تحریر: عامر سید۔۔
ورج او اے لیویل کمپنی میں تعلیم کے نام پر دھوکا اور فراڈ ہورہا ہے، پیسہ کمانے کا نیاانداز سامنے آیا ہے۔میرا نام عامر سید ہے اور میں ایک پرائیویٹ ڈیجیٹل ایجنسی کا چیف ایگزیٹیو ہوں۔ میں تمام مقتدر و متعلقہ حلقوں کی توجہ ایک انتہائی اہم معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ میرا بیٹا جو کہ او لیول میں گریڈ ٹین کا طالب علم ہے۔ اسے ایک ماہ قبل او لیول کے ایک پرائیویٹ ادارے ورج او اے لیویل کمپنی (ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ) پی ای سی ایچ ایس بلاک تین، خالد بن ولید روڈ کیمپس میں داخلہ دلوایا۔ اس ادارے کی مقبولیت اور تعلیمی معیار کی شہرت کی وجہ سے میں نے بھاری بھرکم فیسیں ادا کرکے یہ داخلہ ممکن بنایا۔ مجھ سے داخلے کے وقت بیس ہزار روپے ایڈمیشن، ساڑھے سولہ ہزار ماہانہ ٹیوشن فیس، پندرہ ہزار روپے سیکورٹی فیس اور تقریبا دس ہزار روپے ورج کے اپنے تیار کردہ نوٹس کے نام پر وصول کئے گئے یعنی تقریبا ساٹھ ہزار روپے سے زیادہ۔ جبکہ ٹرانسپورٹ کے پندرہ ہزار روپے ملا کر یہ رقم لگ بھگ پچھتر ہزار سے زائد بنتی ہے۔ ابھی مہینہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ ورج انتظامیہ کے کیمپس منیجر سمیر سلیم شیخ صاحب نے مجھے بلایا اور یہ کہہ کر بچے کو ایک ہفتے کی چھٹی پر بھیج دیا کہ بچے نے انتظامیہ کے نمائندے حمزہ سے بدتمیزی کی ہے۔ آپ اسے تنبیہ کریں۔ میں ایک ہفتے بعد جب انسٹی ٹیوٹ گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر نام ہی خارج کردیا کہ ہماری سیٹ پوری ہوگئی ہے اب اسے اگلے سال بھیجئے گا۔
یہ میرے لئے عجیب فیصلہ تھا، اتنی بھاری فیسوں کی وصولی کے بعد اچانک سے تعلیمی سال کے دوران بچے کو اسکول سے بغیر کسی پیشگی تنبیہ، نوٹس یا کارروائی کے اچانک فارغ کردینا کسی والدین کے لئے بھی قابل قبول نہیں۔ میں نے جب سمیر سلیم شیخ صاحب کیمپس انچارج سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ادارے کے چار ڈائریکٹرز عذیر یعقوب، بلال بشیر، قبیر بہوت اور حمزہ علی کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ (میرے اندازے کے مطابق یہ چار ڈائرکٹران اس واقعہ سے واقف بھی نہیں ہوں گے) میں نے عذیر یعقوب صاحب سے ملاقات کی تو انہوں نے ہی مشورہ دیا تھا کہ آپ بچے کو تنبیہ کے لئے ایک ہفتے کا ریسٹ دیں اور اسے ڈرائیں دھمکائیں کہ میں آپ کو نہیں پڑھا سکتا، تاکہ یہ اپنی تعلیم پر فوکس کرسکے۔
جب میں نے واقعہ کی تفصیلات معلوم کیں تو کئی اہم انکشافات کا سامنا ہوا۔ ورج کمپنی بھاری فیسز وصول کرکے بچوں کو داخلہ دیتا ہے اور پھر کسی بھی معمولی وجہ کو بنیاد بنا کر بچے کو خارج کرکے اس کی داخلہ فیس ہڑپ کرلی جاتی ہے اور پھر اس سیٹ پر نئے بچے کو داخلہ دے دیا جاتا ہے اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس سے والدین کو مالی نقصان سے زیادہ بچے کے تعلیمی سال ضائع ہونے کا دکھ ہوتا ہے۔ بچے کا سارا تعلیمی کلینڈر اور مستقبل تباہ کردیا جاتا ہے۔
انتظامیہ میں ایک ورج کے سابق طالب علم حمزہ کو بدمعاشی اور بدتمیزی کے لئے ایک غنڈے کی حیثیت سے رکھا گیا ہے جو کہ بچوں اور بچیوں سے انتہائی بدتمیزی اور غلیظ لہجے میں بات کرتا ہے اور بھری کلاس میں درجنوں طلباٗ و طالبات کے سامنے بچے کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے۔ بچہ جب رد عمل میں کوئی سخت جواب دیتا ہے تو اسے اسی الزام پر بغیر کسی شوکاز یا تنبیہ کے بیک جنبش قلم اسکول سے فارغ کرکے اس کی داخلہ فیس ہڑپ اور اس بچے کا مستقبل تباہ کردیا جاتا ہے۔
میں نے انتظامیہ کی توجہ اس جانب بذات خود مبذول کرائی تو سمیر صاحب نے نہ صرف اعتراف کیا اور تادیبی کارروائی کا یقین بھی دلایا۔ مجھے یہ نہیں سمجھ آئی کے کلاس میں محترم اساتذہ کی موجودگی ایک رنگ ماسٹر یا انتظامیہ کے غیر مہذب نمائندے کی کیا ضرورت ہے جو بچوں سے نازیبا الفاظ میں گفتگو کرے۔ حمزہ کے اس بدتمیز اور بدتہذیب رویے کی شکایات کئی طالب علم اور اجتماعی طور پر پوری جماعت بھی انتظامیہ اور کیمپیس انچارج سے بارہا کرچکی ہے جس پر انہیں صرف دلاسے اور کارروائی کرنے کا کہہ کر چپ کرایا گیا، نتیجے میں میرے ہی بچے کو اسکول سے فارغ کردیا گیا۔
مزید یہ کہ ورج انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ ناظم آباد میں رات کو بھی کوچنگ کرتے ہیں تو مجھے کہا گیا کہ آپ وہاں کوچنگ سینٹر میں داخلہ لے لیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ان اساتذہ سے ہی پڑھنا ہے تو ورج کیمپس سے کیوں خارج کیا گیا۔ اس بات کا صاف مطلب ہے کہ اساتذہ کرام کو اس معاملے سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔ وہ اپنے ہی دوسرے اداروں میں یہاں سے طلبا کو بھیجتے ہیں جبکہ ٹیچرز وہاں بھی یہی ہیں۔
واضح رہے کہ مجھے یقین ہے کہ تمام ڈائرکٹرز، اور اساتذہ اس تمام معاملے سے بے خبر ہوں گے۔ تمام اساتذہ بہت قابل احترام اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں ماہر ہیں۔ مگر ادارے میں ان کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے یہ ناقابل فہم ہے۔
دیگر بہت سی تفصیلات اور ثبوت موجود ہیں۔ میرے بچے کے ساتھ تو جو کچھ ہونا تھا ہوگیا۔ میری اس کارروائی کا مقصد صرف یہ ہے کہ دیگر والدین اس ادارے کی اصلیت سے واقف ہوسکیں۔ میں اپنے بچے کے تعلیمی مستقبل کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائوں گا جو کہ میرا بنیادی حق ہے۔ اس حوالے سے میں سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن داخل کررہا ہوں۔ میں تمام تعلیمی انجمنوں، ڈائرکٹر ایجوکیشن، تمام تعلیمی میڈیا رپورٹرز، انفلوئنسرز سے درخواست کرتا ہوں کہ تعلیم کے نام پر ہونے والے اس فراڈ کو روکنے میں میرا ساتھ دیں۔ میں تمام رپورٹرز اور پیرنٹس ایسوی ایشنز کے ساتھ مل کر عنقریب ایک پریس کانفرنس بھی کرنے جا رہا ہوں۔
میں تمام مقتدر حلقوں، ارباب اختیار، تعلیمی انجمنوں، ابلاغی و نشریاتی اداروں، سوشل میڈیا کے انفلوئنسرز گروپوں سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ اس اہم معاملے کو اجاگر کرنے میں مدد کریں تاکہ کسی اور بچے کا مستقبل تباہ نہ ہو۔ میں بیس برسوں سے میڈیا سے وابستہ ہوں اپنی حیثیت میں، میں جو کچھ کرسکا اپنے بچے اور دیگر بچوں کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے آخری حد تک کوشش کروں گا۔ (عامر سید)۔۔