تحریر: شکیل بازغ۔۔
ڈی انفارمرز نامی ایک ویب چینل کے چند نوجوانوں نے اینکرز کے حوالے سے ایک طنز و مزاح پر مبنی ویڈیو بنائی جس میں اینکرز کے کام کے دوران عمومی رویئے دکھائے گئے، ویڈیو سے سب محظوظ بھی ہوئے، لیکن موضوعِ بحث اس کلپ کا آخری سین بنا جس میں ڈمی خاتون اینکر کو سینئر کی جانب سے غلطی پر سخت رویئے کے بجائے نہایت سے کچھ زیادہ نرم رویئے سے باز پرس کرتے دکھایا گیا، اس ایک سین پر مرد و حضرات اینکرز نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، خصوصاـ خواتین اینکرز نے اسے نہایت نا مناسب اور غیر حقیقی من گھڑت تک کہہ ڈالا۔
میری رائے میں تمام خواتین اینکرز کا ایک سا رویہ اور تمام ہی خواتین اینکرز سینئرز کو ادائیں دکھا کر ناجائز مطالبات منواتی ہوں، یہ غیر مناسب اور حقائق سے منافی بات ہے۔ شکر اور شکر خور سرے سے موجود نہیں ایسا بھی نہیں، میں بطور میڈیا ورکر اور اینکرز ٹرینر گواہ ہوں کہ کون کون کس کس ادارے میں بیٹھا کس طرح کس کس کو کیسے کیسے میرٹ کے برعکس نواز رہا ہے، کس پر افسران کا بے جا عتاب کی حقیقت کیا ہے، اور بے پناہ نوازشات کے پیچھے کہانی کیا ہے، یہ کہانی صرف میڈیا کی نہیں، ہر ادارے میں عورت کا استحصال یا عورت کی وجہ سے دیگر کا استحصال ایک حقیقت ہے۔ لیکن میں بیسیوں ایسی اینکرز کو جانتا ہوں جنہوں نے محنت کا لمبا دریا عبور کیا، سختیاں برداشت کیں، نامناسب سزائیں، بے وجہ عتاب حتٰی کہ ادارے تک چھوڑ کر وقتی طور گھر بیٹھ گئیں لیکن انہوں نے اپنی حمیت غیرت عزت نفس پر سودے بازی نہیں کی، انہوں نے اپنی ساکھ اپنی حیا کو سکرین سے بڑا اثاثہ جانا، کس کس نے کتنا کرب برداشت کیا اور کون کون کیا کچھ کرتا رہا میرے پاس کئی کہانیاں ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں، لیکن اللہ پردہ رکھنے والا ہے، بندہ بھی پردہ رکھے۔ اپنی سٹوری سے شہرت پانے سے زیادہ اہم کسی ایسی خاتون کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا ہے جس نے ساری سکرین پانے کی بے پناہ خواہش کو اس لئے قربان کیا کہ اسے معاشرے میں نہ خود مذاق بننا تھا نہ کسی کی وجہ سے موضوع بحث بننا تھا۔
مجھے دُکھ ہوتا ہے، ان خواتین پر جو ترقی کی منازل محنت کے بجائے ادائیں دکھا کر کم تر وقت میں طے کر لینا چاہتی ہیں، یہی ہیں وہ جو شوگر کے مریض کو بھی شکر خورا بنا کر دیگر کا رستہ روکتی ہیں، ایسے کردار ہر ادارے میں ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں، انہیں دیکھ دیکھ قابل لوگ جلتے کڑھتے رہتے ہیں، لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر لوگ ہی ہوتے ہیں، یہ کردار اکثر افسران کے آفس کمرے، انکی گاڑی انکے ساتھ ریسٹورنٹ انکے گھر یا اپنے گھر میں ان سے گھنٹوں محو گفتگو پائے جاتے ہیں۔ یہ ٹینشن سے بھری جاب میں افسران کیلئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بن جاتے ہیں، انکی وجہ سے افسران کی کائنات میں رنگ بکھرے ہوتے ہیں، یہ نہ ہوں تو افسران ٹیبل پہ رکھا مارننگ فلاور کانٹوں سمیت کھا جائیں، لیکن جہاں افسران بد دیانت نہیں، جنکی تربیت انہیں اختیارات کے دائرے میں رکھتی ہے، ایسے نیک سیرت لوگ لوگوں کیلئے استحصال و اذیت کا باعث نہیں بنتے بلکہ آسانیاں بانٹتے ہیں، اور انکی موجودگی میں ورکرز تندہی سے کام کرتے ہیں، کیونکہ کام کے صلے میں میرٹ کو ترجیح ملنے کا یقین ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر طرح کے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، کسی ایک کی بدکرداری کو سب سے منسوب کرنا کسی بھی صورت مناسب نہیں۔ محنت کریں اور اجر و صلہ اللہ سے مانگیں، لوگ تو استعمال کر گزرتے ہیں، اور اپنی شان بیچ کر کچھ پایا تو کیا پایا۔دنیا کی کوئی نوکری اپنی حمیت غیرت شانِ آدمیت عزت نفس سے بڑھ کر نہیں۔۔(شکیل بازغ)۔۔