تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، خالص کراچی کے رہائشی طلاق کو ’’تل۔آخ‘‘ کہتے ہیں۔۔ حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والوں کی فنی خرابی یہ ہے کہ ۔۔ان کے یہاں قاف ہمیشہ ’’خے‘‘ کی آواز نکالتا ہے۔۔جیسا کہ۔۔تقریب کو یہ لوگ تخریب کہتے ہیں۔۔ویسے انڈین فلموں کی رسیا ہماری نوجوان نسل بھی اب اردو کا ’’کریاکرم‘‘ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔۔بہت سے لفظ اب ہندی کے بہت آسانی سے بولنے لگے ہیں۔۔طلاق پر یادآیا۔ ۔ ایک خبر کے مطابق لاہور شہر میں 6ہزار 135 طلاق اور خلع کی درخواستیں التوا کا شکار ہیں،جن میں سے 3 ہزار 586 طلاق اور 2 ہزار 549 خلع کی ہیں۔ درخواستوں پر فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ راوی زون میں طلاق 401، خلع 359،شالامار زون طلاق 389، خلع 219،نشتر زون طلاق 515، خلع 370،گلبرگ زون طلاق 320، خلع 221،داتا گنج بخش زون طلاق 278، خلع 213،علامہ اقبال زون طلاق 629، خلع 580،واہگہ زون طلاق 233، خلع 187، سمن آباد زون طلاق 414، خلع 195،عزیز بھٹی زون طلاق 397اورخلع کے 225کیسز زیر التوا ہیں۔کمشنر ذوالفقار گھمن نے طلاق اور خلع کی درخواستوں پر فیصلوں کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لئے سمری ایڈیشنل چیف سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو بھجوائی جنہوں نے منظوری کے لئے سمری کیبنٹ کمیٹی کو بھجوا دی لیکن ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود اختیارات کی منتقلی کا فیصلہ نہ ہو سکا۔
میڈیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوان اب تک طلاق اور خلع کے درمیان فرق معلوم نہیں کرسکے ہیں، وہ دونوں کو ایک ہی چیز سمجھ رہے ہوتے ہیں۔۔ اسے سمجھنے کا آسان سا فارمولہ یاد رکھیں، اگر شوہر دے تو طلاق اور بیوی اپنی مرضی سے لے تو اسے خلع کہتے ہیں۔۔ خلع زیادہ تر عدالتوں کے ذریعہ ہی حاصل کی جاتی ہے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی چلتی کہاں ہے۔۔ کیا آپ کا ہم سفر آپ کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے؟ سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں اس سوال کا جواب جاننے کا حیران کن طریقہ بتا دیا ہے۔یونیورسٹی آف ٹیکساس کے تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہم سفر کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے تو اس کی روزمرہ گفتگو میں الفاظ کاچناؤ تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ کچھ مخصوص الفاظ زیادہ بولنے لگتا ہے۔ ایسا شخص جو الفاظ زیادہ بولنا شروع کر دیتا ہے ان میں’میں‘ اور ’ہم‘ شامل ہیں۔سائنسدانوں نے اس تحقیق میں سوشل پلیٹ فارم پر 6ہزار 800صارفین کی پوسٹس کی کئی ماہ تک نگرانی کی اور پوسٹس میں ان کے استعمال کردہ الفاظ کے تغیر اور ان کے رومانوی تعلق کا باہم تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرتے رہے۔ نتائج میں انہوں نے بتایا کہ جب کوئی شخص اپنے پارٹنرکے ساتھ تعلق ختم کرتا ہے تو اس سے تین ماہ قبل ہی اس کی زبان میں تبدیلی آ جاتی ہے اور وہ ’میں‘ اور ’ہم‘ جیسے الفاظ زیادہ بولنے لگتا ہے۔اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ کا کہنا تھا کہ ’’’میں‘اور ’ہم‘ کے الفاظ ڈپریشن اور دکھ کی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص یہ الفاظ زیادہ بولنا شروع کر دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا ذہن کوئی تکلیف دہ فیصلہ کرنے کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور دکھ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے پارٹنر کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے متعلق سوچنے والا شخص ’میں‘ اور ’ہم‘ کا استعمال زیادہ کرنے لگتا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں عدالت نے سہیلیوں کے ساتھ باہر گھومنے کے لیے جانے کی اجازت نہ دینے پر غیر ملکی خاتون کی جانب سے طلاق کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔عرب نیوز کے مطابق غیرملکی خاتون نے عدالت میں اپنے شوہر سے طلاق کی درخواست دائر کی تھی جس میں خاتون نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھومنے کے لیے باہر جانا چاہتی ہے لیکن اس کا شوہر اجازت نہیں دے رہا ہے اور اس کے علاوہ وہ اس مطالبے پر مجھ سے بدسلوکی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بھی بناتا ہے۔دوسری جانب غیرملکی خاتون کے شوہر نے اپنے دفاع میں کہا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کبھی بدتمیزی نہیں کی اور بیوی کے ساتھ بیٹے کے لیے بھی مناسب رہائش کا بندوبست کررکھا ہے اس کے علاوہ ماہانہ خرچ بھی وقت پر دیتا ہوں جب کہ بیٹے کی معذوری کے باعث ہم دونوں کا ہر وقت اس کے پاس رہنا بہت ضروری ہے۔خلیجی عدالت نے خاتون کی جانب سے طلاق کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خاتون عدالت کے سامنے شوہر کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی لہذا خاتون کی جانب سے طلاق کا مطالبہ مسترد کیا جاتا ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ غیر ملکی خاتون یہ بھی واضح نہیں کرسکی وہ شوہر کی جانب سے باہر جانے پر روکنے سے اسے کیا نقصان ہوگا اور ایسا کرنے سے اس کی زوجیت کیوں ختم کی جائے۔
ایک کلاس روم میں خاتون ٹیچر نے بچوں کو نامکمل فقرہ دے کر اسے مکمل کرنے کا کہا۔۔نامکمل فقرہ کچھ یوں تھا۔۔ہربڑے آدمی کے پیچھے۔۔۔عورت ہوتی ہے۔۔۔ہر طالب علم نے اس فقرے کو اپنی اپنی سوچ کے مطابق مکمل کیا۔۔بچوں کے جواب کچھ اس طرح سے تھے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے پھر بھی وہ بڑا آدمی بن جاتا ہے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے، جس سے ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے،جو اسے یاد دلاتی رہتی ہے کہ تم میرے باپ کی وجہ سے بڑے آدمی بنے ہو۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اسے بار بار بتاتی رہتی ہے کہ قسمت کا پھیر ہے ورنہ اس کیلئے اچھے رشتے تو اور بہت تھے ۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جسے یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کے آگے کھڑا آدمی واقعی ایک بڑا آدمی ہے۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اس پر ہمیشہ شک کرتی رہتی ہے ۔۔۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو یہ سوچ کر حیران ہوتی رہتی ہے کہ دنیا اس بیوقوف آدمی کو بڑا آدمی کیوں کہتی ہے ۔۔ ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اس کے کان میں کہتی رہتی ہے کہ میرے بغیر تم کچھ بھی نہیں۔۔سب سے کلاسیکل جملہ یہ تھا۔ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے، جو دوسری عورتوں کو اس کے قریب پھٹکنے نہیں دیتی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہم ایسے مسلمان ہیں جو نہ بیٹی کا نکاح خود پڑھا سکتے ہیں نہ باپ کا جنازہ۔۔مگر صبح شام گالیاں علماء کو دیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔