دوستو،ایک شخص نے مچھلی فروشی شروع کی تو سوچا، دکان پر ایک خوبصورت بورڈ لگا دیا جائے جس پر لکھا ہو۔۔ یہاں میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔۔بورڈ بن کر آگیا تو کچھ دوستوں کو مدد کے لئے بلوایا کہ ساتھ مل کر بھاری بھر کم بورڈ لگوایا جاسکے۔۔ایک دوست نے بورڈ پڑھا تو پوچھا ۔۔تمہارے کاروبار کی کوئی اور شاخ بھی ہے؟؟ مچھلی فروش نے کہا ، جی نہیں۔۔ دوست نے مشورہ دیا۔۔ تو پھر”یہاں“ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہو گیا۔۔۔ میٹھے پانی کی تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔دوسرے دوست نے پوچھا۔۔۔کیا اس علاقے میں میٹھے پانی کے علاوہ کھارا پانی بھی موجود ہے؟؟۔۔ مچھلی فروش نے پھر سے انکار میں گردن ہلادی۔۔ دوست بولا۔۔توپھر ”میٹھے پانی“ کا لفظ اضافی ہے۔۔ اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔۔تازہ مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔ایک اور دوست نے پوچھا۔۔مچھلی باسی بھی بیچو گے؟؟ ۔۔مچھلی فروش کہنے لگا، ہرگز نہیں۔۔دوست بولا۔۔تو پھر یہاں ”تازہ“ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہو گیا۔۔مچھلی فروخت ہوتی ہے۔۔۔ایک اور دوست نے پوچھا۔۔۔۔ مچھلی ادھار بھی دی جاتی ہے؟؟۔۔مچھلی فروش کہنے لگا۔۔جی نہیں۔۔دوست بولا۔۔ توپھر ”فروخت“ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔مچھلی ہوتی ہے۔۔ ایک دانا دوست بولے۔۔۔مچھلی کے علاوہ بھی کچھ بیچو گے؟۔۔مچھلی فروش بولا۔۔جی بالکل بھی نہیں۔۔دوست کہنے لگا۔۔تو پھر”مچھلی “ کا لفظ اضافی ہے۔۔اب بورڈ اس طرح ہوگیا۔۔”ہوتی ہے“۔۔واقعہ کی دُم:خاں صاحب کی تبدیلی کا بورڈ بھی ان کے ان گنت مشیروں، وزیروں کے حکیمانہ مشوروں کے باعث اب صرف ”ہوتی ہے“ پر مشتمل ہے۔۔
چڑھدے پنچاب (بھارتی پنجاب) میں ایک سکھ کی میت پر اس کی بیوی اپنے چھوٹے بیٹے کےساتھ کھڑی بین کر رہی تھی۔وے توں اوتھے ٹر گیاں ایں جتھے دیوا ناں بتی۔۔وے توں اوتھے ٹر گیا ایں جتھے منجھی ناں پیڑھی۔۔وے توں اوتھے ٹر گیا ایں جتھے آٹا ناں روٹی۔۔عورت کا بیٹا بولا۔۔ ماں، ابا کہیں پاکستان تو نہیں چلا گیا۔۔؟؟ڈاکٹر نے جب مریض سے پوچھا کہ ۔۔کل سے تمہیں کوئی تکلیف تو نہ ہوئی؟مریض نے جواب دیا، بس ڈاکٹر صاحب، سانس بہت تیزی سے چل رہی ہے۔ڈاکٹر نے روانی میں جواب دیا، مطمئن رہو میں اسے بھی روک دوںگا۔۔۔ایک مریض نے ڈاکٹر سے شکایت کی کہ ہر شخص سے مجھے پریشانی ہوتی ہے، ڈاکٹر نے دوا تجویز کر دی۔دوبارہ دوا لینے آیا تو ڈاکٹر نے پوچھا۔کیوں بھئی تم نے اپنے ذہنی رویئے میں کوئی تبدیلی محسوس کی۔مریض نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔مجھ میں تو کوئی تبدیلی نہیں۔ ہاں البتہ اوروں کا رویہ میرے ساتھ کچھ بدل گیا ہے۔۔ایک اور مریض نے ڈاکٹرسے چیک اپ کے دوران سوال کیا کہ ۔۔ جب میرا داہنا ہاتھ ٹھیک ہو جائے تو ڈھولک بجا سکوں گا۔؟؟ڈاکٹر نے تسلی دیتے ہوئے کہا، ہاں کیوں نہیں، تم ضرور بجا سکو گے۔مریض نے بڑی سادگی سے کہا۔۔کیسی مزے دار بات ہے حادثے سے پہلے مجھے ڈھولک بجانی نہیں آتی تھی۔ڈاکٹرپرایک اور واقعہ یاد آیا،ہمارے ایک ڈاکٹر دوست نے اپنے ایک بھلکڑ ڈاکٹر دوست کا سچا واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔۔ بھلکڑ ڈاکٹر نے آپریشن کے بعد مریض سے اس کی طبیعت کا پوچھا،مریض نے جواب دیا کہ ۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سینے میں ایک کے بجائے دو دل دھڑک رہے ہوں۔۔بھلکڑڈاکٹر نے جلدی سے اپنا دایاں ہاتھ دیکھا اور کہا۔۔ اوہو۔ میں سوچ رہا تھا آخر میں اپنی گھڑی کہاں رکھ کر بھول گیا ہوں۔۔
ایک داماد اپنے سسرال گیا ،ساس نے پوچھا بینگن شریف پکا لوں یا بھنڈی مبارک یا پالک پاک کھانا پسند کریں گے؟۔۔داماد بولا، میں گنہگار بندہ ہوں بغیر وضو ان مقدس سبزیوں کے نام بھی لینے کے قابل کہاں، کوئی بے غیرت آوارہ سا مرغا ہی پکا لیں۔۔ اسی طرح ایک اور داما د کا واقعہ بھی سن لیں۔۔جب داماد اپنے سسرال گیا تو پہلے دن اس کی ساس نے اس کو پالک کھلائی،دوسرے دن اس کو میتھی کھلائی،جب کہ تیسرے دن اس کو ساگ کھلایا۔اگلے دن جب اس کی ساس کھانا پکانے لگی تو اس نے اپنے داماد سے پوچھا کہ بیٹا آج کھانے میں کیا پکاو
±ں؟آدمی نے جواب دیا کہ مجھے کھیت میں چھوڑ آو
± میں خود ہی چَر آو
±ں گا۔۔۔ایک اور داماد نے جب بیوی کی خامیاں ساس کے سامنے گنوانا شروع کیں ۔۔ کھانا پکانا آتا ہے نہ ڈھنگ سے کپڑے پہننا، زندگی عذاب بنادی ہے۔۔گھر میں کوئی مہمان آجائے تو ایسے پھوہڑپن کا مظاہرہ کرتی ہے کہ شرمندہ ہوجاتاہوں۔۔ساس نے تسلی سے ساری خامیاں سننے کے بعد بہت معصومیت سے جواب دیا۔۔تم ٹھیک کہتے ہو بیٹا،یہ کمینی اتنی عقل مند ہوتی توکوئی اچھا سا رشتہ نہ مل جاتا اسے۔۔۔
بعض پاکستانیوں کے لئے کپتان کا نجات دہندہ کا تصور کچھ اس قدر بھیانک نکلا کہ یہ سب کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمارا وزیراعظم ایک ایسا الیکٹریشن ہے جو بلایا گیا تھا زیرو کا بلب ٹھیک کرنے لیکن اس نے پورے گھر کی وائرنگ جلا ڈالی۔سوشل میڈیا پر ایک دل جلے صارف نے پاکستان کے سیاسی مشاہیر کی چند تصاویراور ان کے خطابات لکھنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو نئے خطاب سے نواز ڈالا۔۔صارف نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بانی ملت، سابق وزیراعظم لیاقت علی خان کو قائد ملت، محترمہ فاطمہ جناح کو مادرِملت تسلیم کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو قائد قلت قرار دیا اور تفصیلاً بتایا کہ عمران خان کے دور حکومت میں بجلی کی قلت، پانی کی قلت، گیس کی قلت، آٹے کی قلت، چینی کی قلت، پیٹرول کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔کہتے ہیں، شادی کیا ہوتی ہے، یہ سمجھنے کیلئے ایک سائنسدان نے شادی کر لی، اس کے بعد عمر بھر اسے یہ سمجھ نہ آئی کہ سائنس کیا ہوتی ہے، یہی کچھ اس قوم کے نوجوانوں کے ساتھ ہوا، جو تبدیلی کے چکر میں پڑ گئے۔لیکن اب تک تبدیلی سے محروم ہی ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مہنگائی اس قدر ہوگئی ہے کہ عوام اس بار سردی کی شاعری ہی بھول گئے ۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔