تحریر: حامد میر۔۔
شادی کی تقریبات میں طعام تک پہنچنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک لمبی قطار کے ذریعہ طعام تک پہنچنے کی کوشش کریں تو آگے پیچھے کے لوگ سیاسی سوالات کی بھرمار کردیتے ہیں۔ اس بھرمار سے نمٹتے ہوئے آپ اپنی پلیٹ میں کچھ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں تو دیگر پلیٹ بردار سیلفیوں کے ذریعہ اس طعام کو یادگار بنانے پر اتر آتے ہیں لہٰذا عرصہ ہوا ہم شادی کی تقریبات میں صرف مبارکباد دیکر واپس چلے آتے ہیں کیونکہ کچھ کھانے کیلئےرک جائیں تو سیلفی مافیا آپ کے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ کو ہر زاویے سے دنیا کے ہر کونے تک پہنچا دیتا ہے۔ کل رات بھی شادی کی ایک تقریب میں جانا ہوا، جیسے ہی میزبان نے سینکڑوں کے مجمعے کو کھانے کی دعوت دی تو سب مہمان طعام پر حملہ آور ہوگئے اور ہم نے خاموشی سے رخصت ہو جانے میں عافیت سمجھی۔ جیسے ہی شادی ہال سے باہر نکلے تو سامنے تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ آتے دکھائی دیئے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے بڑی گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور کہا کہ آپ جلدی واپس جا رہے ہیں اور میں ذرا دیر سے آ رہا ہوں، دراصل ایک شام میں تین تین شادیاں بھگتانا خاصا مشکل ہے لیکن اچھا ہوا کہ آپ سے ملاقات ہوگئی۔ وہ مجھے بازو سے پکڑ کر ایک کونے میں لے گئے اور کہنے لگے صرف ایک منٹ لگے گا۔ بہت ضروری بات کرنی ہے۔ میں نے بھی ایک منٹ کیلئے اپنے آپ کو انکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا لیکن انہوں نے اچانک اپنے چہرے سے مسکراہٹ کو غائب کردیا اور بڑے سنجیدہ لہجے میں آپ سے تم پر اتر آئے۔ چند لمحوں میں ہی انہوں نے ایک خاندانی بزرگ کا عہدہ سنبھال کر ڈانٹنے کے انداز میں کہا کہ میاں صاحبزادے! تربت میں چھ مزدوروں کو قتل کردیا گیا انکا قصور صرف یہ تھا کہ سب کا تعلق پنجاب سے تھا، قاتلوں نے انہیں انکے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر گولیاں ما ریں لیکن مجھے یقین ہے کہ تم اس واقعے پر نہ تو کچھ بولو گے اور نہ کچھ لکھو گے کیونکہ تمہیں تو آج کل فلسطین کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ میں نے جواب میں کہا کہ تربت کا واقعہ افسوسناک ہے۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے میری بات مکمل ہونے کا انتظار نہیں کیا اور کہا کہ پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے اور تم نے فلسطین فلسطین لگا رکھی ہے، ارے بھائی کچھ خدا کا خوف کرو وہاں تو یہودی فوج مسلمانوں پر بمباری کر رہی ہے لیکن یہاں تو مسلمان ہی مسلمان پر گولیاں برسا رہے ہیں، امید ہے کہ تربت کے واقعے کی مذمت میں کچھ نہ کچھ ضرور کہو گے۔ بات مکمل کرکے ریٹارئرڈ بیوروکریٹ صاحب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور خدا حافظ کہہ کر شادی ہال کی طرف مڑ گئے لیکن میں نے انکا ہاتھ پکڑ کر انہیں روک لیا۔ بڑے مودبانہ انداز میں عرض کیا کہ آپ نے تو اپنی سُنالی، کچھ ہماری بھی سنتے جائیں اور یہ تو بتائیں کہ آج کل پاکستان کا وزیر اعظم بلوچستان سے ہے، چیئرمین سینٹ اور چیف جسٹس بھی بلوچستان سے ہے تو پھر یہ بلوچستان میں حالات اتنے خراب کیوں ہیں؟ ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ سب نہیں پتہ کہ بلوچستان کے حالات کیوں خراب ہیں لیکن وہاں چھ پنجابی مزدوروں کو قتل کردیا گیا ہے اور تمہیں فلسطین کی پڑی ہے۔ جاتے جاتے کہنے لگے کہ فلسطین کا اتنا خیال ہے تو خود چلے جائو وہاں اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔ ریٹائرڈ بابو کی اصلیت سامنے آ چکی تھی۔
ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور مجھے احساس نہ تھا کہ کچھ نوجوان قریب ہی کھڑے ہماری گفتگو سن رہے تھے۔ ان نوجوانوں نے اس بزرگ کو روک لیا اور مجھے کہا کہ مداخلت کی معذرت لیکن آپ ان کو بتائیں ناں کہ آپ تو خود غزہ جا چکے ہیں اور اگر مصر کی حکومت اجازت دیدے تو نا صرف آپ وہاں دوبارہ جائینگے بلکہ ہم بھی پیچھے نہ رہیں گے۔ بزرگ نے ان نوجوانوں کی بے باکی سے مرعوب ہو کر کہا کہ بیٹا میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ تربت میں چھ پنجابی مزدوروں کو قتل کردیا گیا ہمارے میڈیا کو اس واقعے کو بھی اتنی ہی اہمیت دینی چاہئے جتنی آج کل فلسطین کو دی جا رہی ہے۔ یہ سنکر ایک نوجوان تو باقاعدہ تڑپ اٹھا۔ اس نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تربت میں قتل ہونیوالے مزدوروں کا تعلق شجاع آباد سے تھا اور وہ سرائیکی تھے لیکن انہیں گولیاں مارنے والوں کی آنکھوں پر نفرت کی پٹی بندھی ہوئی تھی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ شجاع آباد والے محنت مزدوری کیلئے لاہور کیوں نہیں گئے یہ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر تربت کیوں آگئے؟ان مزدوروں کے قاتلوں اور غزہ میں بمباری کرنیوالوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں نسلی تعصب اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن آپ یہ بتائیں کہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر سینکڑوں لاپتہ پاکستانیوں کے اہل خانہ کئی سال سے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہیں یہ سب لاپتہ افراد بلوچ کیوں ہیں اور اگر یہ سارے دہشت گرد ہیں تو انہیں عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟ ان لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی آواز میڈیا پر اتنی کم کیوں سنائی دیتی ہے؟ ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے ان گستاخ نوجوانوں کا گھیرا توڑا اور موقع سے فرار ہوگئے۔ ان چار نوجوانوں نے مجھے کہا کہ ہم تو سیلفی کھینچوانے کیلئے کھانا چھوڑ کر آپ کے پیچھے آئے تھے لیکن آپ کو سفید بالوں والے اس انکل نے روک لیا تو ہم آپ کی گفتگو ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ انتظار کچھ لمبا ہوا تو قریب آئے اور اندازہ لگایا کہ انکل بڑی غلط باتیں کر رہے ہیں لہٰذا ہم نے مداخلت اسلئے کی کہ تاکہ انکل کو بتا سکیں کہ ہم ہر قسم کے ظلم کیخلاف ہیں، ظلم بلوچستان میں ہو یا فلسطین میں ہو ظلم تو ظلم ہوتا ہے۔ میں نے ان نوجوانوں کو گلے لگا لیا اور انہیں بتایا کہ ظلم صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے کونے کونے میں ہو رہا ہے۔ اس ظلم کیخلاف آواز بلند کرنا اسلئے ضروری ہے کہ صرف انصاف ہمیں متحد کرسکتا ہے۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو خدانخواستہ ہمارے ساتھ وہی ہوسکتا ہے جو فلسطینیوں کیساتھ ہو رہا ہے۔ ان چاروں نوجوانوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔ کوئی ایک بھی بلوچ، سندھی، پختون یا سرائیکی نہ تھا لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ یہ پڑھے لکھے نوجوان بلوچستان کے دکھ کوبھی اپنا دکھ سمجھ رہے تھے اور تربت میں قتل ہونے والے چھ مزدوروں پر ہونیوالے ظلم کو بھی اپنے خلاف ظلم قرار دے رہے تھے۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹ صاحب ہماری حکمران اشرافیہ کے نمائندے تھے اور یہ اشرافیہ کنفیوژ ہے۔ چار نوجوان پاکستان کے عام لوگوں کے نمائندے تھے جو بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہیں لیکن انکی سوچ اشرافیہ کی سوچ سے بالکل مختلف ہے۔ اشرافیہ آج بھی اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن نوجوان اس پالیسی پر چلنے کیلئے تیار نہیں۔ ان نوجوانوں کو اپنے بہتر مستقبل کیلئے اس مفاد پرست اشرافیہ کے خلاف اتحاد قائم کرنا ہوگا اور ووٹ کے ذریعہ اشرافیہ کے ضمیر فروش نمائندوں کوشکست دینا ہوگی۔(بشکریہ جنگ)۔۔