baryar family ka asal karoobari chehra

تخت یا تختہ؟؟

تحریر: رؤف کلاسرا۔۔

ایک دفعہ پھر سیاسی پارٹیاں بدلنے کا موسم آن پہنچا ہے۔ یہ کوئی پہلا یا آخری موسم نہیں ہے جو سیاسی پارٹیوں پر آیا ہے‘ نہ یہ سیاستدانوں کے لیے نئی بات ہے۔ نہ ہی ان کی پارٹیاں تبدیل کرانے والوں کے لیے یہ نیا کام ہے۔ جو ہر دفعہ نیا کام ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دونوں اطراف سے نام اور چہرے بدل جاتے ہیں۔

جنرل ضیانے جب پیپلز پارٹی کو توڑا تو بھی بھٹو کے قریبی لوگوں کو ہی ٹارگٹ کیا گیا تھا۔یہی کچھ پرویز مشرف دور میں ہوا۔ ضیادور میں’ الذوالفقار ‘کے نام پر جس پر جی چاہتا تھا اُسے اٹھا کر شاہی قلعہ پھینک دیا جاتا تھا۔مشرف دور میں یہ کام نیب کے ذریعے کیا گیا۔ جنرل ضیاکی دہشت اس لیے زیادہ تھی کیونکہ وہ بھٹو جیسے بندے کو پھانسی لگا چکے تھے۔ اس پھانسی کی وجہ سے سب سیاستدان اور سول سوسائٹی ڈر گئی تھی کہ اگر وہ بھٹو جیسے عالمی طور پر قد آور سیاستدان اور لیڈر کو پھانسی لگا سکتے ہیں تو وہ کس کھیت کی مولی ہیں۔ یوں صرف بھٹو کو پھانسی لگا کر جنرل ضیانے دس سال حکومت کی۔

مشرف نے بھی یہی کچھ کیا جب انہوں نے نواز شریف پر ہاتھ ڈالا۔نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا دلوا کر جیل میں ڈال دیا۔ اس کے بعد نیب بنا کر سب سیاستدانوں کو گرفتار کر لیا۔ صرف وہی سیاستدان جیل سے باہر آسکے جنہوں نے چوہدری شجاعت حسین اور میاں اظہر کے ہاتھوں پر بیعت کر لی۔ انہیں اپنا لیڈر مان لیا۔ مشرف کا کلمہ پڑھ لیا۔ اگرچہ اُس دور میں ملتان سے دو بڑے نام‘ جاوید ہاشمی اگر نواز شریف کے ساتھ وفادار رہے اور جیل بھگتی تو یوسف رضا گیلانی بینظیر بھٹو کے وفادار رہے۔ دونوں نے پانچ‘ سات سال جیل بھگت لی لیکن وہ دونوں مشرف کی ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود ڈیل کر کے باہر نہیں نکلے اور جیل میں ہی رہے۔ ہاشمی اور گیلانی نے میاں اظہر اور نواز شریف پر چوہدری شجاعت حسین اور میاں اظہر کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کی۔ وہ دونوں ڈٹے رہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ڈٹے رہنے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو ان دونوں‘ جاوید ہاشمی اور یوسف رضا گیلانی نے ادا کی۔اب وہی کہانی عمران خان کی پارٹی کے ساتھ دہرائی جارہی ہے۔

یہ حالات پیدا کرنے میں بھٹو صاحب اور نواز شریف یا اب عمران خان خود کتنے ذمہ دار ہیں‘ یہ الگ کہانی ہے۔ بھٹو صاحب بھی ہر قیمت پر جنرل ضیاکو آرمی چیف لگانا چاہتے تھے اور انہوں نے تمام سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کر کے ایک جونیئر افسر کو چیف اس لیے لگایا تاکہ اُن کی اقتدار پر گرفت پکی رہے اور وہ اپنے سیاسی مخالفوں کو سختی سے ہینڈل کرتے رہیں۔ دھوکا ہمیشہ وہیں سے ہوتا ہے جہاں سے آپ وفاداری کی توقع رکھتے ہیں۔ یہی کچھ نواز شریف نے کیا ‘جب انہوں نے بھی وفاداری کے چکر میں آرمی چیف لگائے اور وہ ایسے تعیناتی کرتے تھے جیسے یہ عہدہ دے کر دوسرے پر ذاتی احسان کررہے ہوں۔

نواز شریف دور میں جب بھی چیف کی تعیناتی کا وقت آتا ہر دفعہ لابنگ شروع ہو جاتی تھی۔ اُس دور کے سب متوقع جرنیل اپنی اپنی لابنگ میں لگ جاتے۔ نواز شریف بھی ادھر اُدھر سے پوچھنے لگ جاتے کہ ان میں سے کشمیری کون ہیں۔ جنرل ضیاالدین بٹ اور جنرل راحیل کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح کشمیری قبیلے سے نکلتا تھا۔ جنرل باجوہ کے وقت کوئی کشمیری بیک گرائونڈ کا جنرل نہ تھا تو اس دفعہ تعلقات‘ دوستی ‘ ضمانتوں اور جنرل باجوہ کے سسر کے ساتھ پرانے تعلقات کی بنیاد پر تعیناتی کی گئی۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو بات وہیں جا نکلی کہ چاہے بھٹو کی طرح ذاتی وفاداری کو ترجیح دیں‘ نواز شریف کی طرح اپنی برادری یا تعلقات کی بنیاد پر چیف لگائیں‘ نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ چاہے مشرف ہوں‘ جن کی ضمانت چوہدری نثار علی خان نے دی تھی یا باجوہ‘ جن کے ضامن تو خیر اُن کے سسر جنرل (ر)اعجاز سے لے کر چند وزیر بھی تھے جو نواز شریف کوقسمیں دے رہے تھے کہ وہ انہیں جانتے ہیں اور وہ بہت اچھے رہیں گے۔ جنرل مشرف نے بھی جیل میں ڈالا اور جنرل باجوہ نے بھی ( اگرچہ اس دفعہ قانونی طریقہ تھا)۔

ان حالات میں بھی عمران خان ہر قیمت پر جنرل فیض کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے اور ان کی محبت میں وہ مشکلات اٹھائی ہیں جو ابھی تک ختم نہیں ہو پار رہیں۔ بلکہ ختم کیا ہوں اپنی پارٹی تڑوا بیٹھے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ انسانی مزاج ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تجربات سے نہیں سیکھتے اور اس لیے انسانی تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ ہر انسان صرف اپنے ہی تجربات سے سیکھتا ہے‘ لہٰذا ہر انسان ان حالات میں وہ مخصوص غلطیاں دہراتا ہے جو اس سے پہلے کسی عہدے پر بیٹھے لوگ دہرا چکے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے کہ ہر بڑا آدمی ایک سطح پر پہنچ کر خود کو بھگوان سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کامیاب انسان کے اندر ایک غرور پیدا ہو جاتا ہے کہ خدا نے اُسے کسی بڑے مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ دوسرے لوگوں سے خود کو افضل سمجھنا شروع کر دیتا ہے‘لہٰذا وہ دوسرے لوگوں کے مشورے اور باتوں کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ اتنے ذہین ہوتے یا اس سے بہتر قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوتے تو بھلا وہ اس وقت اس کے محتاج ہوتے کہ وہ انہیں اپنے دربار کا وزیر بنائے یا انہیں کوئی اہم عہدہ دے جس کی بنیاد پر وہ اپنے جیسے لوگوں پر اپنی اتھارٹی اور عہدے کا رعب ڈال سکے۔

یوں وہ ہر قسمی گفتگو اور مشورے سے خود کو دور کر لیتا ہے۔ پھر حکمران کے ذہن میں ایک اور فتور پیدا ہو جاتا ہے کہ اُس نے اب تاحیات حکمران رہنا ہے۔ اسے قدیم زمانوں کے بادشاہوں کے قصے کہانیاں اچھی لگنا شروع ہو جاتی ہیں ۔نہ الیکشن ہوتے تھے‘ نہ حکومتیں تبدیل ہوتی تھیں‘ وہ مرتے دم تک بادشاہ رہتے تھے۔ یوں انہیں جمہوریت کاٹنے لگ جاتی ہے۔ انہیں اپوزیشن برُی لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ میڈیا زہر لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ انہیں کسی قسم کی تنقید اچھی نہیں لگتی۔ ہر طرف ہٹو بچو‘ گاڑیوں کے قافلے ‘ پروٹوکول اور اختیارات سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ ان لمحات کو انجوائے کرنے کی بجائے‘کہ جب وہ پاور میں ہیں‘ الٹا یہ سوچ کر راتوں کو سو نہیں سکتے کہ دو تین سال بعد جب ان کی ٹرم ختم ہوگی اور وہ الیکشن نہ جیت سکے تو پھر زندگی کیسے گزرے گی۔ یوں وہ غیرجمہوری سوچ کے غلام بن جاتے ہیں۔ یہ سب جاہ و جلال کھونے کا خوف انہیں ایک ڈکٹیٹر بنا دیتا ہے۔ عدم تحفظ یا اَن سکیورٹی ان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اب وہ طاقت کے حصول یا اس طاقت کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ ڈاکٹر فاوسسٹس کی طرح شیطان سے بھی ڈیل کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں تاکہ وہ دنیاوی لذتوں کو انجوائے کرتے رہیں۔

یہی کچھ بھٹو نے کیا جب جنرل ضیاکو اپنے اقتدار کو دوام دینے کا سہارا سمجھا‘ یہی نواز شریف نے سمجھا جب انہوں نے جنرل ضیا الدین بٹ اورجنرل باجوہ کو چیف لگایا کہ اب امیر المومنین بنیں گے اور یہی عمران خان سمجھ بیٹھے تھے کہ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف لگائے بغیر وہ 2028ء تک وزیراعظم نہیں رہ سکیں گے۔

جنرل ضیا کو آرمی چیف لگا کر بھٹو پھانسی جا لگے‘ جنرل مشرف کو آرمی چیف لگا کر نواز شریف دہشت گردی کے الزام میں اٹک قلعہ جا بیٹھے‘ جنرل باجوہ کو لگا کر بھی بیٹی سمیت اڈیالہ جیل جا بیٹھے۔اگر عمران خان بھی جنرل فیض کو آرمی چیف لگانے میں کامیاب ہو جاتے تو آپ کا کیا خیال ہے کیا ہونا تھا… تخت یا تختہ ؟(بشکریہ دنیانیوز)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں