دوستو، کالم کے عنوان سے آپ کو لگا ہوگا کہ یہ تحریک انصاف سے متعلق ہوگا کیوں کہ برسراقتدار آنے سے پہلے پی ٹی آئی کا نعرہ مستانہ۔۔ تبدیلی آئی رے ۔۔ رہا، اب بھی موقع بے موقع تبدیلی،تبدیلی کا راگ الاپا جاتا ہے لیکن عوام سب جانتے اور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ۔۔کیسی تبدیلی آئی ہے؟؟ جہاں گھبرانے تک کی اجازت نہیں ہے۔ہمارے کالم کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ یہ مکمل غیرسیاسی ہوتا ہے، اس لئے تمام یوتھیئے خوشیاں منائیں ، یہ کالم ان پر نہیں ہے، بلکہ ہم عالمی اور ملکی تبدیلیوں کا ہلکاپھلکا جائزہ لیں گے۔۔
کورونا نے دنیا بھر میں لوگوں کے معمولات زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اسی کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں کچھ ایسے لفظ بھی عام بول چال کا حصہ بن گئے ہیں، جن کے مفہوم اور معنی جاننے کے لئے لوگ لغت کا استعمال کرتے تھے۔’’قرنطینہ یا کورنٹائن‘‘ ان دنوں میڈیا کی کافی زینت بن رہا ہے، یہ اصل میں اطالوی لفظ ہے، جس کا پہلی بار استعمال 14ویں صدی میں کیا گیا۔ اس کے لفظی معنی چالیس کے ہیں۔ اورماضی میں آنے والی وباؤں میں مریضوں کو تیس سے چالیس دن دوسروں سے الگ رکھا جاتا ہے اور یہی طریقہ کار کورونا کے دوران بھی روا رکھا گیا۔ اسی وجہ سے آپ سب لوگ اس سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرچکے ہیں۔۔’’پینڈیمک یا عالمی وبا‘‘ کورونا سے پہلے ماسوائے شعبہ صحت سے وابستہ لوگوں کے بہت ہی کم افراد اس لفظ سے واقف تھے۔ کورونا سے پہلے عالمی ادارہ صحت نے دوہزار نو میں سوائن فلو کو عالم گیر وبا قرار دیا تھا، لیکن یہ وبا پاکستان میں اتنی زیادہ نہیں پھیلی چنانچہ میڈیا میں اس لفظ کو شناسائی نہ مل سکی۔’’سماجی دوری (Social distancing)‘‘ کورونا سے پہلے سماجی دوری اور اس لفظ کا استعمال بھی بہت معیوب سمجھا جاتاتھا۔ ہم میں سے بیشتر لوگ اس لفظ’سماجی دوری‘ سے خال خال ہی واقف تھے، لیکن کورنا کی مہربانی سے سماجی قربت اب سماجی دوری میں تبدیل ہوچکی ہے۔ پہلے کسی سے فاصلہ رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا اور اب کسی کے قریب جانا معیوب سمجھا جا رہا ہے۔
کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کو اس موذی وائرس کے کئی طویل مدتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مریضوں کے پھیپھڑے، گردے یا دیگر اعضاء طویل عرصے تک متاثر رہتے ہیں حتیٰ کہ بعض مردوں میں جنسی کمزوری اور دل کے عارضے بھی اس وباء کے نتیجے کے طور پر پائے گئے ہیں۔ اب نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے اس کے کچھ نئے طویل مدتی نقصانات بتا دیئے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ذہنی پریشانی، ڈپریشن اور ذہنی صحت کے دیگر کئی مسائل بھی کورونا وائرس کے طویل مدتی نقصانات کی فہرست میں شامل ہیں۔سائنسدانوں نے اپنی اس تحقیق میں کورونا وائرس کے صحت مند ہونے والے 2لاکھ مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جس میں معلوم ہوا کہ ان مریضوں میں 33فیصد کو صحت مند ہونے کے 6ماہ بعد بھی ذہنی تنائو، ڈپریشن اور دیگر ذہنی مسائل کا سامنا تھا۔ جن مریضوں میں علامات زیادہ سنگین ہوئی اور وہ انتہائی نگہداشت وارڈ تک پہنچے، ان میں یہ شرح 46فیصد پائی گئی۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر پال ہیریسن کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے 34فیصد مریض کسی نہ کسی ذہنی و نفسیاتی عارضے کا شکار ہوتے ہیں۔ہماری تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ان مریضوں کو ڈیمنشا لاحق ہونے اور سٹروک آنے کا خطرہ بھی دوسروں کی نسبت 50فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
کورونا نے جہاں ایک طرف تو پوری دنیا کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا تو دوسری جانب دنیا میں ہر 17 گھنٹے میں ایک نئے ارب پتی کا اضافہ ہوا۔ فاربس میں شائع ہونے والی سال 2021 کی فہرست میں 493 نئے ارب پتی افراد کا اضافہ ہوا۔ ان میں سے 210 کا تعلق چین، ہانگ کانگ اور 98 کا تعلق امریکا سے ہے۔ 2020 کی فہرست میں جگہ بنانے والے 61 افراد اس فہرست سے خارج ہوگئے، جن میں کاردیشیئن خاندان کی رکن اور میک اپ بنانے والی کمپنی کی مالک کائلی جینز کا نام بھی شامل ہے۔فہرست کے مطابق کورونا جیسی وبا کے باوجود دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت 13 کھرب 10 ارب ڈالر پر پہنچ گئی اور گزشتہ سال کی نسبت اس میں 8 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔فہرست میں امیزون کے مالک جیف بیزوس 177 ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ اس سال ان کی دولت میں امیزون کے حصص کی قیمت بڑھنے سے 64 ارب ڈالر کا ضافہ ہوا۔دوسرے نمبر پر ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک ایلن مسک ہیں۔ ان کی دولت میں ایک سال کے عرصے میں 126ارب60کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ایک سال پہلے یہ 24 ارب 6 کروڑ ڈالر کے ساتھ 31ویں نمبر پر تھے۔ ان کی دولت بڑھنے کی اہم وجہ ٹیسلا کے حصص کی قیمتوں میں ہونے والا 705 فیصد اضافہ ہے۔ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس 124ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ پانچویں نمبر پر فیس بک کے بانی مارک زیکر برگ ہیں۔ فیس بک کے حصص کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافے کے بعد ان کی دولت 42ارب 30 کروڑ سے بڑھ کر 97 ارب ڈالرہوگئی ہے۔
باہرکے ممالک میں جو ارب پتی ہوتا ہے فخر سے اظہار بھی کرتا ہے اور حکومت کو پورا پورا ٹیکس بھی دیتا ہے، اس کی ساری دولت قانونی ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں الٹا ہی حساب ہے۔۔ یہاں ارب پتیوں سے زیادہ ’’ککھ پتیوں‘‘ کے چرچے ہوتے ہیں۔۔ ملک کی معیشت کا حال آپ سب لوگ ہم سے زیادہ اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔۔ کپتان کو بھی احساس ہوگیا کہ معیشت کی سمت درست نہیں ہے، مہنگائی کا حکومت کو بھی احساس ہے۔۔ پرانے وزیرخزانہ حفیظ شیخ ڈیلیور نہ کرسکے تو ان کی جگہ حماد اظہر کو لایا گیا ہے تاکہ مہنگائی کم کی جاسکے۔۔ اسی پر ایک واقعہ یاد آگیا۔۔شدید سردی کے موسم میں شادی پہ آئے ہوئے ایک بزرگ جب رات کو چارپائی پہ لیٹے تو دس منٹ بعد میزبان نے کہا۔۔ باباجی! ادھر پلنگ پہ آجائیں۔۔بزرگ نے پلنگ پہ 15 منٹ گزارے تو میزبان آیا اور کہنے لگا۔۔ کچھ مہمان آگئے ہیں، آپ دوسرے کمرے میں چارپائی پہ آجائیں وہ سارے یہاں لیٹ جائیں گے۔۔بزرگ دوسرے کمرے میں بستر میں جاکے لیٹ گئے،کچھ دیر بعد پھر میزبان آیااور بولا۔۔ باباجی! اوپر والے پورشن میں کمرہ ہے وہاں آجائیں یہاں چند عورتوں نے سونا ہے۔۔اب باباجی کا غصہ عروج پر تھا،دانت پیس کر کہنے لگے۔۔ اوئے ! تسی مینوں بسترے گرم کرن لئی بلایا اے(تم نے مجھے بسترے گرم کرنے کے لیے بلایا ہے)۔۔واقعہ کی دُم: حفیظ شیخ کی جگہ حماد اظہر ۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش رہے اور خوش حال صرف وہی ہے جو اپنے حال میں خوش رہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔