تحریر: حافظہ مریم خان
تعلیمی اصلاحات وقت کاتقاضاہے کیونکہ جب تک عصرحاضرکے تقاضوں کے عین مطابق نظام تعلیم رائج نہیں کیاجائے گا تب تک بنیادی مسائل سے بھی چھٹکارہ ممکن نہیں ہے ۔ہمارے نظام میں تعلیم میں نہ صرف نصاب ہی نقائص سے بھراہواہے بلکہ طریقہ تدریس میں بھی بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے آج ہم یہ جان ہی نہیں پا رہے کہ بچے کوکس طرح پڑھائی کی طرف راغب کیاجاسکتاہے اوربچہ تعلیم کے کس شعبہ میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ تحقیق سے خالی ‘نظام تعلیم’ سے محض رٹّو طوطے پیداکیے جارہے ہیں جن سے ملک میں کلرکوں کی بھاری تعدادتوپیداہورہی ہے لیکن ایجادات کرنے والے دماغ ناپیدہیں ۔ جن بچوں کے اندر کوئی صلاحیتیں موجودہوتی ہیں وہ بھی گائیڈلائن نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہیں۔ طریقہ تدریس پرغور و فکر کی ضرورت ہے ، نجی و سرکاری اسکولوں میں یکساں نصاب تعلیم ترتیب دیئے بغیرہم وہ مقاصدحاصل نہیں کرپائیں گے جوایک ترقی یافتہ قوم کی ضرورت ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے طلبا میں جواحساس کمتری کی لہر پائی جاتی ہے اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہے کیونکہ ملک کی اکثریت سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہی ہے اوراگرسرکاری اسکولوں میں اصلاحات نہ کی گئیں تو ذہین بچوں کی ایک بڑی تعداد ضائع ہوتی رہے گی۔ قوم کواس وقت اعلٰی تعلیم یافتہ ایسے افرادکی ضرورت ہے جوبین لااقوامی معیارکے مطابق تعلیم حاصل کرکے دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے گلوبل ویلیج میں مقابلے کی دوڑ میں بھی شامل ہوسکیں۔ پچھلے سال ایک نجی اکیڈمی کی جانب سے ‘آل سندھ ایجوکیشن’ کے نام پرایک پروگرام آرگنائزکیا گیا تھا جس میں کافی اسٹالز لگائے گئے اوراس میں قریباً (150) ڈیڑھ سوکے قریب نجی اسکولوں نے حصہ لیا تو (100) سو کے قریب سرکاری اسکولوں کو بھی اپنی کارکردگی کامظاہرہ کرنے کاموقع ملا۔ میری ایک تحریر میں بھی اس بات کی طرف متوجہ کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ طریقہ تدریس کو بہتر سے بہتر بنایا جائے تفویض و تحقیق کو فروغ دیا جائے مقابلوں کا انعقاد کیا جائے اور ان مقابلوں میں نجی اور سرکاری اسکولوں کے طلبا کو ایک ہی پلیٹ فارم دے کر ایک دوسرے کے مدِّ مقابل کھڑا کیا جائے تاکہ طلبا میں خود اعتمادی پیدا ہو اور پھر وہاں موجود حاضرین نے تمام اسکولوں کی کارکردگی پر شاندار داد دی۔ وہ پروگرام دودن تک جاری رہا اورلاکھوں لوگوں نے اس میں شمولیت اختیارکی تھی اوراپنی تجاویز بھی دیں ۔ لاکھوں وزیٹرز نے ایکسپو کادورہ کیا اور میزبانوں کی خدمات کوسراہا اوراس سلسلے کومزید آگے تک بڑھانے کیلئے تجاویز بھی پیش کیں۔ ہال میں موجود شائقین سے پوچھاگیاتوان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے پروگرامز جاری رہنے چاہیں، اس سے بچوں کے اندرچھپی ہوئی صلاحیتیں بیدارہوتی ہیں اورانہیں آگے بڑھ کراپنی صلاحیتیوں کو بتانے کاموقع ملتاہے۔ نہ صرف بچوں کوبلکہ بڑوں اور ہرعمر کے انسان کوبھی تفریح کاموقع ملتاہے اور اس طرح کے پروگرامز سے دلچسپی رکھنے والے ہرانسان میں جو چھپی ہوٸ صلاحیت ہوتی ہے وہ نھکر کر سامنے آتی ہے اور جس سے معاشرے کو عالمی سطح پر بھی خدا داد صلاحیت کے نظرانے پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پروگرام میں شرکت کرنے والے ہرشخص نے اپنی خوشی کااظہارکیا تھا اور شرکاکی خوشی انکے چہروں سے جھلک رہی تھی۔ پروگرام میں حصہ لینے والا ہر طالب علم ایک امید لے کرواپس لوٹاتھا کہ وہ زندگی میں ملک وملت کیلئے کچھ بہترین کرنے کی کوشش کرے گا مگر اب کوٸ پُرسان حال نہیں ہے کچھ نہیں تو سال میں ایک ایسا ‘میگاایونٹ’ ترتیب دینا چاہیے جس میں طلبا کو اپنی صلاحیت دکھا کر داد سمیٹنے کا اور اپنے آپکو پہچاننے کا موقع مل سکے اور مزید ایسے پروگرامز میں شرکت کر کے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے ہوئے عالمی سطح پر بھی اپنے ملک کا نام روشن کرنے کا موقع مل سکے ۔ ہرانسان میں کوٸ نا کوٸ ہنر ، صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر اس طرح کے مواقع ملیں تووہ اپنے اندرکے سوئے ہوئے انسان کوجگا کرایک مکمل انسان بنانے پرآمادہ ہوسکتاہے لیکن اس کیلئے مسلسل جدو جہد اوراس طرح کے صلاحیت کو (expose) بے نقاب کرنے والے پروگرامز کی ضرورت ہے تاکہ قوم کوجدیدتقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مددملے ۔ یہ سب کاوشیں اس اکیڈمی کی تھیں جنہوں نے اتناخوبصورت پروگرام ترتیب دے کرشائقین کواپنی جانب متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک امیدکی کرن بھی روشن کی ۔ اسی طرح مزید اکیڈمیز کو چاہیے کہ اس طرح کے پروگرامز کو ترتیب دیکر طلبا کی ذہانت اور انکے اندر چھپی ہوٸ صلاحیتوں اور جسمانی تعلیم کو فروغ دیتے ہوئے طلبا کی ذہنی صلاحیت کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کریں اور مخصوص سلیبس کی کورس آٶٹ لاٸن اور محدود سرحد سے نکل کر اپنے اندر کی چھپی ہوئی اضافی خدا کی طرف سے عطا کی ہو ٸ صلاحیت کو جاننے، پہچاننے اور ابھارنے کا موقع فراہم کریں۔۔ اللّٰہ پاک ہمارے ملک کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن فرما اور ہرانسان کو تعلیم حاصل کر نے کے بعد اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ملک کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہو ، نا کہ صرف ڈگری یافتہ ہو ۔(حافظہ مریم خان)