تحریر: شہباز اکمل جندران۔۔
فلم اور سینما ماضی میں تفریح کا بڑا ’’ذریعہ‘‘ تھے۔ رفتہ رفتہ یہ ’’ذریعہ‘‘ سائنسی ایجادات کے ساتھ معدوم ہوتا چلا گیا۔ وہ وقت بھی آیا جب فلمیں بننا بند ہو گئیں، سینما گھر اجڑ گئے۔ اس ساری صورت حال اور زبوں حالی میں ’’جدید سائنسی ترقی‘‘ کا عمل دخل تو تھا ہی، خود فلم میکرز نے بھی خود کو ڈبونے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ باکس آفس کے لیے ایسی فلمیں نہ بنا سکے جو شاہکار ہوتیں، پسند کی جاتیں۔ فلم بینوں کے مزاج پر پورا اترتیں اور گولڈن جوبلی سے بھی ہمکنار ہوتیں۔
ملک کو اس وقت بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ اس صورت حال کے اثرات جہاں دیگر شعبوں پر پڑے ہیں وہاں فلم اور سینما کی صنعت بھی متاثر اور مکمل طور پر تباہ ہوئی ہے۔ نئی فلمیں نہیں بن رہیں۔ فلمیں نہ بننے سے سینما انڈسٹری بھی برسوں سے تباہ حال ہے۔ سینمائوں کی جگہ بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز اور پلازوں نے لے لی ہے۔ کئی سینمائوں میں تو ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کھل گئے ہیں۔ جہاں کبھی شاہکار فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوتی تھیں وہاں اب لوگ کھانا کھانے اور وقت گزارنے کے لیے آتے ہیں۔
ہم آج پاکستانی سینما انڈسٹری کی تاریخ بتائیں گے اور اس تاریخ کے کئی اوراق پلٹیں گے۔ یہ وہ انڈسٹری ہے جس سے ہر سال کروڑوں کا ریونیو قومی خزانے میں جاتا تھا۔ یہی نہیں، اس انڈسٹری سے ہزاروں لوگوں کا روزگار بھی وابستہ تھا۔ بے روزگار ہونے والے یہ لوگ اب انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں یا پھر فاقوں سے مر گئے ہیں۔
سینما کبھی پاکستانی عوام کی تفریح کا بڑا مرکز تھے۔پاکستان کی 75سالہ فلمی تاریخ کے اس عظیم سلسلے میںاتنا بڑا تعطل آیا ہے کہ نہیں لگتا پاکستانی سینما کی پھر سے بحالی ہو سکے گی۔جس وقت پاکستانی فلموں کا انتہائی عروج کا دور تھا۔ یعنی 70اور 80ء کی دہائی میں ملک بھر میں قریباً 966کے لگ بھگ سینما گھر تھے۔ ماضی کے ایک معتبر فلم میگزین کے مطابق292شہروں اور تحصیلوں میں کل 995سینما گھر تھے۔ جن میں سے 60فیصد صرف صوبہ پنجاب میں تھے۔ جن کی تعداد 620تھی۔ ان میں سے ہر چھٹا سینما صوبائی دارلحکومت لاہور میں تھا۔ سینمائوں کی بڑی مارکیٹ میکلوڈ روڈ لاہور تھی۔ 126سینما کراچی میں، لاہور میں 104، ملتان میں 34، فیصل آباد 33، راولپنڈی، اسلام آباد 33، گوجرانوالہ 25، حیدرآباد 23، سیالکوٹ میں 18، پشاور 17، گجرات 14، سرگودھا 12، اوکاڑہ میں11، ساہیوال میں 10جبکہ کوئٹہ میں 7سینما گھروں کا ذکر ملتا ہے۔
مختلف شہروں میں سینمائوں کی تعداد کا تعلق آبادی سے نہیں تھا۔ بلکہ زیادہ سینما اُن شہروں میں ہوتے تھے جہاں فلم بینی کا ذوق رکھنے والے زیادہ تعداد میں ہوتے تھے۔ گجرات کی نسبت کوئٹہ کی آبادی دوگنا ہے لیکن گجرات میں سینمائوں کی تعداد کوئٹہ سے زیادہ تھی۔ پنجاب کے صنعتی شہروں کے محنت کش اور مزدور طبقہ کے لیے فلم تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔ جس کی ٹکٹ ماضی میں ایک سے ڈیڑھ روپے میں مل جاتی ، مزدور اور محنت کش اتنے پیسوں میں فلم جیسی سستی تفریح سے بہت لطف اندوز ہوتے۔ شہروں کے برعکس دور دراز کے پسماندہ، قدامت پرست اور کم آبادی والے علاقوں میں فلمی بینی کا رجحان قدرے کم تھا۔
پاکستان کے 995سینما گھروں میں سے 486سینما گھر اپنے ناموں کی وجہ سے مشہور تھے اور اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔ ایسے سینما بھی تھے جن میں محل کا لفظ آتا تھا جیسے تاج محل اور شیش محل۔ ناز کے نام سے بھی اکثر سینما موجود تھے۔ جو پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود تھے۔ شمع، نشاط، سنگیت ، کیپری، شبنم اور فردوس جیسے نام کے سینما بھی ہر شہر میں اپنا وجود رکھتے تھے۔ کینٹ کے علاقوں میں جو سینما تھے اُن کے نام گیریژن، اور پی اے ایف ہوتے تھے۔ نیوی کے نام سے بھی قریباً نصف درجن کے قریب سینما گھر تھے۔
دنیا کا پہلا سینما 1891ء میں امریکہ کی ایڈیسن کمپنی نے قائم کیا۔ متحرک فلم دکھانے کے لیے بائسکوپ کے نام سے ایک آلہ ایجاد کیا گیا جس کے ذریعے ایک وقت میں صرف ایک شخص فلم دیکھ سکتا تھا۔ 1895ء میں لومیئر برادرز نے فرانس میں اپنی بنائی ہوئی ایک مشین سے ایک سے زیادہ افراد کو بڑی سکرین پر ایک مختصر متحرک فلم دکھائی تاہم فیچر فلموں کے لیے دنیا کا پہلا باقاعدہ سینما گھر 1905ء میں امریکہ کے شہر ہنسبرگ میں Nicketadeonکے نام سے وجود میں آیا جبکہ برصغیر میں پہلا سینما گھر 1895ء میں بمبئی کے ایک ہوٹل میں قائم کیا گیا۔ جس میں چند متحرک مختصر فلمیں دکھائی گئیں۔ پاکستان میں پہلا سینما گھر ’’پاکستان ٹاکیز‘‘ کے نام سے 1908ء میں قائم ہوا۔ یہ سینما لاہور کے ایک مشہور اور مالدار وکیل شیخ عزیز الدین نے اندرون ٹیکسالی گیٹ کے شاہی محلہ میں اپنے نام پر بنایا تاہم یہ سینما مسلسل ایک صدی تک چلنے کے بعد 2014ء میں مسمار کر دیا گیا۔
1930ء کی دہائی سے قبل سینمائوں میں سب ٹائٹلز کے ساتھ خاموش فلمیں چلتی تھیں۔ ان فلموں کو دکھانے کے لیے جو سینما گھر استعمال ہوتے تھے وہ عام طور پر تھیٹر کہلاتے تھے۔ فلم کو زبان ملی تو ان تھیٹرز میں سائونڈ سسٹم نصب کر دیا گیا۔ تھیٹرز کو مزید ترقی ملی تو یہ تھیٹرز ’’ٹاکیز‘‘ کہلانے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دور میں تھیٹر کو ’’نوٹنکی‘‘ اور سینما کو ’’منڈوا‘‘ کہا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں عام طور پر ’’تھیٹر‘‘ کو سٹیج ڈرامہ سے نتھی کیا جاتا ہے جبکہ سینما کو فلم سے جبکہ امریکن انگلش میں ’’مووی تھیٹر‘‘ اور برٹش انگلش میں ’’سینما‘‘ کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے۔
سینما انڈسٹری ہر دور میں نئی ایجادات کے ساتھ تبدیل ہوئی۔ بہت سے نئے سینما گھر وجود میں آئے۔ جو وقت کا ساتھ نہ دے سکے اور بند ہو گئے۔ 35ایم ایم کی فلم سے جب 70ایم ایم کی سینما سکوپ فلم بننا شروع ہوئی تو کئی سینما گھروں میں وائیڈ سکرین کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ایئرکنڈیشنڈ بھی ہرسینما میں نہیں ہوتا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں تھری ڈی فلموں کا مختصر سا دور بھی آیا۔
1999ء کے بعد ڈیجیٹل سینما متعارف ہوا۔ جس میں سلور سکرین کی جگہ ملٹی پل ڈیجیٹل سکرینوں نے لے لی۔ پرانے فلم پروجیکٹرز کی جگہ کمپیوٹرمیموری کے ذریعے فلم کو پوری دنیا میں بیک وقت دکھایا جانے لگا۔ کافی سینما گھر موجودہ حالات اور زبوں حالی کا شکار ہو کر اب قصّہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اور اپنی بربادی کی المناک داستان بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں سینما کا کلچر دیکھیں تو یہ ایک مسلم معاشرے کی روایات و اقدار سے متصادم تھا۔ لیکن اس تضاد کے باوجود موجودہ صدی کے آغاز تک پاکستان کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں سینمائوں کی بھرمار تھی۔ جن پر فلم بینوں کا جم غفیر ہوتا۔کبھی سینما، عوام الناس کی سب سے بڑی تفریح تھا۔ لوگوں کی اکثریت فلم دیکھنے کے لیے سینما ہائوسز کا رُخ کرتی۔ عام طور پر اُس وقت فلم بینی کے رجحان کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود نئی فلموں کی نمائش پر سینمائوں میں فلم بینوں کا بہت زیادہ رش دیکھنے میں آتا اور فلمیں کئی کئی ماہ تک سینمائوں کی زینت بنی رہتیں۔ بہت بزنس کرتیں۔
2010ء تک ہر ہفتے نئی اردو اور پنجابی فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوتی رہیں۔ پھر سینما انڈسٹری تاریکیوں میں ڈوب گئی اور زوال پذیر ہو گئی۔ نئی فلمیں بننا کیا بند ہوئیں کہ سینما گھر بھی اجڑ گئے اور ویران ہو گئے۔ اس کاروبار سے منسلک لوگ دوسرے کاروبار کرنے لگے۔ فلم سٹوڈیوز کی رونقیں ماند پڑیں تو سینمائوں کی رونقیں بھی ماند پڑ گئیں۔ اس سے وابستہ افراد فاقوں پر اتر آئے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے لگے۔ اُن کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔
یہ کہتے ہوئے آج بہت دکھ ہوتا ہے کہ جس فلم انڈسٹری نے اپنا سکہ جمایا، کروڑوں دلوں پر راج کیا۔ آج وہ انڈسٹری ویران ہے اور بربادیوں کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اسے سہارا دینے والا کوئی نہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی بحالی کے لیے اپنا فرض ادا کرے ، دیکھے کہ سینما انڈسٹری کی تباہی کے کیا اسباب ہیں؟ فلمیں بنیں گی تو سینما بھی آباد ہوں گے۔ چند برسوں ہی کی بات ہے جب ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ مارکیٹ میں آئی۔ یہ بالکل نیا تجربہ تھا جو بے حد کامیاب رہا۔ فلم نے کروڑوں کا بزنس کیا، ثابت کیا اچھی فلم ہو تو باکس آفس پر چل سکتی ہے۔ کروڑوں کا بزنس بھی کر سکتی ہے۔ نئی حکومت کو فلم اور سینما انڈسٹری کی احیاء اور بقاء کے لیے ضرور کچھ کرنا ہو گا تاکہ یہ انڈسٹری پھر اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔