تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ہمیں سوفیصد یقین ہے کہ اکیس ویں صدی کی جو نسل جوان ہورہی ہے، انہیں اردو سے کوئی دل چسپی نہیں۔۔ رومن اردو نے جہاں ایک جانب نوجوان نسل کی اردو کا ستیاناس کیا ہے،وہیں بالی وڈ کی موویز نے بھی ان کی اردو کا کباڑا کردیا ہے۔ اب یقین کی جگہ وشواس، قسم کی جگہ شپت ایسے الفاظ نوجوانوں کی ڈکشنریوں میں پائے جاتے ہیں۔۔ویسے انڈین فلموں کی رسیا ہماری نوجوان نسل بھی اب اردو کا”کریاکرم“ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔۔ بہت سے لفظ اب ہندی کے بہت آسانی سے بولے جانے لگے ہیں۔۔
استاد نے کلاس میں ریاضی کے مضمون میں فیل ہونے والے طالب علم سے جب فیل ہونے کی وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگا۔۔ استاد جی! سال کے 365 دِن ہوتے ہیں، روزانہ 8 گھنٹے سونے کے نکالو تو 122 دِن بنتے ہیں، سو (365-122) کرنے کے بعد باقی بچے 243 دِن۔ گرمیوں، سردیوں کی چھٹیاں ملاؤ تو تقریباً 90 دِن بنتی ہیں، تو (243-90) کے بعد باقی بچے 153 دِن۔ پورے سال میں 52 اتوار ہوتے ہیں، تو (153-52) کیا تو باقی بچے 101 دِن۔ کبھی پاکستان ڈے، کبھی اقبال ڈے، کبھی قائد ڈے اور اِسی طرح عید، محرم، ربیع الاول وغیرہ کی چھٹیاں شامل کی جائیں تو تقریباً 20 چھٹیاں وہ بنتی ہیں، تو (101-20) کیا تو باقی بچے 81 دِن۔ کھانے پینے، نہانے دھونے، کھیلنے کودنے کے اگر 5 گھنٹے بھی لگاؤ تو سال کے حساب سے 76 دِن بنتے ہیں، اب (81-76) کیا تو باقی بچے 5 دِن۔ کبھی ا سکول کا ٹرپ چلا جاتا ہے، کبھی ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو اگر اِن سب کے 4 دِن بھی لگاؤ تو (5-4) کرنے کے بعد باقی بچا 1 دِن۔ اور استاد جی! سال میں 1 دِن تو اپنی برتھ ڈے کا بھی آتا ہے، اب آپ ہی بتاؤ، بھلا اپنی برتھ ڈے والے دِن بھی کوئی پڑھتا ہے کیا۔؟
ایک کلاس روم میں خاتون ٹیچر نے بچوں کو نامکمل فقرہ دے کر اسے مکمل کرنے کا کہا۔۔نامکمل فقرہ کچھ یوں تھا۔۔ہربڑے آدمی کے پیچھے۔۔۔ عورت ہوتی ہے۔۔۔ہر طالب علم نے اس فقرے کو اپنی اپنی سوچ کے مطابق مکمل کیا۔۔بچوں کے جواب کچھ اس طرح سے تھے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے پھر بھی وہ بڑا آدمی بن جاتا ہے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے، جس سے ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے،جو اسے یاد دلاتی رہتی ہے کہ تم میرے باپ کی وجہ سے بڑے آدمی بنے ہو۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اسے بار بار بتاتی رہتی ہے کہ قسمت کا پھیر ہے ورنہ اس کیلئے اچھے رشتے تو اور بہت تھے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جسے یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کے آگے کھڑا آدمی واقعی ایک بڑا آدمی ہے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اس پر ہمیشہ شک کرتی رہتی ہے۔۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو یہ سوچ کر حیران ہوتی رہتی ہے کہ دنیا اس بیوقوف آدمی کو بڑا آدمی کیوں کہتی ہے۔۔ ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اس کے کان میں کہتی رہتی ہے کہ میرے بغیر تم کچھ بھی نہیں۔۔سب سے کلاسیکل جملہ یہ تھا۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے، جو دوسری عورتوں کو اس کے قریب پھٹکنے نہیں دیتی۔۔اسی طرح سے ایک بار استادنے کلاس میں سوال کیا، شادی سے پہلے مرد کیا ہوتا ہے؟ایک شاگرد نے جواب دیا، انسان۔۔استاد نے اگلا سوال داغا، اور بعد میں؟؟۔۔ شاگرد نے فوری جواب دیا۔۔ شوہر۔۔ ایک خاتون ٹیچر نے کلاس میں بچے سے پوچھا، تم بڑے ہوکرکیا کروگے؟؟بچے نے جواب دیا، نکاح۔۔لیڈی ٹیچر نے سوال کی وضاحت کی میرا مطلب ہے کیا بنوگے؟،بچے نے کہا، دلہا۔۔لیڈی ٹیچر نے پھرسوال کیا، میرا مطلب بڑے ہو کر کیا حاصل کرو گے؟بچے نے جلدی سے کہا، دلہن۔۔ٹیچر کو غصہ آگیا، کہنے لگیں، بدتمیز، بڑے ہوکر اپنے امی،ابو کے لئے کیا کروگے؟بچے نے معصومانہ انداز میں کہا، بہو لاؤں گا۔۔ٹیچر نے پھر کہا، ارے بے وقوف، تمہارے ابوتم سے کیا چاہتے ہیں؟ بچے نے جلدی سے کہا، پوتا۔۔ٹیچر کا غصہ اپنے عروج پر پہنچ گیا، ابے نالائق،تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے؟، بچے نے شرماتے ہوئے کہا،شادی۔۔جب ٹیچر نے کلاس سے ”خودمختار“ کا جملہ بنانے کا کہاتو ایک شاگرد بولا۔۔ ندیم افضل چن نے خود مختار کو فون کر کے گھر وڑ جانے کی تلقین کی۔
باباجی فرماتے ہیں،عقل اگر دکانوں پر ملتی تو لوگوں نے پھر بھی کہنا تھابھائی تھوڑی سستی لگاؤ ہم ہر بار یہاں سے لیتے ہیں۔۔باباجی کہتے ہیں۔۔میرے ایک بزرگ دوست جوکہ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے کہا کرتے تھے کہ یار! ساری عمر ڈرتے ہی رہے ہیں۔ پہلے والدین سے پھر پڑھائی کے زمانے میں استادوں سے، سروس میں افسروں سے اور موت کے خوف سے خدا سے۔ میں نے کہا کہ ملک صاحب! آپ نے بیوی سے ڈرنے کا ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ کہنے لگے۔۔ ڈر کے مارے نہیں کیا ہے۔۔ہماری نوجوان نسل اتنی ذہین ہے کہ اگر انہیں کسی مسئلے کا حل بتائیں تو وہ آپ کو حل میں سے مسئلہ نکال دے گا۔۔جب مدرسے میں ایک استاد کے مرنے پر تعطیل دی گئی تو اگلے ہی روز ایک شاگرد نے دریا میں اپنے ایک اوراستاد کو ڈوبتے دیکھا،تووہ چلاّتا ہوا مدرسے کی طرف بھاگا۔۔کل چھٹی ہے۔۔۔ کل چھٹی ہے۔۔بچوں سے بھری کلاس میں ٹیچر نے پوچھا۔۔رشید تم بڑے ہوکرکیا بنوگے؟؟ رشید نے کہا، سرجی،ایم بی اے کر کے بڑا تاجر بنوں گا۔ شہر کے سب سے پوش علاقے میں گھر بناؤں گا۔ غیر ممالک کی سیر پر جاؤں گا تو فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کروں گا۔ نوکر چاکر ہوں گے، بڑی قیمتی کاریں ہونگی۔ٹیچر نے کہا۔۔ بس، بس۔ اور دوسرے بچوں سے کہا کہ اتنا لمبا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ ایک جملے میں بتاؤ۔اورپھر کہا۔۔بتاؤ صبا تم کیا بنو گی بڑی ہو کر؟۔۔صبا نے بڑی معصومیت سے برجستہ کہا۔۔میں رشید کی بیوی بنوں گی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پان کھانے والا بندہ جب بات کرنے سے پہلے پان پھینک دے،تو سمجھ جاؤ کہ بات بہت قیمتی کرنے والا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔