aik tabah saath | Imran Junior

طلاق،صحت کے لیے مضر۔۔

دوستو،طلاق ایک سماجی المیہ تو ہے ہی، مگر اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس کے مردوخواتین کی ذہنی و جسمانی صحت پر ایسے سنگین اثرات کا انکشاف کر دیا ہے کہ جان کر لوگ طلاق کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔ برطانوی جریدے کے مطابق سائنسدانوں نے 13ہزار 611امریکی مردوخواتین پر کی گئی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ طلاق یافتہ لوگوں کے قبل از وقت مرنے کا امکان عادی شرابیوں، مالی مسائل کا شکار رہنے والوں اور کبھی شادی نہ کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں قبل از وقت موت کا سبب بننے والے 57سماجی و معاشی پہلوؤں کی درجہ بندی کرنے کی کوشش کی جس میں انہوں نے قبل از وقت موت کا سب سے بڑا سبب سگریٹ نوشی کو قرار دیا۔ دوسرے نمبر پر طلاق، تیسرے نمبر پر شراب نوشی، چوتھے نمبر پر مالی مسائل اور پانچویں نمبر پر بے روزگاری کو قبل از وقت موت کا سب سے بڑا سبب قرار دیا۔ کبھی شادی نہ کرنا اس فہرست میں 8ویں نمبر پر آیا۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ فرٹین ٹورویک کا کہنا تھا کہ۔۔طلاق اس لیے بھی قبل از وقت موت کا دوسرا بڑا فیکٹر ہے کہ طلاق یافتہ لوگ زیادہ شراب پیتے ہیں اور کھانے پینے کا زیادہ خیال نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ زندگی سے بھی زیادہ مطمئن نہیں ہوتے۔

بعض مردوخواتین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہمہ وقت اپنے شریک حیات پر تنقید کرتے اور ان میں خامیاں نکالتے رہتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کے لیے سائنسدانوں نے انتہائی سنگین وارننگ جاری کر دی ہے۔ نئی تحقیق کے نتائج میں امریکی ریاست پنسلوانیا کے لیفیٹی کالج کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ جن مردوخواتین پر ان کے شریک حیات تنقید کریں اور ان میں خامیاں نکالتے رہیں، ان کی قبل از وقت موت ہونے کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 2ہزار سے زائد مردوخواتین پر تجربات کیے جن کی عمریں 57سے 85سال کے درمیان تھیں۔سائنسدانوں کے مطابق عمر کے تناسب سے شریک حیات کی اس تنقید اور خامیاں نکالنے کی عادت کا مردوخواتین پر اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اگر عمررسیدہ افراد کے ساتھ ان کا شریک حیات یہ سلوک کرے تو ان کے اگلے پانچ سال میں مرجانے کا غالب امکان ہوتا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ پروفیسر جمیلا بک والا شریک حیات کی طرف سے مسلسل تنقید اور نکتہ چینی دوسرے فریق کے جسم پر تباہ کن دباؤ کا سبب بنتی ہے اور ہماری تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ایسی تنقید اور نکتہ چینی کے شکار مردوخواتین کی قبل از وقت موت ہونے کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

عورتیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن پر شاعر حضرات غزل کہتے ہیں اور جن کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ بھرا جاتا ہے۔ دوسری قسم بیوی کہلاتی ہے۔ جس طرح کسی بچے کی معصومیت اْس وقت ختم ہو جاتی ہے جب وہ بڑا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کی ساری خوبیاں اْس وقت ’’ہوا‘‘ ہو جاتی ہیں، جب وہ زَن سے رَن،ہمارا مطلب ہے بیوی بن جاتی ہے۔ بیوی کو بیگم بھی کہتے ہیں۔ شنید ہے کہ سنہرے دور میں یہ بے غم کہلاتی تھی کیوں کہ ان کا کام شوہروں کو ہر غم سے بے غم کرنا ہوتا تھا لیکن ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ چونکہ بیویوں کو کوئی غم نہیں ہوتا اس لیے انہیں ’’بے غم‘‘ کہاجاتا ہے،لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ یہ نام تبدیل ہوکر بیگم رہ گیا۔۔خاتون خانہ نے شوہرنامدار کے موبائل کے میسجز پڑھ لیے، ایزی پیسہ کا مسیج آیا تھا اور اس کے اگلے میسیج میں لکھاتھا،جان ایزی لوڈ اور ایزی پیسہ کا میسیج مل گیا کیا؟۔۔خاتون خانہ نے تپ کر سوال کیا۔۔اچھا ،تو اب کیا منی لانڈرنگ بھی شروع ہو گئی ۔۔شوہر نے گھبراہٹ میں بیوی کی طرف دیکھا توخاتون خانہ نے انگلی سے موبائل کی جانب اشارہ کیا۔۔ شوہر نے کہا۔۔ بیگم ،بادی النظر میں تم صادق اور امین نہیں رہی کیوں کہ تم نے میری اجازت کے بغیر میرے میسجز پڑھنے شروع کردیئے،یہ قانونی طور پر جرم بھی ہے۔۔ بیگم نے کہا، منی لانڈرنگ پر بھی نااہلی ہوتی ہے، شوہر نے جواب دیا، جی نہیں صادق اور امین نہ رہنے پر نااہلی بنتی ہے۔۔بیگم نے غصہ دکھایا، شوہر نے منایا لیکن خاتون خانہ نے اپنے فیصلہ سنایا۔۔ امی کے گھر چلی۔۔ شوہر نے کہا ٹھیک ہے روٹی تو پڑوسن بھی دے جائے گی۔۔بیگم کا ارادہ ڈگمگایا،مسکراکربولی، پتہ نہیں تم کب سدھروگے۔۔

شوہر ہاتھ پیر چھلواکر اور ایک آنکھ سوجا کر گھر آیا،بیوی نے گھبراکر پوچھا، کیا ہوا؟؟ شوہر نے بڑی بیچارگی سے کہا، ایک عورت بائیک چلا رہی تھی ،میں سڑک کنارے گھر آرہا تھا، اچانک اس نے مجھے ٹکر ماری اور فرار ہوگئی۔۔بیوی نے غصے سے پوچھا۔۔ بائیک کا نمبر نوٹ کیا یا کوئی اور بات جو اس کے گھر تک پہنچا جا سکے؟شوہر کہنے لگا۔۔ درد کی وجہ سے نمبر نوٹ نہ کرسکا، پر وہ بہت گوری اور گولڈن کلر کے سلکی بالوں والی تھی۔۔ اس نے پرپل کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا، کلائیوں میں نارنجی کلر کی چوڑیاں اور مڈل فنگر میں پھول والی آرٹیفیشل انگوٹھی بھی پہنی ہوئی تھی، گہرے لال رنگ کی لپ اسٹک اس کے چہرے پر بہت سوہنی لگ رہی تھی۔۔کانوں میں ہیرے کی بالیاں تھی۔۔ہاتھوں میں مہندی لگی تھی۔۔اور ہاں دائیں گال پر ہونٹوں کے پاس تِل بھی تھا۔۔بس شوہر نے ابھی اتنا ہی بتایا تھا کہ اس کی دوسری آنکھ بھی سوج گئی۔۔

ویسے زوجین میں جھگڑے کے اور بھی کئی بہانے ہوتے ہیں۔۔محترمہ نے ڈھائی گھنٹہ تک بیوٹی پارلر کے باہر انتظار کروایا، جب میک اپ کروا کر واپس آئیں تو بے اختیار شوہر کے منہ سے نکل پڑا کہ۔۔کیا ابھی تک تمہارا نمبر نہیں آیا۔۔بس اس کے بعد بیوی کامنہ صبح تک ’’ڈونگے‘‘ کی طرح بنارہا ۔۔گھرمیں کوئی بچے کی سالگرہ کے حوالے سے تقریب تھی، بیگم صاحبہ کو موڈ قدرے خوشگوار تھا، کچن میں انواع و اقسام کے کھانے بن رہے تھے، شوہر نے کچن میں قدم رکھا تو دیکھا کہ زوجہ ماجدہ نے خود پر بھی آج خاصی محنت کی تھی، سلیقے سے بنی ہوئی آئی برو، کانوں میں جھمکے، خوبصورت ہئیر اسٹائل اور نیلے رنگ کے پرنٹڈ کپڑوں میں کافی حد تک قابل برداشت لگ رہی تھیں اور گہری سرخ لپ اسٹک لگائے بریانی کے لیے گوشت کاٹنے میں مصروف تھیں، انکی لپ اسٹک پرنظر پڑتے ہی غلطی سے پھرشوہر کے منہ سے نکل گیا۔۔بریانی کا گوشت دانتوں سے کاٹا ہے کیا۔۔یا کسی کا خون پیا ہے؟؟ اس بار سزا کے طور پر کھانے سمیت چائے پر بھی پابندی لگ گئی۔۔ کھانا تو بن گیا مگرشوہرکو نہ پوچھا گیا، مجبوراً باہر سے برگر لاکر نیچے ہی کارپیٹ پر بیٹھ کر کھا رہے تھے کہ محترمہ بھی اپنے کھانے کی ٹرے لے کرشوہر سے کچھ فاصلہ پر نیچے ہی بیٹھ گئیں، شوہر کی نظرزوجہ حقیقی کے پیروں پر پڑی تو ایک بار پھر بے اختیار پوچھ بیٹھے کہ۔۔۔یہ بیوٹی پارلر والے پیروں پر میک اپ نہیں کرتے کیا؟؟ قریب رکھا رائتے کا پیالہ کب سرپرپڑا، شوہر کو اس کے بعد کچھ یاد نہیں رہا۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ بے قیمت انسان کھانے اور پینے کے لیے جیتے ہیں، قیمتی اور نایاب انسان جینے کے لیے کھاتے اور پیتے ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں