علی عمران جونیئر
دوستو،طلاق کو ہمارے معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے لیکن دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں خواتین کی طلاق پر خوشی منائی جاتی ہے۔افریقی ملک موریطانیہ میں منفرد رواج ہے کہ خاتون کی طلاق پر غم، افسوس اور شرم کے بجائے طلاق پارٹی رکھی جاتی ہے، خواتین آپس میں ناچ، گا نے اور کھانے کا اہتمام کرتی ہیں۔اس کے علاوہ خواتین کو مہندی بھی لگائی جاتی ہے اور اس بات کو پھیلایا جاتا ہے کہ خاتون سے پھر سے شادی کی جا سکتی ہے۔موریطانیہ میں طلاق عام ہے، بہت سے لوگ 5 سے 10 شادیاں کر چکے ہیں،کچھ تو 20 سے زیادہ بھی شادیاں کر چکے۔دوسری طرف ویٹیکن سٹی کے بعد فلپائن وہ واحد جگہ ہے جہاں طلاق پر پابندی ہے، کیتھولک چرچ فلپائنی معاشرے میں بہت اثر و رسوخ رکھتی ہے۔کیتھولک چرچ کا کہنا ہے کہ طلاق اس کی تعلیمات کے مخالف عمل ہے۔طلاق کو قانونی بنانے کے حق کیلئے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ طلاق غیر قانونی ہونے سے شادہ شدہ افراد کو بدسلوک ساتھی کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے۔شادی ختم کرنے کے خواہشمند افراد عدالت سے اس کی توثیق کروا سکتے ہیں لیکن حکومت کو عدالت کی طرف سے کروائی گئی طلاق کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔طلاق کا قانونی عمل بہت سست اور مہنگا ہے، یہ کیسز 10 ہزار ڈالر سے زیادہ کے پڑتے ہیں جس کے باوجود یقینی نہیں ہوتا کہ طلاق ہو گی یا نہیں۔فلپائن میں طلاق کی سب سے بڑی مخالف کیتھولک چرچ ہے جو اسقاطِ حمل اور مانع حمل اشیا کے استعمال کی بھی مخالفت کرتی ہے۔ گیارہ کروڑکی آبادی میں سے 78 فیصد کیتھولک عیسائی ہیں، 2017 کے ایک سروے میں 53 فیصد افراد نے طلاق کے حق میں بات کی جبکہ صرف 32 فیصد نے اتفاق نہیں کیا۔فلپائن میں قانون ساز اب طلاق کو قانونی بنانے کیلئے ایوان اور سینیٹ میں متعدد بل جمع کروا چکے ہیں۔
طلاق کو اسلام نے جائز کیوں رکھا ہے اس پر بات تو علمائے کرام اور مفتیان دین ہی کرسکتے ہیں لیکن پہلے ہم ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیں کہ دورِحاضر کے لکھے پڑھے مسلمانوں میں اس کی شرح انتہائی تیزی کے ساتھ پہلے کے مقابلے میں بڑھ کیوں رہی ہے اور یہ مسئلہ مسلم سوسائٹی کے دائرے سے باہر نکل کر ٹیلی ویڑن سے لیکر عدالت اور پارلیمنٹ تک کیوں پہنچ رہا ہے ؟ہمارا اجتماعی قصور یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہو چکے ہیں۔ہم انہیں دوسروں کی نقالی میں صرف پیسہ کمانے والی مشینیں بنا رہے ہیں ۔بچے جب لڑکپن میں بھی قدم رکھتے ہیں تو ہم انہیں حلال و حرام ،حق و ناحق اور جائز و ناجائز سے بے خبر رکھتے ہیں۔جب یہ شادی کی عمر میں پہنچ جاتے ہیں تو انھیں یہ تک نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اصول و ضوابط اور واجبات و سنن کیا ہیں ؟
میاں بیوی طلاق کے لئے عدالت جاتے ہیں، جج پوچھتا ہے کہ تم لوگوں کے تین بچے ہیں، انہیں کیسے تقسیم کروگے؟ میاں بیوی کو سوچ بچار کا وقت دیاجاتا ہے، دونوں کمرہ عدالت کے کونے میں سرجوڑ کر صلاح مشورے میں لگ جاتے ہیں ،کافی دیر بحث و مباحثے کے بعد اس فیصلے پر اتفاق پاجاتا ہے کہ وہ اگلے سال طلاق کے لئے آئیں گے ،ساتھ میں ایک اور بچے کے ساتھ۔۔۔ٹھہریئے، بات ابھی ختم نہیں ہوئی، ایک سال بعد ان کے ہاں جڑواں بچے جنم لیتے ہیں۔۔ایک شخص کی بیوی کو علم ہوا کہ اس کا شوہر دوسری شادی کا ارادہ رکھتا ہے چنانچہ اس نے ایک دن بڑے اہتمام سے عشائیہ تیار کیا اور چار انڈے ابال کر ہر ایک کو الگ الگ رنگ سے رنگا اور شوہر کو پیش کردیا۔۔شوہر نے پہلے حیرانی سے رنگ برنگے انڈوں کو اور پھر استفہامیہ نظروں سے بیوی کی جانب دیکھا۔۔ بیوی نے کہا آپ کھائیں اور پھر بتائیں کہ آپ کو یہ رنگ برنگے انڈے کیسے لگے۔۔شوہر نے تین انڈے کھائے اور تعجب سے بولا کہ ان میں تو کوئی فرق نہیں سب کا یکساں ذائقہ ہے۔۔ رنگوں کا کیا فائدہ ؟؟بیوی چالاک لومڑی کی مانند مسکرائی اور گویا ہوئی ۔۔سرتاج! عورتیں بھی سب ایک جیسی ہی ہوتی ہیں بس رنگوں کا فرق ہوتا ہے۔۔شوہر بھی ڈیڑھ ہوشیار تھا،اس نے چوتھا انڈہ منہ میں ٹھونسااطمینان سے نگل کر ڈکار لی اور بولا۔۔ہاں سچ کہتی ہو رنگوں کا ہی فرق ہوتا ہے،لیکن کیا کریں کمبخت جب تک چاروں انڈے کھا نہ لیے جائیں پیٹ نہیں بھرتا۔۔۔
میاں بیوی میں شادی کے بعد کبھی بنی نہیں، لیکن نکاح کے وقت شرائط کچھ اتنی سخت رکھی گئی تھیں کہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق علیحدگی کا سوچتا بھی نہیں۔۔دونوں ایک دوسرے پر شک کرتے رہتے، لڑتے جھگڑتے رہتے، ایک دن شوہر گھر سے دفتر کے لئے روانہ ہوا تو بیوی کا کوئی آشنا اس سے ملنے پہنچ گیا، ابھی دونوں بیڈروم میں جاکر بیٹھے ہی تھے کہ شوہر جو اپنی دفتری فائل گھر ہی بھول گیا تھا ، اسے واپس لینے آگیا۔ ۔بیوی نے جلدی جلدی میں آشنا کو کپڑوں والی الماری میں چھپا دیا۔شوہر کمرے میں داخل ہوا تو اس نے بیوی سے پوچھا۔یہ سگریٹ کی بو کیسی آ رہی ہے؟بیوی نے جواب دیا۔۔آپ ہی پی کر گئے تھے وہی بو کمرے میں اب تک موجود ہے۔ شوہر نے دوبارہ سوال کیا۔۔یہ قالین پر جوتوں کے نشان کیسے ہیں؟ بیوی نے کہا۔ آپ کے جوتوں کے ہی ہیں۔ شوہر نے مزید مشکوک انداز میں پوچھا ۔۔یہ بیڈ کی چادر میں اتنی شکنیں کیسے آئیں؟بیوی بولی۔۔ آپ ہی اٹھ کر گئے ہیں ابھی بستر ٹھیک نہیں کیا تھا۔۔شوہر کا شک مزید بڑھا تو اس نے ادھر اُدھر جھانکنا شروع کیا اور بہانے سے کپڑوں والی الماری کھول دی۔۔ وہاں بیوی کا آشنا سامنے کھڑا تھا۔۔شوہر نے غصے سے پوچھا تم کہاں کھڑے ہو؟آشنا نے جلدی سے جواب دیا۔۔ میں ریلوے اسٹیشن پر کھڑا ہوں۔۔ شوہر غصے سے دھاڑا۔۔ابے ، یہ ریلوے اسٹیشن نظر آرہا ہے تجھے؟؟۔۔ آشنا ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔۔ بھائی جی ،اتنی باتیں بیوی کی مان لی ہیں ایک میری بھی مان لو۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک دورتھاجب ایک دوسرے کی ہمت بڑھاتے تھے، اب تو صرف بلڈپریشر بڑھاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔