تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔
ایڈم گرانٹ پنسلوینیا یونیورسٹی کا پروفیسر اور کئی کتابوں کا مصنف ہے، اُس کی کتابیں عموماً انسانوں کے رویوں اور اُن کے نتیجےمیں جنم لینے والے فیصلوں کے گرد گھومتی ہیںاور ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم لوگ اپنی زندگیوں میں کیا غلطیاں کرتے ہیں اور یہ غلطیاں کیسے درست کی جا سکتی ہیں۔اپنی کتابOriginalsمیں گرانٹ لکھتا ہے کہ چند سال پہلے ایک ایجاد نے سیلیکون ویلی میں تہلکہ مچا دیا ،اِس ایجاد کے بارے میں سٹیو جابز نے کہاکہ کمپیوٹر کے بعد یہ ٹیکنالوجی کا سب سے حیران کُن کارنامہ ہے،اُس نے کمپنی کا دس فیصد حصہ 63 ملین ڈالر کے عوض خریدنے کی پیشکش بھی کی مگر موجد نے یہ پیشکش ٹھکرا دی جس کے بعد جابز نے کہا کہ وہ اگلے چھ ماہ تک اسے مفت مشورے دینے کے لئے تیار ہے ، یہ ایک ایسی پیشکش تھی جو سٹیو جابز نے پہلےکبھی کسی کو نہیں کی تھی۔اِس کے بعد ایمزون کے مالک جیف بیزوز نے وہ ایجاد دیکھی اور کہا کہ تم نے ایسی انقلابی شے بنا ڈالی ہے جسے بیچنے میں تمہیں کوئی دقت نہیں ہوگی۔پھر جان ڈویر صاحب تشریف لائے جنہوں نے گوگل اور اُس جیسی متعدد کمپنیوں کے بارے میں درست پیش گوئیاں کی تھیں ،انہوں نے فرمایا کہ یہ ایجاد انٹرنیٹ کوبھی پیچھے چھوڑ دے گی اور اُس میں 80 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی ۔موجد کے بارے میں ایڈم گرانٹ لکھتا ہے کہ اسے آپ جدید تھامس ایڈیسن کہہ سکتے ہیں ،اِس سے پہلےاُس نے پورٹیبل ڈائلسز مشین بنائی تھی جس کو سال کی بہترین طبی ایجاد کا نام دیاگیا تھا،اِس کے علاوہ اُس کے نام پرسینکڑوں Patents تھے جس کی بدولت اسے امریکہ میں موجدوں کے لئےسب سے بڑے اعزازیعنی قومی تمغہ برائے ٹیکنالوجی اور جدت سے نوازا گیا تھا۔اپنی نئی ایجاد کے بارے میں اِس موجد کا خیال تھا کہ پہلے ہفتے میں اِس کے دس ہزار یونٹ فروخت ہوجائیں گے مگر ایسا نہ ہوا، چھ سال میں اُس کے صرف تیس ہزار یونٹ فروخت ہوئے ۔اِس ایجادکو Segwayکہتے ہیں،یہ دو پہیوں کی سائیکل نما مشین ہے جس کو آپ سڑک پر آنے جانے کے لئےچلا سکتے ہیں۔ٹائم میگزین نے اسے دہائی کی دس ناکام ترین اشیا میں سے ایک قرار دیا۔
ایڈم گرانٹ نے کتاب میں اِس طرح ایک آدھ کہانی مزید بیان کی ہے جس میں بتایا ہے کہ کس طرح بالکل فلاپ سمجھے جانے والے ٹی وی شو نے کامیابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور پھر بتایا کہ ایسا کیوں ہوتا ہےکہ بڑے بڑے طرم خان بعض اوقات فیصلے کرنے میں غلطی کر بیٹھتے ہیں اور false positive اورfalse negative میں تفریق نہیں کرپاتے۔گرانٹ کا کہنا ہے کہ عموماً بڑے کاروباری افراد کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اِسلئے کامیاب ہوتے ہیں کہ اُن میں رِسک لینے کا حوصلہ ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ لوگ بھی رِسک لینے سے اُتنا ہی ہچکچاتے ہیں جتنا کوئی بھی عام شخص۔ اپنی اِس بات کو ثابت کرنے کے لئے گرانٹ نے کتاب میں متعدد مثالوں اور اعداد و شمار کا حوالہ دیا ہے ۔ ایک اور دلچسپ بات جو میں نے اِس کتاب میں پڑھی وہ یہ تھی کہ اعلیٰ معیار کو چھونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے’ کام کرنے کی مقدار زیادہ ہو‘ یعنی اگر آپ لکھاری ہیں تو لکھتے چلے جائیں ، اسی میں سے اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہوگا،یہاں پر گرانٹ شیکسپئیر کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ عام طور پر لوگ اُس کے چار پانچ شاہکار ڈراموں سے ہی واقف ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ دو دہائیوں پر محیط اپنے کیرئیر میں شیکسپئیر نے سینتیس ڈرامے اور ڈیڑھ سو سے زائد نظمیں لکھیں۔اسی طرح جب دنیا کی پچاس بہترین دھُنوں کا انتخاب کیا گیا تو کلاسیکی موسیقی کے اُس انتخاب میں موزارٹ کی چھ، بیتھوین کی پانچ اور باخ کی تین دھنیں شامل تھیں۔اسی طرح پکاسو نے 1800پینٹنگز بنائیں، 1200 مجسمے بنائے ،2800 برتنوں کے نمونےاور 12000 تصاویر بنائیں جن میں سے عوام اور خواص محض چند ایک کے بارے میں ہی جانتے ہیں اور انہی مشہور تصاویر اور پینٹنگز کی وجہ سے پکاسو کوعالمی شہرت ملی۔ایڈم گرانٹ چونکہ منٹو کو نہیں جانتا اِس لیے اُس نے یہاں اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار کی مثال نہیں دی جو فقط بیالیس سال کی عمر میں مر گیا مگر اُس کے افسانوں کے مجموعوں کی تعداد بائیس ہے جبکہ ڈرامے، تراجم اور خاکوں پر مشتمل کتابیں اِس کے علاوہ ہیں ۔گرانٹ کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ تعداد پر زیادہ توجہ دیں گے تو معیار برقرار نہیں رکھ پائیں گے جوکہ درست بات نہیں ، وہ کہتا ہے کہ بعض اوقات لوگ چند چیزیں تخلیق کرکے انہیں بہتر کرنے میں جُتے رہتے ہیں حالانکہ عمدہ تخلیق ہمیشہ اُس وقت وجود میں آتی ہے جب آپ زیادہ سے زیادہ تعداد میں تخلیقی کام کریں۔
ایڈم گرانٹ کے ذہین ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس عرق ریزی سے اعداد وشمار جمع کرکے وہ اپنا مقدمہ پیش کرتا ہے اسے رد کرنا آسان کام نہیں ۔بلاشبہ گرانٹ کے دلائل میں وزن ہے مگر جس طرح گرانٹ نے مختلف کمپنیوں اور کامیاب اور ناکام لوگوں کی مثالیں اکٹھی کی ہیں بالکل اسی طرح اُس سے متضاد خیالات کے حامل محققین نے بھی متعدد مثالوں اور اعداد و شمار کی مدد سے یہ ثابت کیاہے کہ کامیاب کاروباری افراد رِسک لینے کی وجہ سے ہی کامیاب ہوتے ہیں ۔ اسی طرح تعداد اور معیار کی بحث کو دیکھا جائے تو گرانٹ کا نکتہ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے مگر استثنیٰ توبہرحال ہر میدان میں ہوتے ہیں ۔ یہاں اردو کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق یوسفی کی مثال یاد آئی ، یوسفی صاحب معیار کے قائل تھے مقدار کے نہیں ، انہوں نے 94 برس کی عمر پائی مگر صرف چار کتابیں لکھیں (شامِ شعر یاراں اُن کے مضامین کا مجموعہ ہے جو اِن میں شامل نہیں )،آبِ گُم کے بعد انہوں نے ایک ضخیم کتاب لکھی مگر اسے کبھی شائع نہیں کیا کیونکہ وہ اُس کے معیار سے مطمئن نہیں تھے۔ گرانٹ کی کتاب سے ایک بالواسطہ سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ذہین اور جینئس افراد کےلئے ضروری ہے کہ وہ مالی امور کے بھی ماہر ہوں ، ایسا نہ ہو کہ اُن کی ایجادات دوسروں کی زندگیاں تو تبدیل کردیں مگر وہ خود تمام عمر فقیری میں گزار دیں۔ آج کل تو درویشوں میںبھی فقیری نہیں رہی ،یہ تو پھر دنیا داروں کا ذکر ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔