تحریر: محمد زکریا محی الدین۔۔
مضامین کے اس سلسلے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ راقم کی ذاتی رائے ہے جو گذشتہ طویل تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے۔
بنیادی طور پر اگر ہم تفریح یعنی انٹر ٹینمنٹ کی بات کریں تو موضوعات کا معیار زوال پذیر ہوا ہے مگر جہاں تک تعلق ہے پروڈکشن کا اور گلیمر کا تو اس میں بے تحاشا ترقی ہوئی ہے۔ میں کیونکہ سنجیدہ بات کرنا چاہتا ہوں تو میں اس موضوع کے زوال پر بات کرنا مناسب سمجھتا ہوں باقی جن عوامل کی جانب میں نے نشاندھی کی ہے وہ میرا موضوع نہیں ہے۔ ان چینلوں کے مالکان اب یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ٹیلیوژن اسکرین پر ان کے ڈرامے یا شو کم دیکھے جاتے ہیں بنسبت ان کے یو ٹیوب چینلوں کے ۔ بہرحال زریعہ آمدنی محفوظ ہے۔ جس زوال کے بارے میں یہ تحریر ہے ہوسکتا ہے کہ اسے زوال سمجھنا بہت سوں کے لئے مشکل ہو مگر اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ موضوعات کی ان تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کے سماجی ڈھانچے پر شدید ابتدائی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسے واقعات معاشرے میں ہوتے نہیں تھے مگر اب ان ڈراموں کی وجہ سے ان کو ہلا شیری ملی ہے۔ بعد میں یو ٹیوب اور ٹک ٹاک نما اپلیکیشن کی وجہ سے پورا سماجی ڈھانچہ جو 2005 تک بھی اپنی جگہ پر موجود تھا وہ بالکل تبدیل ہو گیا۔
1: بھارت کی اندھی تقلید
جس زمانے میں ذی اور اسٹار پلس کے سوپ پاکستانی ٹیلیوژن اسکرینوں پر کیبل آپریٹر مہیا کررہے تھے اسی وقت سے ہمارے تفریحی چینلوں کی سوچ میں تبدیلی آنے لگی۔ ڈراموں میں ایسے موضوعات عکس بند ہونے لگے جوپاکستانی معاشرے میں اس وقت بھی عام نہیں تھے۔ گھر کی خواتین کے تعلقات کو اچھالا جانے لگا جو بھارتی ڈراموں کا ایک پسندیدہ موضوع تھا۔ ساس بہو نما ڈراموں کا ایک طوفان سا آگیا۔ پھر ان بھارتی ڈراموں میں غیر ضروری اور مصنوعی گلیمر دکھایا جاتا تھا جو ظاہر ہے وہاں کی فلم انڈسٹری سے آیا تھا۔ یہاں ہمارے یہاں کیونکہ کامیابی کا معیار بھارتی تفریح ہے لہذا ہمارے یہاں بھی برانڈڈ وارڈ روب اور میک اپ نے جگہ پا لی جبکہ اگر آپ پی ٹی وی کے معرکتہ الآراء ڈراموں کو دیکھیں جو پرائیویٹ ٹیلیوژن کی آمد سے پہلے ٹیلی کاسٹ کئے جاتے تھے تو آپ کو ایک سادگی ضرور نظر آئے گی اس کے باوجود وہ ڈرامے آج بھی یو ٹیوب پر دیکھے جاتے ہیں اور کچھ تو بھارت کے ایکٹنگ اسکولوں میں دکھائے جاتے ہیں۔میں ایک ایسی سیریل سے واقف ہو ں جو اس وقت آن ائیر ہے ۔ اس میں فقیروں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں فقیرنی صاحبہ جو ڈرامے کی ہیروئین ہیں برانڈڈ کپڑے پہلنے بہترین میک اپ کئے سڑک پر بھیک مانگ رہی ہیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے یہ اب اس ڈرامے کے ہدایتکار اور پروڈیوسر بتا سکتے ہیں۔
2: غیر حقیقی موضوعات
میں نے سنا ہے کہ ایسے موضوعات جو معاشرے میں موجود تو ہیں مگر اتنے نہیں کہ ہر دوسرے گھر کی کہانی ہو جیسے بہنوئی سالی کے تعلقات، سسر اور بہو کے درمیان تعلقات وغیرہ کو عکس بند کرنے کے لئے ایک چینل کو فنڈنگ کی گئی تھی یا کی جاتی ہے واللہ عالم بالصواب۔ مگر اسی چینل سے ان موضوعات پر ڈراموں کا آغاز ہوا تھا اس لئے شک تو ہوتا ہے بعد میں کیونکہ بھیڑ چال ہے سب نے ہی تقلید کرنا شروع کردیا یا اس کو کامیابی کی کلید سمجھا جانے لگا۔ اس سے یہ ڈرامے کامیاب تو ہوئے مگر اس سے پاکستانی معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس بارے میں سوچنے کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی۔ طلباء پر ایک ڈرامہ سیریل کچھ سال قبل چلا تھا ۔ کیونکہ یہ ہمارے ایک واقف کار صاحب کی ہدایت میں بنایا گیا تھا تو ہم نے بھی اسے کئی اقساط تک دیکھا۔ اس کی چند اقساط میں ڈرامہ کی ہیروئین جو ایک معروف ٹک ٹاکر ہیں اپنے استاد کو (جو ہمارے ایک پرانے واقف بلکہ انہیں میڈیا میں داخل کرنے کا گناہ بھی ہم سے ہوا تھاا ور ان سے پہلی بار اداکاری کروانے کا بوجھ بھی ہمارے کندھوں پر ہے) رجھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کیا ضرورت تھی کہ اس قسم کی چیز نیشنل ٹیلیوژن پر دکھائی جاتی؟ مگر وہ چلی۔
3: مائی باپ میڈیا بائیر
عام ناظرین کو نہیں پتا کہ یہ میڈیا بائیر کیا ہے اور ڈرامہ کے معیار میں اس کا کیا کردار ہے۔ کوئی بھی ڈرامہ بنیادی طور پر اس کمرشل ائیر ٹائم کا مرہون منت ہوتا ہے جو اصولی طور پر 40 منٹ والی ایپی سوڈ میں 20 منٹ ہوتا ہے یعنی ایک گھنٹے میں 40 منٹ ڈرامہ اور 20 منٹ کے اشتہار۔ اب کسی بھی چینل کے کسی ڈرامے میں ان بیس منٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ یہ چینل کا کاروبار ہے جس سے اسے آمدنی ہوگی۔اشتہاری انڈسٹر ی میں تین چار ایسے بڑے ادارے موجود ہیں جن کے پاس بڑے کلائینٹ ہیں جیسے یونی لیور یا پراکٹر اینڈ گیمبلر یا کالگیٹ وغیرہ جن کو ہر ماہ اپنے اشتہار ٹیلیوژن پر چلانے ہوتے ہیں تاکہ ان کی پراڈکٹ کی سیل برقرار رہے اگر بڑھے نہیں۔ ان کا ایک مخصوص بجٹ ہوتا ہے جو ان ایجنسیو ں کے پاس ہوتا ہے تاکہ وہ ہرماہ کا ایک پلان بنائیں کہ فلاں اشتہار اتنے دن فلاں فلاں چینل پر فلاں فلاں ٹائم میں چلے گا۔ اس کا فیصلہ میڈیا پلانر اس چینل اور اس چینل کے ان اوقات کی ریٹنگ یعنی ویور شپ دیکھ کر کرتا ہے۔ کیونکہ ان کا بنیادی مقصد کم خرچ میں اپنا اشتہاری پیغام زیادہ سے زیادہ ناظرین تک پہنچانا ہے۔ ویسے تو پاکستان میں میڈیا ریسرچ نامی کسی چیز کا وجود نہیں ہے اور ایک ادارہ اگر یہ دعوی کرتا ہے کہ 22کروڑ میں آبادی میں 900 پیپلز میٹر لگے ہوئے ہیں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ معذرت کے ساتھ یہ ریٹنگ کا چکر سراسر فراڈ ہے اور یہ بات نہ صرف چینل جانتا ہے بلکہ ایجنسی اور کلائینٹ بھی جانتے ہیں مگر کیا کریں دستیاب بس یہی ہے۔ فرض کریں کہ ایک ڈرامہ اچھا چل رہا ہے تو اس میں اشتہار دینا تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے مگر جب سہ ماہی کا آغاز ہوتا ہے تو نئے سیریل اور سیریز وغیرہ شروع کئے جاتے ہیں تو کسی قسم کی کوئی ریسرچ دستیاب نہیں ہوتی۔ یہاں میڈیا بائیر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں چینل زیادہ لوگ دیکھتے ہیں لہذا اسے تو پلان کا حصہ ہونا ہی چاہئے کیونکہ پہلے بھی یہ اچھے ڈرامے بناتے رہے ہیں پھر جو بنیادی فیصلہ وہ کرتا ہے وہ اس ڈرامے کی کاسٹ یعنی کون لوگ اس میں کام کررہے ہیں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اگر اس کاسٹ میں وہ اداکار شامل ہیں جن کے سیریل ہٹ ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں تو وہ بے دھڑک یہ سوچے بغیر کہ اس کی کہانی کیا ہے اس میں اشتہار دے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی کہانی جاننے کی کوشش بھی کرتا ہو مگر اگر پچھلی سہ ماہی میں سالی بہنوئی کی عاشقی کامیاب تھی تو اس سہ ماہی میں بھی ہوگی کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ شماریات اور ریسرچ کے لوگ ڈرامے جن کا تعلق نا صرف فنون لطیفہ سے ہے بلکہ جو معاشرے پر اثر بھی ڈال سکتے ہیں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کچھ ایجنسیوں نے شائد کانٹینٹ کے لوگ بھی رکھے ہوئے ہیں جن کا میں نام لینا نہیں چاہتا مگر ان کے اپنے کریڈٹ پر کیا ہے یہ تو ان کو رکھنے والے بتا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک کہانی کا تعلق ہے اس کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے جن کو کہانی کا پتا ہی کچھ نہیں نہ ہی انہوں نے کبھی ادب خاص طور پر اردو ادب کا مطالعہ کرنے کی زحمت کی ہو کیونکہ اردو پڑھنا یا بولنا تو اس کلاس کی شان کے خلاف ہے جس میں یہ خود کو شامل رکھتے ہیں۔ دوسری طرف چینل میں بیٹھی کانٹینٹ ٹیم بھی کچھ ایسے ہی حالات کا شکار ہے۔ ان کے لئے فلاں چینل کا فلاں ڈرامہ کیونکہ ہٹ ہے لہذا رائٹر کو وہ وہی کہانی یا اس سے ملتی جلتی کہانی لکھ مارنے کا کہتے ہیں ۔ کاسٹ اسکرپٹ سے پہلے فائینل ہوتی ہے کیونکہ سیلز والوں نے میڈیا بائیر کے خیالات پہلے ہی بتا دئے ہیں ۔ رائیٹر کو بھی روزی روٹی کرنی ہوتی ہے لہذا اس کی بلا سے۔ پرائیویٹ انٹر ٹینمنٹ چینل ایک کاروباری ادارہ ہوتا ہے لہذا یہ ان کی مجبوری ہے کہ جو کہا جا رہا ہے یا جیسا سمجھا جا رہا ہے اسی کے مطابق عمل کریں۔ اس کاروباری چکر میں کہانی اور اداکارکہیں گم ہو چکے ہیں۔
4:بھیڑ چال
دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی سیریل یا سیریز کسی چینل پر اچھی چل گئی یعنی اس کی جیسی تیسی جھوٹی سچی ریٹنگ آگئی اور اس میں اشتہار بھی زیادہ مل گئےتو جتنے چینل ہیں وہ اسی قسم کے ڈرامے بنانا شروع کردیتے ہیں۔ا س کی وہی وجہ ہے کہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ کیونکہ ایک موضوع اچھا چلا گیا لہذا اسی کو استعمال کیا جائے نئے تجربے کی کیا ضرورت ہے؟۔ ابھی کسی ڈرامے میں کسی کردار نے اپنے شوہر کو تھپڑ کیا جڑا اور اس کا چرچا سوشل میڈیا پر کیا ہوا ہر ڈرامے میں بیویاں اپنے شوہروں کو تھپڑ رسید کرنا شروع ہوگئیں۔
5: کردار نہیں سیلیبرٹی
میں نے شائد اوپر کہیں ذکر کیا تھا کہ کہانی بعد میں لکھی جاتی ہے کاسٹنگ پہلے ہوجاتی ہے کیونکہ وہ کاسٹ کوئی ہٹ ڈرامے میں تھے۔ اب جو کردار لکھا گیا ہے اس میں مذکور کاسٹ فٹ ہوتی ہے یا نہیں اس سے بحث نہیں ہے وہی بک رہا ہے جو ہٹ ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں ایک طرف کردار نگاری نام کی کوئی چیز اسکرپٹ میں باقی نہیں رہتی تو دوسری طرف نئے اداکاروں کے داخلے کا راستہ رک جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی شکل کئی چینلوں پر نظر آتی ہے۔ اب آپ دیکھیں بیٹھ کر کسی اداکار کو ایک ڈرامے میں طالبعلم اور دوسرے میں والد بنا ہوا۔(محمد ذکریا محی الدین)۔۔