے روانگی ہے مگر ان کے آنے سے پہلے تین بجے کی بس جا چکی تھی۔کابل جانے والوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی جس کی وجہ شاید یہ افوا تھی کہ بغیر دستاویزات لوگ ایئرپورٹ سے امریکہ روانہ ہو رہے ہیں۔فجر کے وقت جب وہ ہرات سے نکلے تو انھیں اندازا نہیں تھا ’وہاں ایک اذیت ناک صورتحال ہمارا انتظار کر رہی ہے۔کابل پہنچنے پر رات ہوچکی تھی لیکن انھیں ایک عزیز کی رہائش گاہ پر پہنچنے میں بہت زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔چینل کے دفتر سے فون آیا کہ کابل ایئرپورٹ پہنچو جہاں دھماکہ ہوا ہے۔ ہم نے اپنے ہیڈ آفس کو بتایا کہ ایئرپورٹ بہت دور ہے۔۔۔ کم فاصلے پر ایک ہسپتال تھا جہاں زخمیوں کو لایا جا رہا تھا۔اقبال مینگل نے بتایا کہ جب ہم ہسپتال سے ٹیکسی میں اپنی رہائش گاہ کی جانب گئے تو ٹیکسی والے کو اس جگہ کے بارے میں صحیح معنوں میں نہیں سمجھا سکے۔ ٹیکسی والے نے رہائش گاہ کے قریب کسی اور گلی میں اتار دیا۔رات اور غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے سڑکیں ویران تھیں۔ جب میزبان سے رابطے کی کوشش کی تو ان کا نمبر بند تھا۔انھی گلیوں میں چلنے پھرنے کے دوران چند طالبان نظر آئے تو ہم نے ان سے پوچھ کر اپنے لیے مصیبت کھڑی کی۔میزبان نے انھیں واٹس ایپ پر گوگل میپ کے ذریعے اپنی لوکیشن بھیجی جو ان سے صرف 300 سے 400 میٹر دور تھا۔جب ہم نے اس جگہ کے بارے میں طالبان کو گوگل میپ دکھایا تو انھوں نے ہمیں جاسوس قرار دیا اور کہا کہ یہ نقشہ ان کے دفتر کو ٹارگٹ کرنے کے لیے حاصل کیا گیا ہے۔اقبال کے مطابق اس کے بعد انھوں نے طالبان جنگجوؤں کو اپنے پاکستانی دستاویزات دکھائے مگر ان کا ردعمل تھا کہ ’آپ لوگ پاکستان کی فلاں خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ ہو۔‘
جب وہ ہماری باتوں سے قائل نہیں ہوئے تو پھر ان کے ہاتھوں اور لاتوں کے وار تھے جو ہم پر پڑ رہے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ وہاں طالبان کے کچھ اور ساتھی آئے اور انھوں نے کہا ’انھیں یہاں گولی مار کر ختم کر دو۔ لیکن بعض نے کسی وجہ سے ایسا نہ کرنے کو کہا۔اقبال نے بتایا کہ یہ طالب آپس میں پشتو میں بات کر رہے تھے جو کہ ’ہمیں سمجھ آرہی تھیں۔ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو یہاں نہیں مارا جائے بلکہ ان سے تفتیش کی جائے تاکہ ان سے ان کے دیگر ساتھیوں کا پتا لگایا جائے۔انھوں نے بتایا کہ وہ ’ہمیں واقعی جان سے مارنا چاہتے تھے یا مارنے کی بات کر کے ہمیں ڈرانا چاہتے تھے۔ لیکن ہم بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہوئے۔ تفتیش کرنے کی بات نے انھیں وہاں کوئی سخت فیصلہ کرنے سے روک دیا۔انھوں نے کہا کہ وہ جتنے بھی لوگ تھے ان کے تاثرات پاکستانیوں کے بارے میں اچھے نہیں تھے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی نے بتایا کہ وہ ’ہم سے یہ بھی پوچھتے رہے کہ آپ لوگ پاکستان میں جہاد کو کیوں جائز نہیں سمجھتے۔ہم نے انھیں بہت سمجھایا کہ ’ہم جاسوس نہیں بلکہ ہمارا تعلق میڈیا سے ہے۔ لیکن وہ ہم پر تشدد کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اپنے دیگر ساتھیوں کے بارے میں بتائیں۔ہم ان کے تشدد کی وجہ سے خوف میں مبتلا تھے۔ میں نے انھیں کہا کہ آپ لوگ اسلام کی بات کرتے ہو، بتاﺅ کہ کسی ثبوت کے بغیر اسلام میں کسی کو سزا دینے کی کہاں اجازت ہے۔ انھوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی بلکہ یہ کہتے رہے کہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے بارے میں بتاﺅ۔ان صحافیوں کے مطابق اسی تفتیش کے دوران طالبان کے اس دفتر کے باہر فائرنگ کی آواز سنائی دی تو طالبان اس پر پریشان ہو گئے کہ شاید فائرنگ کرنے والے ’ہمارے ساتھی ہیں جو ہمیں چھڑانے کے لیے آئے ہیں۔باہر فائرنگ کے بعد دفتر میں ہماری نگرانی کے لیے صرف دو لوگوں کو چھوڑا گیا جبکہ باقی یہ کہہ کر نکلے کہ اگر باہر ان کے ساتھی ہیں تو انھیں یہاں فوراً گولی مار دینا۔اقبال مینگل نے بتایا کہ ’یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ وہ فائرنگ دور ہوئی تھی اور ہمارے لیے کسی سخت سزا کا باعث نہیں بنی۔ لیکن وہاں سے جانے والے طالبان کے واپس آنے تک جو دو طالبان ہماری نگرانی پر مامور تھے، وہ ہمیں مارتے رہے۔میرے پاس پانچ چھ سو افغانی تھے جبکہ چالیس ہزار پاکستانی روپے تھے۔ پاکستانی روپے میری خفیہ جیب میں تھے۔ مار پیٹ کے دوران جب انھوں نے محسوس کیا کہ اس جیب میں کچھ ہے تو انھوں نے یہ چالیس ہزار روپے بھی نکال لیے۔’
ان صحافیوں نے بتایا کہ کچھ دیر کے بعد کوئی بڑا عہدیدار آیا جس کا رویہ اچھا تھا۔ ’جب ہم نے تشدد کی شکایت کی تو انھوں نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا اور بتایا کہ کسی کو بلاجواز اور بلا ثبوت سزا دینے کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس شخص کے آنے کے بعد ’ہم پر تشدد میں کچھ کمی واقع ہوئی۔انھوں نے ہم سے پیسوں کا پوچھا تو ہم نے بتایا ہمارے پاس جو پانچ، چھ سو افغانی تھے وہ ہمارے پاس ہیں لیکن چالیس ہزار پاکستانی روپے ان دو افراد کے پاس ہیں۔اقبال مینگل کا کہنا تھا کہ جب طالبان کے بڑے عہدیدار نے ان سے چالیس ہزار روپے کا پوچھا تو ان جنگجوؤں نے پیسے نکالنے سے انکار کر دیا۔ان کے بڑے عہدیدار نے کہا کہ ’یہ صحافی ہیں کل یہ جا کر کچھ لکھیں گے یا بتائیں گے تو اس سے طالبان کی بدنامی ہو گی۔اس پر وہ دو طالبان سخت ناراض ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ’اگر آپ ان کی بات پر یقین کرتے ہیں تو میں ان دونوں کو ابھی گولی مار دوں گا جس پر ان کے بڑے عہدیدار نے کہا کہ اگر تم نے گولی ماری تو میں تمھیں گولی ماروں گا۔پیسوں کا مسئلہ حل نہ ہو سکا تو اقبال اور ان کے کیمرا مین کو ایک کمرے میں سونے کے لیے بھیج دیا گیا۔پاکستانی صحافیوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے بڑے عہدیدار کی مداخلت کے بعد ان کا خیال تھا کہ اگلے روز انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ہمیں اگلے روز صبح گیارہ بجے ایک بڑے حراستی مرکز میں لے گئے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سابق حکومت میں یہ ان کے خفیہ اداروں کا ایک بڑا مرکز تھا۔صحافیوں کے مطابق اس مرکز کے گیٹ پر موجود مسلح طالبان نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں تو انھیں بتایا گیا کہ یہ جاسوس ہیں۔ اس پر وہاں موجود طالبان نے کہا کہ ’ان کو ضربہ کرو (برسٹ مارو)۔ہم پہلے سے ہی سہمے ہوئے تھے لیکن حراستی مرکز کے باہر ان باتوں کو سن کر ہمیں پہلے سے زیادہ پریشانی ہوئی۔اقبال مینگل نے بتایا کہ ’ہمیں سب سے پہلے حراستی مرکز کے انچارج کے پاس لے جایا گیا۔ اس شخص کا رویہ پاکستانیوں کے بارے میں زیادہ سخت تھا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ یہ پاکستانی جاسوس ہیں تو انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے پہلے بھی ہمارے ملک کو تباہ کیا۔ اب یہاں کیوں آئے ہو؟وہاں تفتیش کے دوران تمام دستاویزات کو دیکھا گیا اور درست قرار دینے کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا گیا۔ بلکہ وہاں انھیں ایک بڑے کمرے میں رکھا گیا جہاں اور بھی لوگ زیر حراست تھے جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں جبکہ ایک یورپی یا امریکی صحافی تھا جو انھیں بظاہر سی این این کا نمائندہ معلوم ہوا۔صحافیوں کے مطابق یہ افراد نہیں جانتے تھے کہ انھیں حراست میں کیوں رکھا گیا ہے۔محمد اقبال نے بتایا کہ اس مرکز میں 11 روز بعد طالبان کا ایک اور اہم عہدیدار آیا جنھیں ’رئیس‘ کہہ کر پکارا جارہا تھا۔انھوں نے بھی ہمارے دستاویزات کو دیکھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ ہم آپ کے مہمان ہیں لیکن ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ہم نے انھیں یہ بھی بتایا کہ رپورٹنگ کے حوالے سے جو ضابطہ دیا گیا تھا ہمیں بتایا جائے کہ ہم نے اس کی کہاں خلاف ورزی کی جس کی بنیاد پر ہمیں اتنے روز بند رکھا گیا۔دونوں صحافیوں کے مطابق اس عہدیدار کا رویہ اچھا تھا اور اس نے یقین دہانی کرائی کہ ’آپ لوگوں کا کام ہو جائے گا۔ان کی آمد کے بعد ہمیں ایک چٹھی دے کر چھوڑ دیا گیا۔ چٹھی میں لکھا تھا کہ ’ان لوگوں کو تنگ نہ کیا جائے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ رہائی کے علاوہ چالیس ہزار بھی واپس کیے گئے۔ رہائی کے بعد وہ کابل سے قندہار پہنچے اور پھر چمن کے راستے واپس آئے۔رابطہ کرنے پر کوئٹہ میں 92 نیوز چینل کے بیورو چیف خلیل احمد نے بتایا کہ ’ہمیں جونہی ان کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو ہم نے رہائی کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’جتنے دستیاب ذرائع تھے ہم نے انھیں استعمال کیا۔خلیل احمد نے بتایا کہ افغان طالبان کے میڈیا سے متعلق جو عہدیدار تھے ان سے بھی ان کی رہائی کے لیے رابطوں کے علاوہ مراسلے بھی بھیجے گئے۔پشاور میں بی بی سی کے نمائندے عزیز اللہ خان نے واٹس ایپ پر ان صحافیوں کی گرفتاری اور گیارہ روز تک حراست میں رکھنے کے حوالے سے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو جو سوالات بھیجے تھے ان کا جواب آڈیو میسیج کے ذریعے دیا گیا۔ ان کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے مجاہدین اتنے دنوں تک کسی صحافی کو حراست میں رکھتے ہیں۔انھوں نے اسے پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مجاہدین اگر کسی وجہ سے کسی صحافی کو روکتے ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ آدھا یا ایک دن کے لیے ہو سکتا ہے۔ لیکن مجاہدین کی جانب سے گیارہ دنوں تک صحافیوں کو گرفتار رکھنے کی بات بے بنیاد ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر سابق افغان حکومت کے خفیہ ادارے کے اہلکاروں کی جانب سے ان صحافیوں کو حراست میں رکھا گیا ہو تو وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ’لیکن مجاہدین کے حوالے سے یہ بات درست نہیں ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔