رپورٹ: ابصار احمد۔۔
آج میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر عامر لیاقت حسین ہی موضوع بنے رہے ۔ وہ شخص جس نے مجھے پہلی بار ٹی وہ اسکرین دی، مجھے باضابطہ اسکرپٹ رائٹر سے لیکر ریسرچ منیجر بنایا ۔۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار براہ راست مقابلہ ء مباحثہ کی منصفی کے فرائض سونپے ۔۔ رمضان المبارک کی نشریات اور انعام گھر میں کوئز مرتب کرنے اور کوئزر کے انتخاب کی ذمہ داریاں دیں ۔۔ جنھیں میں ہمیشہ خوش اسلوبی سے ادا کرتا رہا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا تعلیمی کیریئر بھی متاثر نہ ہوا ورنہ دفتر میں کچھ ایسے عناصر بھی پائے جاتے تھے جو میرا وجود ایک آنکھ نہ بھاتے ۔۔ مگر یہ عامر بھائی جنھیں “بَوسِ اعظم” کہتا تھا وہ خفیہ اور کبھی علی الاعلان کہہ جاتے کہ ” ابصار کیا ہے یہ میں جانتا ہوں” بلکہ ایک بار میرے والد کو کہا کہ ” فریدی صاحب ! یہ بیٹا آپ کا ہے مگر اسے پہچانتا میں ہوں !”
عامر بھائی کے اسی خلوص اور سب سے بڑھ کر 2007ء میں ناموسِ رسالتﷺ پر استقامت نے میرے دل میں ان کے لیے ایسی شدید عقیدت پیدا ہوئی جو مجھ سے واقف اور دفتر کے ارکان بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی طرف بہ احترام استاد اور ناموسِ رسالتﷺ کی وجہ سے پیٹھ بھی نہ کرتا تھا ۔ اسی لیے آج میرا فرض تھا کہ ان کے جنازے میں شرکت کروں اور اپنے معنوی استاد کو کاندھا دوں ۔۔ یہ بھی اہم ہے کہ عامر لیاقت حسین کی شخصیت پر سب سے پہلا مضمون راقم الحروف نے ہی روزنامہ جنگ میں تحریر کیا تھا ۔ مگر جب 2017 میں انھوں نے جس طرح ایک برطانوی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے قادیانیت کے خلاف استقامت کو اپنی “نادانی” قرار دیا اس سے ایک عجیب دھچکا لگا ۔۔ بہرحال ان کے اپنے اس وقت بیان کردہ متن پر استقامت ، شاندار خطابت اور جملوں کی عمارت پر کوئی شک نہیں ۔۔ وہ جو تھے جیسے تھے سامنے تھے ۔ بات کہیں سے کہیں ہوجائے گی کیونکہ عامر لیاقت حسین کی شخصیت اور ان کا عروج و زوال خود ایک مقالے کا منتظر ہے ۔ اسی لیے آج میڈیا کے شعبے میں اپنے پہلے باضابطہ استاد جناب الشیخ عامر لیاقت حسین کے جنازے کی روداد لکھنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
آج عامر بھائی کا جنازہ جو نمازِ جمعہ کے بعد ہزاروں افراد کی موجودگی میں ہونا تھا پوسٹ مارٹم کی وجہ سے عصر تک چلا گیا یوں عامر بھائی کا جنازہ جمعہ ہونے کے باوجود جمعة المبارک کے فیض سے محروم ہوگیا۔۔۔!! میں نماز جمعہ کے وقت پہنچ چکا تھا اس وقت وہاں میڈیا کی گاڑیوں اور یوٹیوبرز کے کوئی بھی مستند عالمِ دین نظر نہ آیا ۔ ہاں دفتر کے سابقہ ساتھی جن میں سید علی امام، محمد فرحان صدیقی، کامران وجاہت، مفتی محمد نعیم مدنی اور نوید اقبال وغیرہ موجود تھے انتہائی درد کے عالم میں کھڑے تھے بلکہ کامران بھائی تو گلے لگ کر یوں روئے کہ میرا ضبط بھی ٹوٹ گیا کیونکہ کل خبر کے بعد سے دل اور آنکھوں پر بوجھ تھا جو رَس رَس کر نکلتا رہا ۔
نمازِ عصر کا انتظار کہا تو نماز سے پہلے وسیم بادامی، حافظ عبدالوہاب شیخ، حمود منور، مفتی محمد نعیم مدنی، جنید اقبال، فیصل عزیز خان، ڈاکٹر عامر طاسین ، ظفر عباس ، دانش ترابی، ضیاء نقشبندی وغیرہ بھی آگئے تو ان مسجد کے صحن میں سیلفی لینے والوں کا ٹولا آگیا ۔۔ یوٹیوبرز دن سے ہی وڈیوز بنا رہے تھے ۔۔
عصر کی نماز کے بعد ابھی دعا مکمل ہی ہوئی تھی کہ مسجد کے صحن میں نمازِ جنازہ شروع ہوگئی ۔۔ کیونکہ سیاسی اور میڈیائی شخصیات نمازِ عصر کی بجائے پہلی صف میں آن کیمرا آنے کے لیے پہلے ہی صف بندی کرچکی تھیں ۔ پیچھے چھیپا کے اہلکار کی پوری نفری تھی جس میں راقم کے علاوہ وسیم بادامی اور فیصل قریشی کو زنجیر بنا کر اگلی صف میں پہنچا دیا گیا ۔۔ اداکاروں اور اینکر پرسنز رمضان چھیپا اور سیاست دانوں کے ساتھ آگے ہی کھڑے تھے ۔ احمد بن عامر لیاقت نے اپنے والد کی نمازِ جنازہ ادا کروا کر ایک بہترین مثال قائم کی مگر افسوس کہ ایک معروف اداکار نے نماز جنازہ کی نیت اس طرح باندھی کی ان کا رخ بجائے قبلے کے میت پر تھا ۔۔۔ !! جبکہ جنازے سے قبل ایک مذہبی تنظیم کا عہدے دار شور شرابا کرکے اپنی اہمیت جتانا چاہتا رہا ۔۔ یہی نہیں بلکہ ” ایک عالم نما شخص جسے عامر لیاقت “عالم” بھی کہتے تھے وہ منہ میں گٹکا دبائے نمازِ جنازہ بھی ادا کررہا تھا شاید اس کو اس بات کا علم نہیں ہوگا کہ کسی بھی نماز سے قبل وضو فرض ہوتا ہے ۔!! پہلی ہی صف میں عمران اسماعیل اور فاروق ستار بھی موجود تھے ۔ نمازِ جنازہ کے بعد دعا بھی انتہائی مختصر ہوئی ۔ یہاں شور شرابا اور ہٹو بچو کی آواز لگانے والوں نے جس طرح ہم جیسے عامر بھائی کے مخلصین کو ان سے دور کیا آج جنازے میں بھی وہ عوام اور عامر بھائی کے خالص مقربین کو دور کرتے رہے ۔۔ !!
جنازہ قبرستان لے جاتے ہوئے ایک نیا منظر نظر آتا ہے جس کی مثال شاید ہمارے یہاں نہیں ملتی اور یہ بات شریعتِ مطہرہ کے بھی برعکس ہے کہ جنازے کو بجائے کاندھا دینے کے میت کو چھیپا کے اسٹریچر پہ لے جایا جانے لگا جس میں سب سے آگے ای اداکار ہی تھے ۔۔ اور جو کوئی بھی کاندھا دینے کی طرح آگے آتا اسے وہ دھتکار کر بھگا دیتے ۔۔ !! بلکہ مجھے اور عامر لیاقت کی ٹیم کے کئی سینیئر ارکان کو جب اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو ہم میت کے اس مختصر جلوس کو چھوڑ کے آگے بڑھ گئے ۔۔ تقریباً 300 کے قریب افراد نے جنازہ ادا کی جس میں سات صفیں ہی بن سکی تھیں جبکہ جنازے کے جلوس میں افراد سے زیادہ چھیپا کے اہلکار ہی اہلکار نظر آتے تھے جنھوں نے میت کے قریب آکے عامر بھائی کو ان کی آخری آرام گاہ تک لے جانے والوں کو بھی دور کردیا اور وہی لوگ جو شروع سے ہی اسٹریچر کھینچ رہے تھے قبرستان کے احاطے تک ہی لائے ۔۔ یہاں رفاہی ادارے چھیپا کا کردار بھی نظر آیا جن کی بے شمار ایبمولینسوں کا قافلہ عامر بھائی کے گھر سے ماجد تک آیا تھا ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ رفاہی کام نہیں بلکہ برانڈ مارکٹنگ ہے کیونکہ اسٹریچر پر میت پر پڑی چادر بھی اسی ادارے کی تھی جب کہ ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ میت پر رکھی اکثر چادریں شش کلمات اور ائمہ اہلِ بیتؓ کے ناموں سے ہی مزین ہوتی ہیں ۔ یہاں کوئی ایسا عالم نہیں تھا جو آگے بڑھ کر کاندھا دینے کا کہتا ۔۔ ؟ چہ بولعجبی است۔۔
میڈیا کے نمائندے اپنے اپنے چینلوں سے وابستہ افراد کو فوکس کرتے رہے اور یوں لگتا رہا کہ جیسے مرحوم انھی کی میراث تھے ۔ شنید ہے کہ جنازے سے عامر لیاقت کے بیٹے احمد عامر کا موبائل بھی چوری ہوچکا تھا ۔۔
اب دوسرا مرحلہ میت کو اس کی آخری آرام گاہ تک لانے کا تھا جہاں عبداللہ شاہ غازیؒ کے احاطے میں پہلے ہی رش تھا بلکہ چھیپا کے اہلکاروں اور کچھ ہٹو بچو والے حضرات نے وہاں بھی بھگڈر مچادی بلکہ علی امام اور عبدالوہاب جیسے افراد کا بھی آسرا نہیں کیا اسی لیے ہم اس شور شرابے سے ایک طرف ہو کر مجمع سے دور ہوگئے۔ احاطے میں شدید گرمی کے باعث ایک خاتون بے ہوش ہوگئیں ۔۔ حال یہ تھا کہ قبر کے احاطے میں نعت خوانی کی محفل سج گئی تھی ۔ یہاں چند مخصوص علماء تو موجود تھے لیکن قدآور علمائے کرام کو نظریں تلاش ہی کرتی رہیں ۔۔ میڈیا کے وہ اینکر پرسنز جو جنازے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے نہیں معلوم کہ انھوں نے مٹی دی یا نہیں کیونکہ احاطے میں کیمرا مین موجود نہیں تھے ۔۔ !! عامر لیاقت کے قریبی ساتھی ایک طرف کھڑے رش تھمنے کا انتظار کرتے رہے تاکہ وہ بھی دعا کرسکیں ۔ راقم الحروف کو بھی مغرب کی اذان سے قبل اس وقت اندر جانے کا موقع ملا جب لاہور سے آئی ہوئی مداحِ عامر ڈاکٹر نتاشہ نے کہا کہ ” ابصار بھائی مجھے قبر تک لے جائیں” انھیں لیکر اندر گیا تو رش تھم چکا تھا اور مجمع نہ تھا ۔ وہاں بھی دعا کرنے والے کم اور سائیڈ میں رہ کر آتے جاےے افراد کو حلقہ بنائے دیکھنے والے زیادہ تھے ۔ بس میں، ڈاکٹر نتاشہ اور عامر بھائی کے پرانے ساتھی سکندر خان ہی دعا میں مصروف رہے ۔ ابھی سورة الملک شروع ہی کی تھی کہ پیچھے سے کسی “ہٹو بچو ” والے کی آواز آئی “دعا کرنے والے فوراً نکلیں” اسی لیے عافیت اسی میں جانتے ہوئے کہ اپنے پہلے استاد کے لیے بعد میں بلکہ روز کچھ نہ کچھ پڑھ لوں گا نوجوان اسکالر حافظ حبیب کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔
یہ بات میں قاضی واجد مرحوم کے جنازے میں بھی دیکھ چکا ہوں کہ سیلیبرٹیز صرف اسی وقت تک اپنی عقیدت کا اظہار کرتی ہیں جب تک ان کے سامنے کیمرا ہو ۔۔آج یہی حال یہاں بھی دیکھنے میں آیا ۔ اب اس درد کے ساتھ یہ تحریر لکھ رہا ہوں کہ عامر لیاقت حسین جیسی قدآور شخصیت جو کل تنہائی کے عالم میں رخصت ہوئی آج کندھوں کے بغیر یعنی تنہائی میں ہی اپنی آخری آرام گاہ کو پہنچی ۔۔ جس کی وجہ وہی افراد ہیں جنھوں نے ایک گھیرا بنا کر مرحوم کو ان کے مخلصوں سے بھی دور کردیا تھا ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ نمازِ جنازہ میں بھی برانڈنگ اور ذاتی نمود جو اب ہمارا کلچر بنتی جا رہی ہے یہ بھی قابلِ تشویش لمحہ ہے ۔ یہاں مجھے مرحوم عامر لیاقت حسین وہ جملہ بھی اپنے معیارِ حق کے لیے کہا یاد آرہا ہے جو انھوں نے امام احمد بن حنبلؒ سے مستعار لیا تھا ۔ اللہ تعالیٰﷻ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے اور جنت الفروس میں جگہ دے ۔ آمین انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔(ابصار احمد)۔۔