تحریر: عبدالغفار۔۔
آج سے دبئی کے اسٹیڈیم میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا آغاز ہو چکا ہے باقی ملکوں کی طرح پاکستان نے بھی اپنی ٹیم کا اعلان کردیا ہے اور پاکستان کی ٹیم اتوارکوانڈیا سے اپنا پہلا میچ کھیل رہی ہے۔۔گزشتہ پبیس 25 سال میں ہم نے یہ نوٹ کیا ہے کہ پاکستانی پلیرز کو ہمارا میڈیا کچھ اور ہی مخلوق بنا کر پیش کرتا ہے۔۔آج کل بہت سارے چینلز دن رات ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا منجن بیچ رہے ہیں۔۔ٹاکرا اور طرح طرح کے پروگراموں کے نام رکھ کر انڈین اور دوسرے چینلز کے ساتھ مقابلہ بازی شروع ہو گی۔۔
ہربجن سنگھ اور شعیب اختر جیسے نون سینس کرکٹر آکر اپنا منجن بیچ رہے ہیں انڈین میڈیا اتنا چالاک ہے کہ وہ جان بوجھ کر ہمارے اس پلیر کو ٹارگٹ کرتا ہے اور اس پر ایکسٹرا پریشرڈالتا ہےجس کا کچھ نہ کچھ میں چلنے کا چانس ہوتا ہے اور ماشاءاللہ ہمارے چینل پر بیٹھے مداری ان کا خوب ساتھ دیتے ہیں۔۔
ہمارے شعبدہ باز پلیرز اور نوٹنکی میڈیا انڈین میڈیا اور انڈین پلیر سے اس قدر متاثر ہیں کہ چینل پر منجن بیچتے وقت آدھے الفاظ ہندی کے استعمال کرتے ہیں اور اس میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔۔
شعیب اختر سلمان بٹ اور کامران اکمل جیسے نون سینس پلیر ہمیں بتائیں گے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کون جیتے گا؟؟
ابھی کچھ دن سے ہی دیکھ لیجئے ہمارے پلیئرز کے انٹرویوز شروع ہو چکے ہیں ماشاء اللہ ہمارا ہر انڈویژول پلیر یہ فرض سمجھتا ہے کہ وہ میڈیا پر آکر اپنے خیالات کا اظہار کرے اور یہی میڈیا ان پلیئرز کے اوپر اتنا پریشرڈال دیتا ہے کہ وہ گراؤنڈ کے اندر پرفارمنس دی ہی نہیں پاتے یہی حال ہم نے اپنے نیزہ بازی میں پانچویں نمبر پر آنے والے ایتھلیٹ کے ساتھ کیا جس کو کوئی جانتا ہی نہیں تھا اس کے گھر کیمرے لے کر گھس گئے اس کے باپ کے انٹرویو سٹارٹ ہو گے اس کی ماں انٹرویو دے رہی ہے اس کو دن رات اتنا پریشرائز کر دیا گیا کہ بچے اگر تو نہ جیتا تو پتہ نہیں کون سی قیامت آ جائے گی تم ہیرو ہو تم نے دنیا فتح کرنی ہے اور وہ بے چارہ اس قدر ڈپریشن کا شکار ہوا ۔۔اس کے اوپر اتنا پریشر آیا کہ وہ اس دن کسی اور کا نیزا اٹھا کر کسی اور طرف بھاگ نکلا۔۔جس وقت تک وہ میڈیا پر نہیں آیا تھا اس کو ہیرو بنا کر پیش نہیں کیا تھا وہ بے چارہ جیتا رہا جونہی اس کو ویڈیو دکھائیں گی اس کو ہیرو بنایا گیا وہ بیچارا دل ہی نہیں سکا۔۔
اس تحریر لکھنے کا مقصد صرف ہمارے بورڈ کے چئیرمین کو یہ التجا کرنا ہے کہ کپتان اور چیئرمین بورڈ کے علاوہ کسی پلیئر کو چاہے وہ رضوان وہ چاہے وہ حفیظ ہو چاہے وہ شاداب خان ہو چاہے کوئی بھی ہو ان کو میڈیا سے پہلے ہی ہیرو بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے اس طرح ان کے اوپر ایکسٹرا پریشر آتا ہے اور گراؤنڈ میں جا کے پچ پہ جا کے ان کے پاؤں ہاتھ پھولنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔
پاکستانی ہونے کے ناطے میری یہ دعا ہے اور خواہش ہے کہ پاکستان آج انڈیا کو ہر آ دے لیکن جو زمینی حقائق ہیں وہ بہت مختلف ہیں انڈیا کا ہر پلیر ایتھلیٹ ہے مکمل فٹ ہے اور انڈیا کے جو گیارہ پلیئر کھیلیں گے ان کو پچھلے دو سال سے پتا ہے کہ ہم نے ورلڈ کپ کھیلنا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہمیں ایک دن پہلے تک نہیں پتا تھا کہ ہماری ورلڈ کپ میں کون سی ٹیم کھیلے گی اب گراؤنڈریالٹیزبیشک مختلف اور مکمل طور پر انڈیا کی فیور میں ہیں لیکن دعائیں اور معجزہ شاید ہمیں جیتوا دے لیکن اس کے باوجود ہمیں ہر طرح کے نتائج کیلئے تیار رہنا چاہیے۔۔(عبدالغفار)۔۔