likhne walo ke masail | Hammad Raza

تخفیفِ اسلحہ ضروری کیوں ہے؟؟

تحریر۔حماد رضا

ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھرمیں تقریباً اڑھائ لاکھ افراد سالانہ گن انجری کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے  ہیں اور حالیہ آنے والے برسوں میں اس تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اس خوفناک اضافے نے پوری دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہتھیار مسلسل انسانی بقاء کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں لہذا ان کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔۔ کالم میں پہلے کچھ ترقی یافتہ ملکوں اور ان کی تخفیف اسلحہ پالیسی کا ذکر کرنا چاہوں گا،اس کے بعد ملکی تناظر میں اس پر  بات کی جاۓ گی سب سے پہلے جاپان کی مثال پیشِ خدمت ہے جاپان کا شمار آج کے ترقی یافتہ ترین ملکوں میں کیا جاتا ہے جاپانی پاسپورٹ اس وقت دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ تصور کیا جاتا ہے اس پاسپورٹ پر آپ کسی بھی دوسرے پاسپورٹ کے مقابلے میں دنیا کے  زیادہ ملکوں کا بغیر کسی ویزے کے سفر کر سکتے ہیں کوئ بھی ملک ایک دم ترقی نہیں کر جاتا اس ملک کی ترقی میں اس ملک کی حکومت کا طرزِ حکمرانی سو چ فکر اور مضبوط خارجہ پالیسی بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں اور دوسری بات یہ کہ کسی بھی ملک میں سیاحت اور کاروبار کو تب فروغ حاصل ہو گا جب امن کی مکمل ضمانت فراہم کی جاۓ اس تمام صورت حال کو سامنے رکھتے ہوۓ جاپان نے کئ دہائیاں پہلے تخفیف اسلحہ کی پالیسی اپنائ اور اس پالیسی کو باقاعدہ قانونی شکل دی گئ وہ قانون یہ تھا کہ کسی بھی عام آدمی کے پاس اسلحہ نہیں ہونا چاہیے ہتھیار رکھنے کا حق صرف اور صرف سیکیورٹی اداروں کو ہے قارئین کو بتاتا چلوں کہ تخفیف کے معنی مکمل پابندی کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ اس سے مراد کمی کے لیے جاتے ہیں اس قانون کی روشنی میں کسی بھی جاپانی شہری کو ہینڈ گن کا لائسنس جاری نہیں کیا جاتا  یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہینڈ گن سے وقوع پذیر ہوتی ہیں بہ نسبت اسلحہ کی کسی دوسری قسم کے  پورے جاپان میں آپ کو کسی شہری کے پاس ہینڈ گن نہیں ملے گی جاپانی شہریوں کو صرف شاٹ گن اور ایر گن کا لائسنس دیا جاتا ہے جس کے لیے بھی کڑی ترین شرائط رکھی گئ ہیں امیدوار کو اس کے لیے ایک رٹن ٹیسٹ پاس کرنا اور شوٹنگ ٹیسٹ میں پچانوے فیصد ایکو ریسی لینا ضروری ہے متعلقہ امیدوار کے ماضی کی باقاعدہ تاریخ جانچی جاتی ہے اور اس کے علاوہ بھی کئ لوازمات پر عمل کرایا جاتا ہے ان سارے اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج جاپان میں سالانہ صرف دس افراد کی موت گن شاٹ سے واقعہ ہوتی ہے اور اگر اس تناظر میں پاکستان کی بات کی جاۓ تو اتنی اموات آپ کو ایک ہی دن میں کسی بھی اخبار کے جرم و سزا کے صفحے پر با آسانی مل جائیں گی جاپان کے بعد آسٹریلیا کی مثال کھلی کتاب کی طرح پوری دنیا کے سامنے ہے آسٹریلیا میں انیس سو چھیانوے میں ریاست تسمانیہ میں ایک جنونی شخص کے ہا تھوں چھ افراد کی ہلاکت کے بعد وہاں کی حکومت نے عام شہریوں سے تقریباً دس لاکھ بندوقیں لے کر انھیں تباہ اور ناکارہ کیا جس کے بعد آسٹریلیا میں بھی اس قسم کے واقعات میں کمی دیکھی گئی آسٹریلیا کے بعد اب ذرا پاکستان کے قریب بھارت کی بات کرتے ہیں پورے ہندوستان میں آپ کو کسی بھی عام شہری کے پاس کلاشنکوف نظر نہیں آۓ گی وہاں بھی عام شہری کو صرف شاٹ گن اور بلٹ ایکشن رائفل کا لائسنس کڑی شرائط کے بعد جاری کیا جاتا ہے  بھارت میں ویسے بھی جرائم پیشہ عناصر کی آٹو میٹک ہتھیار تک پہنچ بہت محدود ہے پاکستان کے تناظر میں اگر یہ بات کی جاۓ تو ہم نے اپنے ملک میں اسلحے کے انبار لگانے میں خود کوئ کسر نہیں چھوڑی اور آج ہم امن وامان کا رونا روتے نظر آتے ہیں اس کی شروعات سن انیس سو پینسٹھ میں اسلحے کی قانون سازی سے متعلق بناۓ ہوۓ قانونی مسودہ سے ہوتی ہےجس میں ہم نے فاٹا کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کرتے ہوۓ اسے قومی دھارے سے الگ رکھا اور وہاں بغیر کسی لائسنس کے اسلحے کی خریدو فروخت کو اپنے پاس رکھنے  اور اس کی نمائش کو جائز قراردے دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں  اس صنعت نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی آہستہ آہستہ وہاں پراسلحہ کے کار خانے بننے شروع ہوۓ اور افغان جہاد نے تو اس صنعت کو دوام بخش دیا یہا ں پے کسی بھی چیز کی کوئ بھی قانونی حثیت نا ہونے کی وجہ سے یہاں سے پورے ملک میں اسلحے کو اسمگل کیا گیا پھر کیا پشاور کیا کراچی کیا لاہور اور کیا کوئٹہ اسے مقامی مارکیٹ تک رسائ دی گئ یہی وجہ تھی کہ جب ملک میں کالعدم تحریک طالبان اور بی ایل اے جیسی ملک دشمن تحریکوں نے سر اٹھایا تو انھیں اپنے علاقوں میں اسلحے کی کوئ کمی نظر نا آئ  اور اسلحہ بھی اس طرز کا جس کے زور پر باقاعدہ فوج کو للکارا جا سکے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اسی وجہ سے کوئ مزاحمتی تحریک حکومت کے لیے زیادہ سر درد نہیں بن سکی کے وہاں مزاحمتی تحریکوں کو اسلحے کی شدید قلت کا سامنا رہا اور جو اسلحہ میسر تھا وہ ایسا نہیں تھا جس سے فوج کے خلاف لڑا جا سکے اسی لیے وہ اپنی موت آپ مرتی گئیں اور ہمیں ستر ہزار جانوں کی قربانی دینا پڑی بد قسمتی سے ہماری جو حکومتیں منتخب ہوتی ہیں وہ اپنی  حکومتی بقاء کی جنگ میں ہی اپنا سارا دورِ حکومت گزار دیتیں ہیں عوام کو بجلی گیس مہنگائ کے اتار چڑھاؤ میں الجھا کر ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل درآمد کرتی نظر آتی ہیں خوش آئند بات یہ ہے کہ قبائلی علاقہ جات کو بھی اب قومی دھارے میں لایا گیا ہے حکومت کو اسلحے کی تخفیف کے حوالے سے بھی سخت پالیسی اپنانا ہو گی یہاں پر دنیا کی کامیاب پالیسیوں سے سبق حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے  اور یہ آج سے دس بیس یا پچاس سال بعد کرنا ہی پڑے گا کیونکہ کوئ بھی قوم اسلحے کے ڈھیر پر بیٹھ کر ترقی کا خواب کبھی نہیں دیکھ سکتی ۔(حمادرضا)

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں