تحریر: وارث رضا۔۔
کون جانتا تھا کہ ظلمت سے بھرے آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں صحافتی تحریک ، صحافتی آزادی اور شہریوں کے جمہوری حقوق کی پاداش میں زندانوں کی دیواروں سے بے خوف خطر ٹکرانے والے ’’ طاہر نجمی ‘‘ کو خیر پور کی جیل کا وہ حبس اور قید بھگتنا پڑے گی۔
یہ وہ طاہر نجمی تھا جس نے منہاج برنا کی قیادت اور صحافیوں کی جدوجہد کو شعوری طور سے قبول کیا تھا۔
کسے علم تھا کہ ملتان کی تپتی دھوپ میں کلکاریاں مارتے ہوئے ’’ طاہر نجمی‘‘ اپنی خاموش طبع کی بنیاد پر صحافتی تحریک کا وہ سپاہی ثابت ہوگا جو تماتر مشکلات کے باوجود آزاد صحافت کے لیے نہ صرف لڑے گا بلکہ قلم کے ذریعے طاغوتی قوتوں کے سامنے سینہ سپر بھی رہے گا ، اور اپنی صحافتی اقدار کی سلامتی کا وہ نشان ہوگا جس پر بجا طور پر فاخر رہا جائے۔
طاہر نجمی صحافت کے اس قبیل کا وہ فرد تھا ، جس نے اپنے قلم کی حرمت کے بچاؤ کی خاطر جان کے نذرانے دینے سے بھی گریز نہ کیا تھا ، اپنے آبائی شہر ملتان کی تند و تیز گرمی میں پروان چڑھنے والے طاہر نجمی نے ہمیشہ دھیمے لہجے اور خوش مزاجی کو اپنا وصف رکھا ، یہ طاہر نجمی کی وہ تربیت تھی جو اس نے اپنے اساتذہ اور صحافت کے بابائے تحریک منہاج برنا کی نشستوں میں سیکھی اور سمجھی تھی۔
طاہر نجمی والدین کی ہجرت سے لے کر اپنے آبائی شہر ملتان سے ہجرت کے تکلیف دہ اور کٹھن مراحل سے بھی واقف تھا ، ہجرت کے نتیجے میں عمیق نگاہ کا ہونا ایک فطری عمل ہوا کرتا ہے۔
جسے طاہر نجمی نے نہایت صبر اور تحریکی انداز سے گذارا ، صحافتی جدوجہد کے ساتھیوں میں نوجوانی کا مکمل تحرک رکھنے والا طاہر نجمی اپنے مستقبل کے صحافتی عمل سے بخوبی واقف تھا ، تبھی تو اس نے نہ کبھی صحافتی تحریک میں اپنے متحرک عمل کی پذیرائی چاہی اور نہ ہی طاہر نے اپنی جیل یاترا کو صحافتی شعبے میں بطور ہتھیار استعمال کیا۔
طاہر نجمی اپنے صحافتی سالار منہاج برنا کی ان قدروں کے امین تھے کہ جن سے صحافی اور صحافت کا سر بلند رہے ، اور شاید یہی کچھ اپنے صحافتی دور میں طاہر نے عملی طور سے کرکے دکھایا ، جس سے نہ صرف سیکھنا بلکہ صحافت کے اس اقدار اور کردار کو اپنانا بھی نئی نسل کا صحافتی فرض ہے۔ٹریڈ یونین کے جمہوری حق کے لیے مغرب اور مشرقی حصے میں صحافیوں کی تنظیمیں بنانے کا عمل شروع ہوا اور ملک کے دونوں حصے ایک متحدہ صحافتی تنظیم بنانے میں کامیاب ہوئے۔
گو کہ تقسیم سے قبل بھی صحافتی تنظیمیں کام کر رہی ہیں ، مگر وہ اس قدر موثر نہ تھیں کہ 58کی آمریت کا خم ٹھوک کر مقابلہ کر سکیں ، اسی خیال کے پیش نظر ملک کے صدر مقام ’’کراچی‘‘ کو یہ اعزاز رہا کہ اس نے ’’ کراچی یونین آف جرنلسٹس ‘‘ کے پلیٹ فارم سے صحافیوں کی جہاں سیاسی اور نظریاتی تربیت کی وہیں ’’ کے یو جے‘‘ نے صحافتی اداروں میں صحافیوں کو ’’حق انجمن سازی‘‘ کے شعور سے آگاہی فراہم کر کے ملکی سطح پر صحافتی تنظیم کو مضبوط بنیاد پر استوار کیا۔
جس میں کلیدی کردار منہاج برنا ، احمد علی خان ، غیور الاسلام ، علی محمد خان ، نثار عثمانی کے علاوہ احفاظ الرحمن ، حبیب غوری ، ناصر زیدی ، پیکر نقوی ، جی این مغل، صدیق بلوچ ، ظفر رضوی ، حسن عابدی نے صحافت کی آزادی کا یہ علم تھاما اور پھر صحافتی آزادی کے اس چراغ کو نئی نسل کے باشعور صحافی نعیم آوری ، ناصر چغتائی ، مدثر مرزا ، طاہر نجمی ، حمید چھاپرا اور مظہر عباس ایسوں کے حوالے کیا۔
جنہوں نے صحافت کی آزادی اور قدروں کے لیے اپنی صحافتی جدوجہد میں برنا اور اکابرین کے اصولوں پر کسی بھی فوجی آمر یا جمہوریت دشمن سے سمجھوتہ نہ کیا۔
بلکہ جب جنرل ضیا نے اپنے آمرانہ دور میں مذہبی فکر رکھنے والے وزیر اطلاعات کے ذریعے مذہبی تنگ نظری کے ذریعے صحافتی اتحاد کی مضبوط تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس PFUJکو تقسیم کرنے کی سازش رچائی تو منہاج برنا اور ان کی تنظیم کے جانثاروں نے صحافت کی آزادی کے لیے ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کی اور آمر ضیا کی صحافت کو پا بہ زنجیر کرنے کی کوشش کو اپنے اتحاد اور حکمت عملی سے ناکام بنایا اور رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں بھی دیں اورکوڑے کھانے پر بھی زندان سے مسکراتے ہوئے سرخرو نکلے۔
آمر ضیا اپنے جبر سے طاہر نجمی سمیت ، ناصر زیدی ، اقبال جعفری ، خاور نعیم ہاشمی اور مسعود خان کے پائے استقامت گرفتاری اور کوڑے کھانے کے بعد بھی کوئی جنبش نہ لا سکے۔
اس دوران جب طاہر نجمی کو کراچی سے گرفتار کر کے خیر پور سندھ میں قید کیا گیا تو طاہر نجمی نے ایک عرصے تک ’’ قید تنہائی ‘‘ میں گذارا مگر کسی بھی لمحے طاہر نجمی کے اعصاب کو ضیا کا آمرانہ دور شکست نہ دے پایا ، بعد میں سکھر جیل سے ساتھیوں کے خطوط کے جواب میں طاہر نجمی کے استقامت بھرے جواب آج بھی ایسی دستاویز ہیں ، جن میں جدوجہد اور صحافت کی آزادی کا عزم دیکھا جا سکتا ہے۔
صحافت کی آزادی کی تحریک کے دوران آمر ضیا کا قہر اور پابندیاں ، یہ کوشش کرتی رہیں کہ کسی بھی طور عوام تک حقائق نہ جانے پائیں۔ اس دور میں طاہر نجمی کا ’’ روزنامہ امن‘‘ عوام کی آواز بن کر ابھرا اور طاہر نجمی نے تمام تر دباؤ کے باوجود صحافت کی اعلیٰ اقدار کے پیش نظر آمرانہ دور میں اخبار کے ذریعے عوام کی ترجمانی کی اور بے خوف و خطر وہ لکھا جو سچ تھا۔
جنرل ضیا دور کے قہر اور ابتلا میں طاہر نجمی اور ان کے تمام ساتھی سرخرو نکلے اور ’’کے یو جے‘‘ اور کراچی پریس کلب کو ، صحافت اور عوام کی شہری آزادی کا نشان بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ طاہر نجمی نے صحافت میں ’’ ایکسپریس ‘‘ کے اجرا میں نئی نسل کے صحافیوں کی ایسی کھیپ فراہم کی جو آج بھی طاہر نجمی کے بتائے ہوئے اصول کو تمامتر مشکلات کے باوجود اپنائے ہوئے ہے۔
اس درمیان میں ’’ ایکسپریس اخبار‘‘ کی ٹیم کا میں چند ہفتے وہ خوش نصیب ممبر ٹہرا جو علی مختار رضوی کے ساتھی صحافی مبشر منصور کے دنوں کا دور تھا اور طاہر نجمی ایکسپریس کے ایڈیٹر تھے۔
مبشر منصورکے بطور نیوز ایڈیٹر شپ میں وہ راتیں کیسے بھلائی جا سکتی ہیں کہ جس میں طاہر نجمی جاتے جاتے مسکراتے ہوئے مبشر منصور کے اعتماد پر پورا اخبار چھوڑ جایا کرتے اور مجال کہ طاہر نجمی، مبشر منصور کے کام میں دخل اندازی کر دیں، طاہر نجمی کی صحافیانہ قدروں کا یہ مزاج اور دوستوں کا احترام آج ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔
طاہر نجمی اور احفاظ الرحمن کی جدوجہد اور تنظیم آج کل ٹکڑیوں میں بٹ کر صحافت کی آزادی کے راگ الاپے جارہی ہے مگر طاہر نجمی ایسے برداشت اور احترام سے دور ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا طاہر نجمی کی فکر صحافیوں کو یکجا کرنے کی تھی یا ٹکڑیوں میں تقسیم رہنے کی تھی؟ آج بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا اور نہ منہاج برنا و طاہر نجمی کی ایکتا سوچ ، کوشش کیجیے کہ گروہی مفادات کا قتل کر کے طاہر نجمی اور ان کے اکابرین کی سوچ اور اتحاد کو بیٹھ کر حل کریں کہ ٹکڑیوں میں بٹ جانے سے آپ کمزور اور عوام دشمن و صحافت دشمن ریاست مضبوط ہوگی۔
کسی بھی طرح یہ صحافت ہر گز نہیں ، نجانے کیوں مجھے طاہر نجمی کے جنازے میں وہ افراد نظر نہ آئے جو صحافتی اور صحافتی تنظیموں کے کاغذی ماہ ولی تو بنے رہتے ہیں ، مگر طاہر کے آخری سفر کے ساتھی ہونے سے محروم رہے؟(بشکریہ ایکسپریس)