تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، آج سنڈے مبارک کا بورترین دن ہے، آپ سب کی چھٹی ہوگی، جو اسکول، کالجز،جامعات جاتے ہیں وہ اور جو ،جو بھی دفاتر یا نوکری پیشہ وہ سب بھی آج کا دن گھر پر ہی گزارتے ہیں ،ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جو لوگ بھی سنڈے کے دن چھٹی مناتے ہیں وہ ہماری تحریر سے بور نہ ہوں، اس لیے آج صرف تفریح یات ہوں گی۔۔ یعنی وہ روایتی اوٹ پٹانگ باتیں، جس کے لیے آپ ہماری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔۔ تو چلئے آج کی تفریح شروع کرتے ہیں۔۔ کہتے ہیں کہ بندہ اپنی زبان سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ کیا ہے ، کہاں سے تعلق ہے؟ایک چرواہا اپنا ریوڑ لے کر جارہا تھا کہ اچانک ایک شخص نے اسے روکا اور کہا کہ اگر میں یہ بتادوں کہ تمہارے ریوڑ میں کتنی بھیڑیں ہیں تو کیا ایک بھیڑ میں لے سکتا ہوں؟ چرواہا نے اسے اوپر سے نیچے تک بغور دیکھا، پھر ہاتھ میں پکڑی سلگتی ہوئی سگریٹ کا ایک زوردار کش لگاکر بولا۔۔چلو تمہاری بات مان لیتا ہوں۔۔ وہ شخص کہنے لگا۔یہ تین سو چالیس بھیڑیں ہیں،پھر جلدی سے ایک بھیڑ اٹھا کر گردن پر رکھ لی۔۔ چرواہا مسکرایااور کہنے لگا۔۔ اگر میں یہ بتادوں کہ تم کون ہوتو یہ واپس کردوگے؟؟ وہ شخص بولا ، ہاں کردوں گا۔۔چرواہا کہنے لگا۔۔ تم ’’لاہوری‘‘ ہو۔۔ وہ شخص حیران رہ گیا، کہنے لگا۔۔تمہیں کیسے پتہ چلا؟؟ چرواہا بولا۔۔ پہلے کھوتی کا بچہ نیچے رکھو پھر بتاتاہوں۔۔اسی طرح فیصل آبادی ہوتے ہیں جن کی رگ رگ میں ’’جگت‘‘ موجود ہوتی ہے۔۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کوئی بات کریں اور آپ مسکرائے بنا رہ سکیں۔۔ ایک بوڑھا فیصل آبادی نوجوانوں کے درمیان بیٹھ کر اپنے ’’اجداد‘‘ کے قصے سنارہا تھا۔۔ اچانک بولا۔۔ میرے چاچے نے ہوائی فائرنگ کر کے 4 بندے مار دیے تھے، کسی نے اسے ٹوکا کہ ہوائی فائرنگ سے بندے کیسے مرگئے؟ وہ بڑے اطمینان سے بولا ’’چاچا کُبا سی‘‘۔۔اگر آپ کی تاریخ میں دل چسپی ہے تو آپ کو ایک پوائنٹ کی بات بتاتے چلیں۔۔آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں عاشقوں میں سب سے سیانا عاشق’’ مہینوال‘‘ ثابت ہواہے۔۔ جو سوہنی کو ملنے کے لیے دریا کے اس پار بلاتا تھا۔خود نہیں جاتا تھا۔۔۔اس کے علاوہ آپکو رانجھے سے لیکر طلال چودھری تک تمام عاشق’’احمق‘‘ ہی ملیں گے۔۔۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔مرغے کی اذان اور سیاست دان کی تقریر میں کوئی فرق نہیں، مرغا اذان دینے کے بعد نماز نہیں پڑھتا،سیاست دان تقریر کرنے کے بعد اس پر عمل نہیں کرتا۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ۔۔لوگ آئن سٹائن کی اتنی تعریف کرتے ہیں لیکن بریانی ایجاد کرنیوالے عظیم انسان کو کبھی یاد نہیں کرتے،حالانکہ بریانی میں کششِ ثقل سے زیادہ کشش ہوتی ہے۔۔ باباجی نے تمام خواتین کے لیے مفت مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ۔۔ عورت کا کام ہے اپنے بچے کی تربیت کرنا، برائے مہربانی اپنی ساس کے بچے کی تربیت کرتے سے گریز فرمائیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔پاکستانی بیویاں بھی عجیب ہوتی ہیں،دوپہر کو پڑوسن سے شوہر کی برائیاں کرتی ہیں اور شام کو شوہر سے پڑوسن کی۔۔باباجی چونکہ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اس لئے وہ اس طرح کی ’’بے فضول‘‘ باتیں دن رات سوچنے میں مصروف رہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کی باتیں سن کر ہمارا موڈ فریش ہوجاتا ہے۔۔ایک ریٹائرڈ افسر کریانہ کی دکان پر گیا اور کہا۔۔مجھے دال مسور کے 742 دانے دے دو؟ دکاندار لڑکے نے بغیر کچھ کہے 200 گرام مسور کی دال تول دی۔ریٹائرڈ افسر نے حیرت سے پوچھا۔۔کیا واقعی یہ 742 دانے ہیں؟۔۔لڑکے نے کہا، گھر جاکر گنتی کرلیں۔ میرے والد صاحب نے اس کی گنتی 3710 دانے فی کلو گرام کی ہے۔ یہ 200 گرام پورے 742 دانے ہوں گے۔۔۔ریٹائرڈ افسر نے پوچھا، بہت خوب! ویسے تمہارے والد صاحب کیا کرتے ہیں؟۔۔لڑکے نے جواب دیا،آپ کی طرح ریٹائر ہو گئے ہیں بس اسی طرح وقت گزارتے ہیں ۔۔ظاہرسی بات ہے کہ ریٹائرڈ بندے کو ریٹائرڈ بندے کی نفسیات کا علم ہوتا ہے۔۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے وکیل چاہے وکالت چھوڑ اور سچ بولنے لگے پھر بھی لوگ اسے وکیل ہی کہتے ہیں۔۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔اوپن مائنڈڈ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کوئی بھی انسان آکر آپ کے دماغ میں کچھ بھی ٹھونس کر چلا جائے۔۔امریکہ میں مقیم پاکستانی اپنے دوست کے ساتھ اس گھر گئے انہیں یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ امریکی دوست نے سب سے پہلے اپنی بیوی کو گلے لگایا پھر بچوں سے ملا۔ ملاقات سے فارغ ہوکر راستے میں پاکستانی نے سوچا کہ گھر جا کر بیوی بچوں سے اس طرح ملنا کتنی اچھی عادت ہے، اس سے محبت بڑھتی ہے۔ پاکستانیوں کو بھی یہ عادت اپنانی چاہئے۔ چناچہ وہ جیسے ہی گھر پہنچے اور بیوی نے دروازہ کھولا تو انہوں نے فوراً بیوی کو گلے لگا لیا۔بیوی غش کھاتے کھاتے بچی اور منہ پر دوپٹہ رکھ کر روتے ہوئے بولی۔۔خدا کے لئے مجھے بتائیے! ابا جی تو خیریت سے ہیں نا؟۔۔باباجی ایک روز ہمیں قصہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔۔ پڑوسن نے مجھے کپڑے دھوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔۔ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟؟میں نے کہا اس سے زیادہ کپڑے نہیں دھوسکتا۔۔وہ ترچھی نظر سے دیکھ کر چلی گئی۔۔ویسے اس بات میں سوفیصد حقیقت ہے کہ مرد عورتوں کے خلاف ہیں اور عورتیں مردوں کے خلاف۔۔سمجھ نہیں آرہی پھر یہ شادیاں کن کی ہو رہی ہیں؟؟ لندن میں، ایک گاہک نے پوچھا،کیا آپ کے پاس سرسو دا تیل ہے؟۔۔دکاندار نے کہا۔۔کیا آپ ’’سردار‘‘ ہیں؟؟ گاہگ ناراض ہوگیا، کہنے لگا۔۔ ہاں جی ، ہوں،لیکن مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے؟ پھر اس نے سوالات شروع کردیے۔۔اگر میں نے زیتون کا تیل مانگا ہوتا تو کیا آپ مجھ سے پوچھتے کہ میں اطالوی ہوں؟یا اگر میں نے بریٹورسٹ کے لیے پوچھا تھا، تو کیا آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا میں جرمن تھا؟یا اگر میں نے کوشر ہاٹ ڈاگ کے لیے پوچھا تو کیا آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا میں یہودی ہوں؟اگر میں نے حلال گوشت کا مطالبہ کیا ہوتاتو کیا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں؟یا اگر میں نے ٹیکو طلب کیا تھا، تو کیا آپ پوچھیں گے کہ میں میکسیکن ہوں؟۔۔دکاندار نے بڑے تحمل سے سارے سوال سنے پھر بولا۔۔نہیں،شاید میں کچھ نہ پوچھتا۔۔گاہگ کہنے لگا۔۔پھر ٹھیک ہے، کیوں کہ میں نے سرسو دا تیل کے لیے پوچھا تھا، آپ نے کیوں پوچھا کہ اگر میں ہوں سردار؟ ۔۔دکاندار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔ کیوں کہ یہ شراب کی دکان ہے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اپنے اندر برداشت پیدا کریں، پتہ نہیں کون کون آپ کو برداشت کررہا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔