تحریر: وارث رضا۔۔
ایک سیاسی اور نظریاتی باپ کی خواہش کو جب اولاد اپنے سیاسی سماجی اور تعلیمی شعور سے سینچنے کے قابل ہوجائے اور وہ خود مشکل گھڑی میں بہادرانہ انداز سے مشکلات کا حل نکالنے لگے تو اس لمحے باپ خود کو نظریاتی طور سے مزید مستحکم پاتا ہے، اور ایسے مواقع پر باپ خود کو ٹھوس ارادوں کے ایک ایسے گھروندے کا سایہ دار درخت سمجھنے لگتا ہے کہ جس کی آبیاری میں جب اسکی بیٹیاں سیاسی شعور اور علم ڈال کراس سیاسی شعور کے گھنے درخت کو سماج کے محروم طبقات اور ان کے جمہوری حقوق کا سایہ بناتی ہیں تو لگتا ہے کہ، وہ بیٹیاں باپ کے خواب کی جیتی جاگتی تصاویر ہیں۔۔۔ پھر ایسی بہادر بیٹیوں پر صرف فاخر ہی تو ہونا پڑتا ہے۔
یہ ہمارے بے ترتیب سماج کی وہ منظر کشی ہیں جہاں متذکرہ حقیقتیں جب پھوٹتی ہیں تو شکستہ سماج کے چاپلوس افراد یا تو انگشت بدندان ہو جاتے ہیں یا پھر جبر کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے ایسی بیٹیوں کے عمل کو سلام پیش کرتے ہیں ، مگر عملی طور سے اپنی اولاد کو سیاسی شعور اور سماج کی بالیدہ تربیت سے پھر بھی محروم رکھتے ہیں، جو کہ کسی بھی طور سماج کی قدروں، روایتوں اور بہادری کو آگے بڑھانے کا عمل نہیں ہوتا۔مگر دوسری جانب کنبے کی مشکلات اور کڑے وقت میں جب بیٹیاں باپ کی گمشدگی پر رونے دھونے یا سہاروں کے بجائے خم ٹھونک کر مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتی ہیں تو پورا سماج ان کی جرات کے ساتھ کھڑا ہو کر جبر و استبداد کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنی بہادر بیٹیوں کی آواز پر لبیک کہتا ہوا ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
اس ملک میں قانون کی بالادستی کی بات کرنا ویسے بھی “دیوانگی” قرار دے دیا گیا ہے، مگر اب بھی چند سر پھرے سیاسی سوچ کے صحافی سر توڑ کوشش میں جتے ہوئے ہیں کہ اس دیس کی سوہنی دھرتی میں وہ شہری آزادی، جمہوری قدریں اور اظہار کی آزادی کے آئینی حق کے لیئے لڑتے رہیں گے کہ جمہوری آزادی کا یہ حق ان کی دھرتی ماں یا ریاست نے انہیں دیا ہے اور وہ یہ آئینی حق ہر صورت بحال کروا کے دم لیں گے، جو کہ جمہوری آزادی اور اظہار رائے کی ایک حوصلہ افزا نشانی ہے۔
بھیگتی رات کے تین بجے کے سمے جب چھ بیٹیوں کے صحافت کرنے اور قلم کی آبیاری کرنے والے باپ کو غیر قانونی انداز سے گھر کی بیٹیوں کے سامنے تفتیش کے بہانے اٹھا کر لے جایا جائے تو اس لمحے وہ منظر ناقابل بیان ہوتا ہے، جس میں محلے، اعزا اور احباب کے ذہن میں مختلف منفی و مثبت خیالات جنم لیتے ہیں اور متعلقہ فرد یا مجھ ایسے صحافی کی بیٹیاں سب کے سامنے سوالیہ نشان بن جاتی ہیں، یہی وہ موقع اور لمحہ ہوتا ہے جب آپ کا بیٹیوں کو دیا ہوا سیاسی اور سماجی شعور کام آتا ہے اور اس لمحے لیلی رضا اپنی چھوٹی بہن مرضیہ رضا کے ساتھ مل کر اپنے بابا کی غیر قانونی و غیر آئینی گمشدگی پر خم ٹھونک کر مقابلے کے لیئے میدان عمل میں آجاتی ہیں اور سیاسی شعور کی حکمت عملی سے سماج کی تمام۔پرتوں میں “صدائے حق” کی ندا دیتی ہیں۔
یہ وہ لمحہ تھا جب تن و تنہا لیلی رضا اور مرضیہ رضا اپنے علمی رجحان سے منصوبہ بندی کرکے ایک گمشدہ باپ کے مقابلے میں ہزاروں باپ کی بیٹیاں بن جاتی ہیں، وہ صحافتی کنبے اور سماج کے شعور کو جھنجھوڑتی ہیں تو لیلی رضا اور مرضیہ رضا کے باپ سمان فہیم صدیقی، حامد میر، مبشر زیدی، طلعت حسین، ناصر زیدی، شہزادہ ذوالفقار، افضل بٹ، نجم سیٹھی، مطیع اللہ جان، مظہر عباس، اظہر عباس، نظام صدیقی، ریاض سہیل، مرتضی سولنگی، رضا رومی، اسد طور، اقبال ملاح، جان خاصخیلی، لالہ اسد پٹھان، حارث خلیق، کمال شاھ اور دیگر ہزاروں صحافی دوست لیلی رضا کے “باپ”بن کر لیلی رضا اور مرضیہ رضا کے ہم قدم ہوجاتے ہیں، عاصمہ شیرازی سے لے کر محترمہ شمسہ میری بیٹی کی ڈھارس ہو جاتی ہیں، سلمان، عباس، فاطمہ اور خرم کی مدد اور ساتھ لیلی رضا و مرضیہ رضا کے سنگ ان کے غیر قانونی طور سے لاپتہ کئے جانے والے”باپ” کی رہائی کے لیئے سر بکف ہو جاتا ہے، اس موقع پر صحافیوں کی مرکزی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس اور کراچی یونین آف جرنلٹس لیلی رضا اور مرضیہ رضا کے ہم قدم ہوکر نہ صرف ان کے حوصلوں کو تقویت دیتے ہیں بلکہ ان سے مسلسسل رابطے میں بھی رہتے ہیں۔
اس مشکل گھڑی میں، ملک کی تمام صحافتی تنظیموں پنجاب یونین آف جرنلٹس، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس، ایبٹ آباد یونین آف جرنلٹس، راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلٹس سیاسی شعور رکھنے والے طلبہ، ٹریڈ یونین رہنما، دانشور تنظیمیں، انجمن ترقی پسند مصنفین کے ذمہ داران، کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند سوچ کے دوست اور صحافت سے وابستہ تمام احباب کا شکر گذار ہوں جو یک آواز ہوکر میری لیلی رضا اور مرضیہ رضا کی قوت بن جاتے ہیں اور سیاسی و سماجی شعور کے نتیجے میں “غیر قانونی و غیر آئینی” عمل کے خلاف ایک ایسی تحریک بن جاتے ہیں جو قانون کی بالادستی کو اپنا ایمان جان کر اپنی دھرتی ماں یا ریاست سے وفاداری اور جمہوریت کی بالا دستی کا حلف اٹھاتے ہیں اور آخر کار گمشدہ کرنے کے غیر قانونی و غیر آئینی عمل کو شکست دے کر سماج کے اجتماعی شعور کو آگے بڑھاتے ہیں۔میں غیر قانونی اغوا کے چودہ گھنٹے کے پٹی بندھے عمل کو کیسے بھول سکتا ہوں جس میں تابڑ توڑ سوالات میری تحاریر سے متعلق ، کے یوجے اور پی ایف یو جے کے متحرک ہونے پر ہوتے رہے، صحافت پر قدغن لگانے کی کوشش کے مجوزہ قانون پی ایم ڈے اے اور پارلیمینٹ ہائوس کے سامنے صحافتی دھرنے سے متعلق ہوتے رہے، ان گھنٹوں کے دوران مجھ سے گو انتہائی شائستہ اور دوستانہ رویہ رکھا گیا، جو ایک مثبت قدم۔ہے، مگر قید تنہائی کا وہ عذاب کیسے بھلایا جا سکتا ہے جو میرے کمیونسٹ خیالات کی وجہ سے متزلزل تو نہ ہو سکا مگر میرے اوسان میں سوالات کا ایسا جال ضرور بنا گیا جس کی گرہیں سلجھانے میں مجھے ایک وقت تو لگ سکتا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ غیر قانونی عمل اور ایک خوف زدہ ماحول طاری کرنے کی یہ کوششیں مجھے محلے اور سماج کے ان سوالات سے کیسے بچا پائیں گی جو بلا ضرورت کیئے جاتے رہیں گے، جب یہ ملک آئین و قانون کے مطابق چل رہا ہے یا چلائے جانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو اس پر تفتیشی عمل کو بھی آئین و قانون کے تابع کیوں نہیں کیا جاتا۔
آپ تفتیش کریں بالکل کریں مگر اس کا قانونی طریقہ اختیار کیا جائے تو نہ سر بکف ہونا پڑے گا اور نہ ہی احتجاج کی نوبت آئے گی، آپ نوٹس دے کر بلائیں ۔۔ہم صحافی اپنی تفتیش کروائیں گے اگر ہمارا عدم تعاون ہو تو آپ کی شکایت بجا۔۔۔مگر غیر قانونی عمل دراصل نہ صرف لے جانے والوں کو کمزور کرتا ہے بلکہ وہ ریاست کے آئین و قانون کو بھی ایک ایسا سوال بنا دیتا ہے کہ جس پر عام فرد بھی اعتبار کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔
ہم صحافی بیک وقت ریاست کی بالادستی اس کی حرمت ، شہری آزادی، جمہوری قدروں کی سلامتی اور عوام کو باخبر رکھنے کے شعوری فرض سے آگاہ ہوتے ہیں، ریاست ہماری وہ ماں ہے جو سگی ماں کے شکم سے ہمیں اگلنے کے بعد اپنے شکم میں لیتی ہے ہمیں اپنی بانہوں میں لوریاں دیتی ہے، ہماری دھرتی ماں تو ہمیں جنم دینے والی ماں سے زیادہ عزیز ہوتی ہے، تبھی تو ہم اس کی بقا و سلامتی اور اپنی ریاست کی آئینی حیثیت برقرار رکھنے پر کوڑے قید اور اغوا کی صعوبتیں چھیلتے ہیں۔
ہر ایک ادارے اور صحافت کا اپنا کام ہے وہ انہیں کرتے رہنا چاہئیے مگر اس بات کا خیال ضرور رکھا جانا چاہئیے کہ کیا کہیں ہم ملک کی جمہوری آزادی اور اس کی قدروں کو شکستہ تو نہیں کر رہے۔۔۔؟ کیا ہم تاریخ کے مجرم بننے کی جانب تو گامزن نہیں؟۔۔(وارث رضا)۔۔