تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ملک میں کورونا پھر سراٹھا رہا ہے۔۔ کیسز کی تعداد روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔۔ سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔۔ لاک ڈائون کی وجہ سے کورونا وائرس کا پھیلائو روکنے میں تو مدد ملی ہی تھی، مگر اس کا ایک اور ایسا فائدہ سامنے آ گیا ہے جو کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ میل آن لائن کے مطابق برطانوی تنظیم ’میرج فائونڈیشن‘ کے ماہرین نے ایک تحقیقاتی سروے کے نتائج میں بتایا ہے کہ لاک ڈائون سے شادی شدہ جوڑوں کے ازدواجی تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے اور طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کرنے والے جوڑوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔فائونڈیشن کے ریسرچ ڈائریکٹر ہیری بینسن کا کہنا تھا کہ لاک ڈائون کے دوران 20فیصد جوڑوں کی ازدواجی زندگی میں بہتری آئی ہے۔ اس عرصے میں جب وہ مسلسل ایک ساتھ رہے تو انہیں احساس ہوا کہ پہلے وہ کس طرح اجنبیت کے ساتھ رہ رہے تھے۔2ہزار559جوڑوں پر مشتمل اس سروے میں ان 20فیصد جوڑوں نے اعتراف کیا کہ لاک ڈائون کے دوران ان کا ازدواجی تعلق بہت بہتر اور مضبوط ہوا ہے۔ دوسری جانب برطانوی مسلح افواج کے سربراہ جنرل سر نک کارٹرنے اسکائی نیوز کو انٹرویو کے دوران کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سکیورٹی کے خدشات بڑھے ہیں اور اس وجہ سے بھی عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ لوگوں میں سے جنگ کا خوف ختم ہوتا جارہا ہے، اگر آپ جنگ کے خوف سے آزاد ہوجاتے ہیں تو پھر لوگ جنگ کو ہی آسان حل سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ماضی میں معاشی مشکلات نے سلامتی کے خطرات بڑھائے جس سے جنگ پیدا ہوئی اور کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال کے نتیجے میں بھی یہی کچھ ہوسکتا ہے۔
شادی شدہ افراد کے لیے گھر میں ہونے والا ہر جھگڑا ’’عالمی جنگ‘‘ ہی لگتا ہے۔۔ بیویوں کے جھگڑے تو فی زمانہ مشہور ہیں ہی، اب ذرا سوچیں اگر شوہر کسی پیشے سے وابستہ ہو تو بیوی بھی اسی حساب سے’’ دھمکی شمکی‘‘ لگادیتی ہے، جیسے حکیم کی بیوی ہر بار جھگڑے میں یہ ضرور کہتی ہے، نبض دیکھے بغیر تمہاری طبیعت درست کردوں گا، ڈاکٹر کی بیوی کہتی ہے۔۔تمہارا الٹراساؤنڈ تو میں ابھی کرتی ہوں، شاعر کی بیوی کہتی ہیں، تمہاری ایسی تقطیع کروں گی کہ ساری بحریں اور نہریں بھول جاؤگے۔۔ایم بی اے کی بیوی کا کہنا ہوتا ہے، مائنڈ یور اون بزنس۔۔فوجی کی بیوی کہتی ہے، تم خود کو کیا بہت توپ سمجھتے ہو۔۔ اے سی سی اے، سی اے، سی ایف اے، آئی سی ایم اے وغیرہ کی بیویاں انہیں جھگڑے میں یہی طعنے مارتی ہیں کہ ۔۔پہلے پاس تو کرلے بڈھے۔۔وکیل کی بیوی کا کہنا ہوتا ہے، تیرا فیصلہ تو میں ابھی کرتی ہوں۔۔ڈرائیوروں کی بیویاں کہتی ہے، گیئر لگا اور چل نکل یہاں سے۔۔پولیس والوں کی بیویاں کہتی ہیں، ایسی چھترول کروں گی کہ نانی یاد آجائے گی۔۔مولویوں کی بیویاں کہتی ہیں، ابھی پڑھتی ہوں ختم تمہارا۔۔ڈینٹسٹ کی بیوی کا کہنا ہوتا ہے، دانت توڑ کر ہاتھ میں دے دوں گی، ٹیچرز کی بیویاں کہتی ہیں، مجھے مت سکھاؤ، یہ اسکول نہیں۔۔پنکچر والے کی بیوی کہتی ہے۔۔ ایسی رگڑائی کروں گی کہ ہوش اڑ جائیں گے۔۔ گوالے کی بیوی کہے گی۔۔اتنا ماروں گی، چھٹی کا دودھ یاد دلا دوں گی۔۔پائلٹ کی بیوی کہتی ہے، زیادہ مت اڑو،سمجھے۔۔اور سنا ہے کہ صحافیوں کی بیوی جھگڑے میں صرف ایک ہی بات پوچھتی ہیں۔۔تنخواہ کدھر ہے؟؟
کبھی کبھی تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم کسی جنگل میں رہ رہے ہیں، یہاں جنگل کا قانون ہی لگتا ہے، جو جتنا طاقت ور ہے اتناہی منہ زور ۔۔ کس میں ہمت ہے کہ کسی طاقت ور سے پوچھ گچھ کرسکے۔۔ اسی پر یاد آیا۔ ۔ جنگل میں شیر نے حکم جاری کر دیا کہ آج سے ہر سینیئر جانور جونیئر جانور کو چیک کر سکتا ہے بلکہ سزا بھی دے سکتا ہے۔۔باقی جانورں نے تو اسے نارمل لیالیکن بندر نے خرگوش کو پکڑ لیا۔۔اور رکھ کے چپیڑ کڈ ماری۔ ساتھ ہی پوچھا۔۔ ٹوپی کیوں نہیں پہنی ؟؟۔۔خرگوش بولا ۔سر، میرے کان لمبے ہیںاس لیے نہیں پہن سکتا۔۔بندرنے کہا۔۔اوکے ،جاؤ۔۔اگلے دن پھر خرگوش چہل قدمی کر رہا تھا۔۔بندر نے اسے بلایا اور رکھ کے ایک کان کے نیچے دی اور پوچھا۔۔ ٹوپی کیوں نہیں پہنی ؟؟۔۔ خرگوش نے روتے ہوئے کہا۔۔سر،کل بھی بتایا تھا کہ کان لمبے ہیں نہیں پہن سکتا ۔۔بندر نے کہا۔۔اوکے گیٹ لاسٹ۔۔ تیسرے دن بندر نے ’’سیم ‘‘ حرکت کی تو خرگوش شیرکے پاس پہنچ گیا اور ساری افتاد سناڈالی۔۔شیر نے بندر کو بلایا اور کہا ایسے تھوڑی چیک کرتے ہیں،اور بھی سو طریقے ہیں۔۔جیسے تم خرگوش کو بلاؤ اور کہو جاؤ سموسے لاؤ۔۔ اگر وہ صرف سموسے لائے تو پھڑکا دو چپیڑ اور کہو چٹنی کیوں نہیں لائے۔۔فرض کرو اگر وہ دہی والی چٹنی لے آئے تو لگاؤ چپیڑ اور کہو آلو بخارے والی کیوں نہیں لائے۔۔اور اگر وہ آلو بخارے والی لے آئے تو ٹکا دینا کہ دہی والی کیوں نہیں لائے ۔۔خرگوش نے یہ ساری’’ کنورسیشن ‘‘سن لی ۔۔اگلے دن بندر نے خرگوش کو بلایااور کہا۔۔جاؤ،سموسے لاؤ۔۔ خرگوش بھاگا بھاگا سموسے لے آیا ۔۔بندر نے پوچھا چٹنی لائے ہو ؟؟۔۔خرگوش جلدی سے بولا۔۔ یس سر۔۔بندر نے پھر پوچھا۔۔ کون سی والی چٹنی لائے ہو؟؟۔۔خرگوش نے ترنت جواب دیا۔۔ سر، دہی والی اور آلو بخارے والی، دونوں لے کر آیا ہوں۔۔ بندرنے یہ سنتے ہی پھررکھ کر شدید والی چپیڑ ماری اور پوچھا۔۔۔توں اے دس ٹوپی کیوں نہیں پائی؟؟
اب کچھ حالات حاضرہ پر اوٹ پٹانگ کچھ باتیں پیش خدمت ہیں۔۔ سنا ہے کہ ٹرمپ نے لندن میں مقیم سابق وزیراعظم کو فون کرکے صرف ایک سوال پوچھا ہے۔۔ــ’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘ کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟؟۔۔جوبائیڈن کی حکومت مارچ یا اپریل تک ہی چل پائے گی، لال حویلی والے شیخ نے پیش گوئی کرڈالی۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔ٹرمپ کی بے بسی دیکھیں جوبائیڈن پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی نہیں لگاسکتا۔۔امریکی عوام کاحال دیکھیں، بیچارے الیکشن کے بعد یہ تک نہیں کہہ سکتے کہ جو کرارہا ہے امریکا کرارہا ہے۔۔سردیاں ملک بھر میں شروع ہوچکی ہیں۔۔باباجی نہانے کے شدید چور ہیں۔۔ لیکن تاثر ایسا دیتے ہیں کہ ان سے زیادہ صفائی پسند کوئی نہیں۔۔ایک روز محفل میں برجستہ کہہ ڈالا۔۔ یار پتہ نہیں لوگ سردیوں میں ایک ، ایک ماہ گزرجانے کے باوجود کیوں نہیں نہاتے؟ مجھے تو پچیسویں دن ہی خارش ہونے لگتی ہے۔۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ۔۔ انسان کا دل صاف ہونا چاہیئے نہانے میں کیا رکھا ہے؟؟ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔آپ کی گزشتہ عمر اور اُس سے جُڑی ہوئی یادیں آپ کے پیچھے ہیں جب کہ آپ کی زندگی ہمیشہ آپ کے آگے کی طرف ہوتی ہے۔ آج کا دن ایک نیا دن ہے اس کے ساتھ چلو۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔