charsio ka sheher

تعلیم دولت نہیں دیتی

تحریر: جاوید چودھری۔۔

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی‘ کتابیں پڑھنے کا شوق بھی تھا‘ دنیا جہاں کی بیسٹ سیلر کتابیں پڑھ رکھی تھیں‘ شخصیت بھی دل آویز تھی‘ صاف ستھری زندگی گزار رہا تھا اور ذہنی طور پر بھی چست اور مہذب تھا لیکن اس کے باوجود وہ ٹینشن اور اینگزائٹی کا شکار تھا‘ تین سال میں چھ نوکریاں بدل چکا تھا‘ اپنا کام بھی شروع کیا اور اس میں بھی ناکام ہو گیا چناں چہ ”وہ کیریئر کرائسیس“ کا شکار تھا‘ میں نے اسے جم میں بلا لیا‘ میں ایکسرسائز کرتا رہا اور نوجوان اپنی کہانی سناتا رہا۔اس کا کہنا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے تعلیم اور عقل دونوں دے رکھی ہیں مگر میں اس کے باوجود کام یاب نہیں ہو رہا جب کہ میری کلاس کے نالائق اس وقت پانچ پانچ کروڑ کی گاڑیوں میں بیٹھے ہیں اور میں اپنے والد کی سوزوکی کار بھی بیچنے پر مجبور ہوں‘ کیوں؟ میں اس کا مسئلہ سمجھ گیا‘ میں نے اسے آرام کرنے کا مشورہ دیا اور اس سے کہا‘ ہم شام کے وقت ملاقات کریں گے اور میں تمہیں تمہارے مسئلے کا حل بتا دوں گا‘ میں اس کے بعد اپنے روزانہ کے معمول میں مصروف ہو گیا‘ شام کے وقت واپس آیا اور اسے لے کر اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا۔

میرا یہ دوست کام یاب بزنس مین ہے‘ ڈیڑھ ارب روپے کے گھر میں رہتا ہے‘ پانچ چھ کمپنیاں چلا رہا ہے اور ان کمپنیوں میں ہزار ہزار‘ بارہ بارہ سو لوگ کام کر تے ہیں‘ میں نے نوجوان کا اس کام یاب بزنس مین سے تعارف کرایا اور اس کے بعد اس سے پوچھا ”مرزا صاحب آپ بتائیں آپ کی تعلیم کتنی ہے؟مرزا صاحب نے ہنس کر جواب دیا ”میٹرک فیل“ میں نے پوچھا ”آپ نے زندگی میں کبھی کوئی کتاب پڑھی ہو“ مرزا صاحب کا جواب تھا ”میں نے بچپن میں داستان امیر حمزہ پڑھی تھی اور وہ بھی بھول گیا ہوں بس ٹائٹل یاد ہے“ میں نے اس کے بعد پوچھا ”آپ نے پھر اتنی دولت کیسے کمائی؟“ وہ ہنس کر بولے ”میں مکمل سیلف میڈ ہوں‘ والد منڈی میں چاولوں کا کاروبار کرتے تھے اور اس میں بھی گھاٹا پڑ گیا چناں چہ مجھے میٹرک میں تعلیم چھوڑ کر کام کرنا پڑ گیا بس اللہ تعالیٰ نے ہاتھ پکڑ لیا اور اس کا فضل ہو گیا“ ہم اس کے بعد دیر تک گپ لگاتے رہے۔

میں نے واپسی پر راستے میں نوجوان سے پوچھا ”آپ کا کیا خیال ہے اس شخص نے کیسے دولت کمائی؟“ نوجوان سوچ کر بولا ”مجھے یہی پریشانی ہے‘ اللہ تعالیٰ جاہلوں اور کم عقلوں کو زیادہ نوازتا ہے جب کہ ہم جیسے پڑھے لکھے سڑکوں پر دھکے کھاتے رہتے ہیں“۔میں نے عرض کیا”99 فیصد نوجوان یہی سمجھتے ہیں‘یہ دولت اور کام یابی کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ناکام ہیں“یہ تصور غلط ہے‘ نوجوان اپروچ میں مار کھا رہے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں دولت اور کام یابی عقل اور تعلیم کی دین ہوتی ہے‘ آپ اگر ذہین ہیں اور آپ نے اگر اس کے ساتھ یونیورسٹی میں ٹاپ کر لیا ہے تو پھر دولت اور کام یابی آپ کا حق ہو گیا جب کہ کام یابی اور دولت کا عقل اور تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ مثلاً میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔

پنجاب کی خوب صورت ترین طوائف موراں ایک دن راجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں ناچ رہی تھی‘ ناچتے ناچتے اس نے پہلے اپنے گلاب جیسے پاؤں دیکھے‘ دربار کے شیشوں میں اپنے حسن کا عکس دیکھا اور پھر سامنے تخت پر بیٹھے کانے‘ بدصورت اور بے ڈھنگے رنجیت سنگھ کو دیکھا اور اس کی ہنسی نکل گئی‘ رنجیت سنگھ کائیاں شخص تھا‘ وہ اس کی طنزیہ ہنسی بھانپ گیا اور اس نے رقص رکوا کر موراں سے پوچھا‘ تم مجھے دیکھ کر کیوں ہنسی تھی؟ موراں ڈر گئی‘ بادشاہ اس کا خوف بھی بھانپ گیا لہٰذا اس نے اسے جان کی امان دے کرپوچھا ”تم مجھے دیکھ کر کیوں ہنسی تھی؟موراں نے ہاتھ جوڑ کر کہا‘ حضور میں نے پہلے شیشے میں اپنا سراپا دیکھا اور اس کے بعد جب آپ پر نظر پڑی تو میرے دل میں آیا اپنے زمانے کی سب سے خوب صورت عورت کس کے سامنے ناچ رہی ہے اور مجھے اس کے ساتھ ہی قدرت کی ستم ظریفی پر ہنسی آ گئی‘ رنجیت سنگھ نے قہقہہ لگایا اور کہاں موراں دنیا جب بن رہی تھی تو اس وقت رب کے سامنے دو قطاریں لگی تھیں‘ ایک قطار میں خوب صورتی‘ ذہانت اور علم کے متلاشی کھڑے تھے جب کہ دوسری قطار میں صرف اللہ کے کرم کے متمنی لوگ تھے‘ تم اس وقت پہلی قطار میں تھی اور میں دوسری میں‘ اللہ نے تمہاری بھی سنی اور میری بھی‘ تم خوش شکل ہو گئی اور میں خوش نصیب اور یہ حقیقت ہے خوش شکل‘خوش عقل اورخوش علم لوگوں کو خوش نصیبوں کے دربار میں ناچنا پڑتا ہے لہٰذا تم ناچ رہی ہو اور میں خوش ہو رہا ہوں‘ بات صرف اتنی ہے۔

میں نے نوجوان کو یہ حکایت سنانے کے بعد پوچھا‘ یہ بات سننے اور سنانے میں اچھی لگتی ہے مگر ہے یہ بھی غلط‘ اصل ایشو کوئی اور ہے۔نوجوان نے مسکرا کہا ”اصل ایشو کیا ہے؟“ میں نے ہنس کر جواب دیا ”کام یابی اور دولت دونوں سکل سے آتی ہیں‘ اس کے لیے ہنر چاہیے اور ہنر کا علم اور عقل دونوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مثلاً راولپنڈی اور اسلام آباد میں چکن پلاؤ کا ایک برینڈ ہے‘ یہ 20 ارب روپے کا برینڈ ہے مگر اسے بنانے اور چلانے والا ان پڑھ بھی تھا اور ذہنی طور پر ایوریج بھی لیکن اس کے پاس درجنوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین لوگ ملازم ہیں‘ کیوں اور کیسے؟وجہ سیدھی اور سادی ہے‘ اس شخص میں اعلیٰ پائے کا سستا پلاؤ بنانے کا ہنر تھا‘ وہ تھوڑے سے سازوسامان سے کم قیمت میں انتہائی لذیذ پلاؤ بنا لیتا تھا چناں چہ اس کے گاہک بڑھتے گئے اور وہ ترقی کرتا گیا مثلاً میں آپ کو جس مرزا صاحب کے پاس لے کر گیا تھا وہ ڈیل میکر ہے‘ آپ اسے جوبائیڈن کے ساتھ بٹھا دیں یہ اس سے بھی کوئی نہ کوئی ڈیل لے لے گا‘ اس کی ساری گروتھ اس کی اس سکل کے اردگرد گھومتی ہے‘ یہ ایک بار بینکوں کا مقروض ہو گیا تھا‘ اس کے تمام اثاثے قرق ہو رہے تھے مگر اس نے بینکوں سے آدھ گھنٹے میں ایک ایسی ڈیل کر لی جس سے یہ مکھن کے بال کی طرح بحران سے نکل گیا۔

میں نے کسی جگہ پاکستان کے ایک نوجوان کے بارے میں پڑھا تھا اس نے ماتھے سے انڈے توڑنے کی سکل ڈویلپ کر لی اور اس نے اس کے ذریعے اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرا لیا اور آپ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو بھی دیکھ لیجیے‘ اس کے مالک ہیوبیورنے 1955ء میں دنیا جہاں کے منفرد لوگوں کے پروفائل چھاپ کر نئی دنیا کی بنیاد رکھ دی چناں چہ یہ یاد رکھیں دنیا میں صرف سکل بکتی ہے‘ آپ کے پاس جب تک کوئی ہنر نہیں ہو گا‘ آپ اس وقت تک کام یاب اور امیر نہیں ہو سکیں گے۔دولت ایک دروازہ ہے‘ یہ دروازہ صرف سکل کی چابی سے کھلتا ہے جب کہ آپ لوگ اسے ذہانت اور تعلیم کی چابی سے کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ آپ خود فیصلہ کریں یہ کیسے کھلے گا۔

نوجوان تھوڑا سا سوچ کر بولا‘ آپ نے ابھی راجہ رنجیت سنگھ کی کہانی سنائی تھی‘ وہ مقدر کو اپنی کام یابی کی وجہ قرار دے رہا تھا‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ سکل مقدر کا دوسرا نام ہے اور ریاضت یعنی پریکٹس تیسرا‘راجہ رنجیت سنگھ ”ٹیم میکنگ“ کا ایکسپرٹ تھا‘ وہ ماہر اور ہنرمندوں کو اکٹھا کر لیتا تھا‘ وہ پنجاب کا پہلا حکمران تھا جس نے فوج میں فرنچ اور اٹالین افسر بھرتی کیے‘ اس کے زمانے میں پنجابی فوج کا آرمی چیف فرنچ جنرل یان بٹسٹا ونچورا تھا جب کہ مسلمان دانشور فقیرعزیزالدین اس کا وزیر تھا‘ اس نے مسلمان عورت موراں سے شادی کی اور موراں نے لاہور میں موراں مسجد بنائی اور وہ مرنے تک مسلمان رہی‘ وہ مردم شناس تھا۔

وہ ہزار لوگوں میں سے اپنے کام کا بندہ تلاش کر لیتا تھا اور پھر اسے اس کی صلاحیت کے مطابق عہدہ دیتا تھا چناں چہ اگر یہ کہاجائے مردم شناسی اس کی سکل تھی تو یہ غلط نہیں ہو گا اور یہی اس کے مقدر اور کام یابی کی وجہ تھی‘ اب سوال یہ ہے ہم اپنی مہارت یا فن کو سکل اور سکل کو کام یابی اور کام یابی کو دولت میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں؟

یہ سائنس بھی بہت آسان ہے‘ آپ کوئی کام سیکھیں اور پھر اس کی پریکٹس شروع کر دیں‘ اتنی پریکٹس کریں‘ اتنی پریکٹس کریں کہ آپ وہ کام آنکھیں اور کان بند کر کے بھی کر سکیں بالکل طبلہ نواز‘ بیٹس مین اور تندورچی کی طرح‘ طبلہ نواز‘ بیٹس مین اور تندورچی کے ہاتھ ان کی سوچ سے تیز چلتے ہیں اور یہی ان کی کام یابی ہوتی ہے اور جب آپ کو اپنی سکل کا ریٹرن آنے لگے تو پھر آپ اسے دولت میں تبدیل کر دیں۔سرمایہ کاری سیکھیں‘ آپ مرزا صاحب بن جائیں گے جب کہ آپ لوگوں اور ہماری یونیورسٹیوں میں یہ خرابی ہے یہ طالب علموں کو صرف ڈگریاں دیتی ہیں سکل نہیں دیتیں‘ میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی سے نکلنے والے طالب علم کے پاس صرف ڈگری ہوتی ہے‘ یہ انجینئر یا ڈاکٹر نہیں ہوتا جب کہ پیسے کمانے کے لیے اس کا ڈاکٹر اور انجینئر ہونا ضروری ہوتا ہے۔

کاش ہماری یونیورسٹیاں ڈگری سے سکل پر شفٹ ہو جائیں اور آپ لوگ کام یابی کا دروازہ ذہانت اور تعلیم کی چابی سے کھولنے کے بجائے سکل سے کھولیں‘ یہ یاد رکھو تعلیم انسان کو وژن دیتی ہے دولت نہیں‘ دولت بہرحال آپ کو اپنے فن‘ اپنے ہنر سے ہی کمانی پڑتی ہے‘ آپ اپنے فن کو جتنا بہتر بناتے رہیں گے آپ اتنے امیر ہوتے جائیں گے لہٰذا کوئی ہنر سیکھو اور ابراہم لنکن کا یہ قول یاد رکھو ”میں جتنی محنت (پریکٹس) کرتا گیا میں اتنا ہی خوش نصیب ہوتا چلا گیا“۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں