crime free city 2

طلعت حسین صاحب، حقائق یہ ہیں۔۔

تحریر: جاوید چودھری۔۔

آج پاکستان میں صحافیوں کی فہرست بنائی جائے تو طلعت حسین پہلے چند ناموں میں آئیں گے‘ پرنٹ میڈیا ہو‘ ٹیلی ویژن ہو یا پھر سوشل میڈیا ہو طلعت حسین نے اس میں اپنا مقام بھی بنایا اور نقش بھی چھوڑا ‘ یہ آج کل اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں ‘ ان کی ویڈیوز وائرل بھی ہوتی ہیں‘ طلعت صاحب نے چند دن قبل میرے کالم ’’ملک اب بدلے گا‘‘ کے ریفرنس سے وی لاگ کیا تھا اور اس میں اسحاق ڈار صاحب کا انٹرویو کیا تھا‘ میں نے یہ انٹرویو دیکھا لہٰذا میں نہایت ادب سے طلعت حسین سے احتجاج کرنا چاہتا ہوں‘ میں نے کالم میں جس بریفنگ کا حوالہ دیا تھا طلعت صاحب اس میں موجود نہیں تھے۔

میرا کالم بھی تفصیلی نہیں تھا‘ طلعت صاحب نے اس مختصر کالم کے اندر سے انتہائی چھوٹا حصہ اٹھایا اور اس پر پورا پروگرام کر دیا‘یہ اگر پروگرام سے قبل میرے ساتھ رابطہ کر لیتے‘ یہ مجھ سے تفصیل پوچھ لیتے یا آئی ایس پی آر سے تصدیق کر لیتے تو تصویر کا دوسرا رخ بھی ان کے سامنے آ جاتااور یوں ان کا وی لاگ غیر جانب دار اور ٹھوس ہو جاتالیکن ’’ون سائیڈڈاینگل‘‘ کی وجہ سے ان کا پروگرام جانب دار اور غیرمتوازن ہو گیاجس کی وجہ سے میں حقائق کلیئر کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔

میں اسحاق ڈار صاحب کا بھی احترام کرتا ہوں‘ یہ ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے ہیں‘ یہ حضرت داتا گنج بخشؒ اور حضرت بری امامؒ کے بھی عقیدت مند ہیں لیکن اس کا ہرگز‘ ہرگز یہ مطلب نہیں یہ غلطیوں یا کوتاہیوں سے پاک ہیں‘ اسحاق ڈار صاحب سے بھی غلطیاں ہوئیں اور قوم کو ان غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے‘ ہم اگر واقعی اس ملک سے محبت کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا ہوگا اور ان کی اصلاح بھی ورنہ یہ ملک تباہ ہو جائے گا۔

میرے کالم میں ڈار صاحب سے متعلق تین واقعات تھے‘میں تینوں کی تفصیل لکھ دیتا ہوں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔پہلا واقعہ قرضوں سے متعلق تھا‘ ڈار صاحب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اعتراضات کو سائیڈ پر رکھ دیں اور صرف یہ بتادیں کیا وزیراعظم کا آفس 2016 سے قرضوں کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار نہیں کر رہا تھا؟ کیا پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد ہر میٹنگ میں یہ نہیں کہتے تھے ہم نے اگر اپنی گروتھ سسٹین نہ کی تو ہم2019 میں قرضے ادا نہیں کر سکیں گے اور کیا 2017ء میں شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ نہیں ہوئی تھی اور اس میٹنگ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل زبیر حیات‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ‘ ایئر چیف مارشل سہیل امان اور نیول چیف ایڈمرل ذکاء اللہ شامل نہیں تھے اور اس میٹنگ میں احسن اقبال نے سی پیک پر بریفنگ نہیں دی تھی اور اس بریفنگ کے بعد آرمی چیف نے اسحاق ڈار سے یہ نہیں پوچھا تھا۔

ڈار صاحب فنانشل ایکسپرٹس کہہ رہے ہیں ہم نے بھاری سود پر قرضے لے لیے ہیں ‘ہم یہ ادا نہیں کر سکیں گے اور کیا ڈار صاحب خاموش نہیں رہے تھے اور پھر وزیراعظم کے اشارے پر فواد حسن فواد نے جواب نہیں دیا تھا اور فواد صاحب نے یہ تسلیم نہیں کیا تھا’’ اورنج لائن میٹرو ٹرین کو سی پیک میں شامل کرنے کی وجہ سے انٹرسٹ میں اضافہ ہوا‘‘ اورکیا فواد صاحب نے یہ بھی نہیں مانا تھا’’ یہ قرضے 2019میں پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوں گے؟‘‘ ڈار صاحب جواب دیں! سچ تو یہ ہے جنرل باجوہ نے اس وقت اسحاق ڈار سے کہا تھا۔

ڈار صاحب اگر ہم میٹرو کا ٹکٹ 240 روپے رکھیں تو بھی ہم بڑی مشکل سے قسطیں ادا کرسکیں گے‘ آپ ہمیں سمجھائیں ہم 20 روپے چارج کر کے قرضہ کیسے ادا کریں گے؟جنرل باجوہ نے یہ بھی کہا تھا‘ میں قرضوں کے خلاف نہیں ہوں لیکن ہمیں قرضے لے کر تربیلا اور منگلا ڈیم جیسے منصوبے بنانے چاہییں‘ یہ پانچ سات سال میں اپنی کاسٹ بھی پوری کر لیتے ہیں اور ملک کو بھی لانگ ٹرم فائدے ہوتے ہیں‘ ہم 240 روپے کا ٹکٹ 20 روپے میں بیچ کر یہ قرضہ کیسے اتاریں گے؟ ڈار صاحب نے اس وقت چہرہ دائیں بائیں گھما کر کہا تھا’’جنرل صاحب کچھ فیصلے سیاسی بھی ہوتے ہیں‘‘ اور اس واقعے کے تین سروسز چیفس سمیت چالیس لوگ گواہ ہیں۔

میں ذاتی طور پر جانتا ہوں فواد حسن فواد‘ وزیراعظم میاں نواز شریف اور چین کی حکومت تینوں اورنج لائن میٹرو ٹرین کے خلاف تھے‘ چین اسے سی پیک میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا‘ فواد حسن فواد حیات ہیں‘ آپ ان سے پوچھ لیں کیا یہ کابینہ کے اجلاس میں یہ نہیں کہتے تھے یہ منصوبے عقل مندی نہیں‘ ہم اس کے قرضے ادا نہیں کر سکیں گے‘یہ میٹرو بسوں کے بھی حق میں نہیں تھے‘ ان کا کہنا تھا ہم اس رقم سے لاہور میں 22 لینز بنا سکتے ہیں لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی‘ میں نے کل تصدیق کے لیے فواد حسن فواد کو فون کیا تو انھوں نے اعتراف کیا ’’ چینی زعماء اور نواز شریف بھی اس منصوبے پر خوش نہیں تھے‘‘لیکن ڈار صاحب آج بھی اسے اپنا اسٹار پراجیکٹ کہہ رہے ہیں۔ہم اب آتے ہیں ویسپا کے ایشو پر‘ا سٹیفنو پونٹے کورووپاکستان میں اٹلی کے سفیر تھے۔یہ آج کل افغانستان میں نیٹو کے سول نمایندے ہیں‘ یہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس گئے تھے اور انھوں نے کہا تھا ویسپا پاکستان میں دو پلانٹ لگانا چاہتا ہے لیکن وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ویسپا کی انتظامیہ سے کمیشن مانگ لیا‘ جنرل باجوہ نے یہ ایشو بھی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں اٹھایا تھا‘ کمیٹی میں شامل تمام لوگوں نے یہ بات سنی تھی لیکن کسی نے اسحاق ڈار سے وضاحت نہیں مانگی تھی‘ میں نے بھی یہ بات 2017 میں سنی تھی اور اس کی تصدیق بھی کی تھی‘ اس میٹنگ میں موجود لوگ آج بھی حیات ہیں اور آپ ان سے بھی کنفرم کر سکتے ہیں۔

حکومت ویسپا اورا سٹیفنو سے بھی پوچھ سکتی ہے اور جنرل باجوہ بھی موجود ہیں‘ آپ ان سے پوچھ لیں۔یہ الزامات درست ہیں یا غلط یہ صرف وہ اللہ جانتا ہے جس کو ہم سب نے جان دینی ہے چناں چہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے جہاں تک ممکن ہو ہم سچ بولیں تاکہ ہم اپنے ضمیر اور اپنے رب کے سامنے شرمندہ نہ ہوں‘ مجھے اسحاق ڈار یا جنرل باجوہ دونوں سے کوئی غرض نہیں‘ میری غرض صرف یہ ملک ہے‘ یہ ہے تو ہم سب ہیں‘ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں چناں چہ اوپر اللہ اور نیچے یہ ملک اور بس۔

میں دل سے سمجھتا ہوں میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار نے ملک سے باہر جا کر اس ملک اور عوام دونوں سے زیادتی کی‘ میاں نواز شریف اگر اس بار جیل برداشت کر جاتے یا یہ علاج کرا کے واپس آ جاتے تو آج ان کا سیاسی قد ملک کے تمام سیاسی قدوں سے بلند ہوتا‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں دوسری بار اصلی اور بڑا لیڈر بننے کا موقع دیا لیکن افسوس انھوں نے یہ بھی کھو دیا اور آج جب آصف علی زرداری ان سے کہتے ہیں ’’میاں صاحب پاکستان واپس آئیں‘ لڑنا ہے تو سب کو جیل جانا ہوگا‘‘ تو نواز شریف کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا‘ اسحاق ڈار بھی لندن میں بیٹھ کر’’سچ‘‘ بول رہے ہیں‘ یہ اگر سچے ہیں تو یہ واپس آئیں اور میدان میں کھڑے ہو کر ویسپا‘ میٹروز اور قرضوں کا جواب دیں‘ آئی ایم ایف اور حکومت دونوں ان پر اعدادوشمار میں جعل سازی (فورجری) کا الزام لگا رہی ہیں۔

یہ واپس آئیں اور سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیں‘ اگر میاں شہباز شریف کینسر کے مریض ہونے کے باوجود دو مرتبہ جیل جا سکتے ہیں‘ حمزہ شہباز 20ماہ جیل میں رہ سکتے ہیں‘ شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ جیلیں‘ مقدمے اور عدالتیں بھگت سکتے ہیں‘ اگر احسن اقبال گولی کھا کر بھی میدان میں کھڑے رہ سکتے ہیں‘ میاں جاوید لطیف غداری کے مقدمے بھگت سکتے ہیں اور حنیف عباسی 25سال کی سزا سن کر بھی میدان نہیں چھوڑ رہا تو اسحاق ڈار ساڑھے تین سال سے لندن میں کیوں بیٹھے ہیں؟آپ تماشا دیکھیں ‘یہ لندن میں بیٹھے بیٹھے سینیٹر بن گئے اور حلف اٹھانے کے لیے بھی پاکستان نہیں آئے‘ ڈار صاحب کے خلاف تمام الزامات غلط ہو سکتے ہیں لیکن اسحاق ڈار کو انھیں غلط ثابت کرنے کے لیے واپس آنا ہو گا‘ یہ واپس آئیں اور الزام لگانے والوں کے خلاف کیس کریں۔

یہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ثابت کریں میٹروز بنانے کا فیصلہ درست تھا اور حکومت کس کھاتے سے رقم نکال کر ادائیگیاں کر سکتی ہے‘ یہ ثابت کریں قرضے بھی ٹھیک لیے گئے تھے اور شرح سود بھی کم تھی اور حکومت کے اعدادوشمار میں بھی کسی قسم کی جعل سازی نہیں تھی‘ اگر مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ رہنے کے بعد کیس بھگت سکتے ہیں تو اسحاق ڈار کیوں نہیں؟ یہ لندن میں بیٹھ کر ’’سچ‘‘ کیوں بول رہے ہیں؟ ان کے پاس یقینا معلومات ہوں گی‘ یہ سچے بھی ہو سکتے ہیں لیکن انھیں بہرحال خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے واپس آنا ہو گا‘ ہمیں اب کم از کم وائسرائے کے دور سے آگے نکل جانا چاہیے‘ یہ زیادتی ہے آپ کا اقتدار ختم ہو جائے تو آپ لندن چلے جائیں اور اقتدار کے امکانات پیدا ہو جائیں تو آپ وائسرائے بن کر واپس آ جائیں‘ یہ زیادتی ہے ڈار صاحب! یہ ملک ہے‘ ٹشوپیپر نہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں