تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
اسپیشلائزڈ فورم آف جرنلزم۔۔ابلاغ عامہ کی ایک بڑی نتیجہ خیز جہت ہے جس کی عملداری ترقی پذیر ممالک میں تو بہت کم ہے، حتیٰ کہ ایسے ترقی پذیر ممالک میں بھی جہاں میڈیا فروغ پذیر اور قدرے آزاد ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں اسپیشلائزڈ فورم آف جرنلزم میں اسٹریم میڈیا کے مساوی تو نہیں لیکن اس کے متوازی مجموعی قومی (بلکہ عالمی بھی) ابلاغی دھارے میں اطمینان بخش جگہ بناکر اپنے مقاصد کہیں زیادہ بہتر انداز میں حاصل کرنے میں کامیاب ثابت ہوئی۔ وجہ مقررہ اہداف حاصل کرنے میں اختیار کی جانے والی مشہور حکمت عملی “Focus Demands Sacrifice” (انہماک ایثار کا طالب ہے) کو عملاً اختیار کرنا ہے۔ یعنی ’’محدود اور اہم ترین ترجیح کا تعین، لیکن مقرر اہداف کا یقینی حصول‘‘۔ جیسے امریکہ میں ’’ریڈر ڈائجسٹ‘‘ نے عوام الناس کا رخ سماجی ترقی کی طرف کرنے اور رکھنے سے مقررہ نتائج بخوبی حاصل کئے جبکہ ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘ نے خارجی امور، علاقائی و عالمی سیاست کے زیر و بم کو سمجھنے اور انہیں مخصوص طبقے کے ایریا آف انٹرسٹ کے طور پر ڈویلپ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں مین اسٹریم میڈیا کتنے ہی شعبہ ہائے زندگی کو مطلوب ابلاغی معاونت کے جو تقاضے پورے نہیں کر سکتا، ان میں اسپیشلائزڈ فورم آف جرنلزم کی جگہ بخوبی نکل آئی اور اب تو انٹرنیٹ نے اس مسئلے کو پوری دنیا کے لئے بہت حد تک حل کر دیا ہے لیکن یہ حقیقت برقرار ہے کہ سوشل میڈیا مین اسٹریم میڈیا کے مقابل ابھی حقیقی اثر پذیری کے لئے اعتبار اور مخصوص پیشہ ورانہ ساکھ سے محروم ہے، غیر ذمہ داری، لاپروائی، پروپیگنڈے، بغض، گالی اور مبالغے کی ملاوٹ کے ساتھ اس کا جارحانہ استعمال ملک و معاشرے کیلئے زیادہ تر کنفیوژن، غیر یقینی اور دیگر نفسیاتی مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ناچیز کو یہ کلاس روم لیکچر ٹائپ تمہید اس لئے باندھنا پڑی ہے کہ کورونا عالمی بحران میں ہمارے قومی ابلاغی دھارے کی سمت و شکل نہ صرف یہ کہ درست ہی نہیں بیشتر اوقات میڈیا مانیٹرنگ سے یہ لگتا ہے کہ ہم مطلوب سے متصادم ہیں، جبکہ اس وقت پورے قومی میڈیا کو جنگی بنیاد پر مکمل انسانی اور قومی سوچ اختیار کرتے ہوئے اپنے طور پر ’’انہماک ایثار کا طالب‘‘ کی حکمت عملی ازخود اختیار کر لینا چاہیے تھی۔ لیکن بدقسمتی سے کورونا کا تباہ کن بحران اس وقت نازل ہوا ہے، جب پاکستانی قوم کتنے ہی ثانوی اور متنازع موضوعات پر بذریعہ میڈیا کج بحثی میں مہلک حد تک الجھی ہوئی ہے۔ اسلامی ہی نہیں عالمی تاریخ کے بڑے حوالوں سے ایک اور انتہا کا سبق آموز حوالہ یہ ہے کہ جب اپنے وقت میں علم و تہذیب اور فنون لطیفہ کے عروج پر پہنچا ہوا اور قلمی کتابوں کے دنیا میں سب سے بڑے ذخیرے اور شاندار اسلامی ثقافتی تشخص کا حامل بغداد 13فروری 1258ء کو ہلاکو خان کے حملے کی بربریت سے کشت و خون میں ڈوب گیا تو آنے والے مورخین نے دنیا کے چند بڑے المیوں میں شامل اس کا تجزیہ یہ کیا کہ عباسی خلافت کا فوکس غیر متوازن تھا، اگرچہ بغداد کی اسلامی تہذیب کا ارتقا مثالی، زیادہ تر مثبت اور دنیا کیلئے قابل رشک تھا لیکن گرد و نواح میں چنگیز خان کی لیگیسی کی موجودگی میں ایک بیرونی جارحیت کو روکنے کا اہتمام بمطابق نہیں کیا گیا، دوسرا پورے بغداد میں علم و فضل کے عروج پر پہنچنے کے بعد ریورس کا عندیہ بھی کوئی کم واضح نہ تھا کہ بڑے بڑے جید علما بغداد کی پوش آبادیوں میں رات ڈھلے تک آمنے سامنے بالکونیوں میں بڑے اہتمام سے براجمان ہوتے اور موضوع بحث (جو بہت مشہور ہوا) ’’کوّا حرام ہے یا حلال‘‘، ’’نوری ناری‘‘ اور ایسے ہی بے تکے اور لاحاصل موضوعات۔۔۔ راوی چین لکھ رہا تھا، دوسری جانب خلیفہ کے مخالفین مخبر، محاصرہ ڈالے ہلاکو خان کو تقسیم بغداد کی تمام تر تفصیلات سے آگاہ کرنے کا سسٹم بنا چکے تھے اور ہلاکو خان کا سینہ بغداد کی ترقی کے حسد سے دہک رہا تھا۔ اس کا یہ یقین پختہ ہو رہا تھا کہ بغداد جتنا عالم فاضل اور مہذب ہے ، اتنا ہی یہ میری خون آشامی کو نہ روک سکے گا۔ حملے میں پہلے ہی روز میں جس قدر کشت و خوں ہوا وہ دنیا کے خوں آشام دنوں میں سے ایک تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ کورونا سے شہر قبرستان بن سکتے ہیں، ایسے میں اجتماعی حوصلہ، کورونا سے لڑنے کی تعلیم عامہ، قومی معیشت کو زندہ رہنے کی حد تک بچانا اور موجود وسائل کو منظم، محفوظ اور کارآمد رکھنا، کم سے کم نقصان کی حکمت عملی پر سوچ بچار ہماری قومی سوچ کا دھارا نہیں ہونا چاہیے تھا؟ یہ کام قومی میڈیا کا تھا، لیکن یہ تو خود تقسیم ہے۔ میڈیا بمقابلہ میڈیا، کاروباری رقابت اور روایتی تجارتی حسد، روایتی سیاست کے موضوعات، بلیم گیم، صوبوں اور وفاق میں الزام ایک دوسرے پر ڈالنے کی ذہنیت، بحران کے پس منظر میں آٹا، چینی اسکینڈل، اپوزیشن اور حکومت کی روایتی بیان بازی سب مل کر ہمارا ’’کوّا‘‘ نہیں بن گئے، جبکہ کورونا نے اپنی منفرد دہشت سے بڑی بڑی طاقتوں کے دل دہلا دیے ہیں۔ وقت کی نزاکت کا تقاضا تو تھا کہ 65ء کی جنگ کی طرح ہمارا آج کا وسیع تر اور جدید ترین میڈیا از خود اپنا فوکس بغیر کسی سرکاری درخواست کے خود قائم کر لیتا اور’’بحران سے نمٹنے کے ایجوکیشنل پیکیج‘‘ اور ’’معیشت کو زیادہ سے زیادہ بچانے کے حل کی تلاش‘‘ ہمارے قومی میڈیا کی اسپیشلائزیشن بن جاتی لیکن تباہ کن موضوع ’’کوّا حلال یا حرام‘‘ پر قومی بحث اپنی انتہا پر ہے۔ پیچھے ٹی وی اسکرین پر ہلاکت خیز کورونا کے پروموز سے خوف پیدا کرنے کا سلسلہ بڑے اہتمام سے جاری ہے۔ تقسیم در تقسیم اور خوف مسلسل کا مہلک امتزاج ہمیں کہاں لے جا رہا ہے۔ خدارا سوچئے۔(بشکریہ جنگ)۔۔