shartiya meetha | Imran Junior

سسٹم کا نظام

علی عمران جونیئر

دوستو،آپ کو آج کا عنوان دیکھ کر ہماری جہالت پر غصہ آرہا ہوگا کہ سسٹم اور نظام ایک ہی چیز کے انگریزی اور اردو کے نام ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ لیکن جب آپ اس پورے کالم کو ہضم کرلیں گے تو یہ بات بھی ہضم ہوجائے گی کہ ۔۔سسٹم اور نظام میں کیا فرق ہے؟ چلیں، اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں، سب سے پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام کیسا ہے۔

ہمارے ملک کا نظام کچھ اس طرح سے ہے کہ ۔۔ روایت ہے کہ ایک جنگل میں شیر چیف ایگزیکٹو تھا۔ ادھر ایک ننھی سی چیونٹی محنت مزدوری کیا کرتی تھی۔ صبح سویرے وہ ہنستی گاتی، کام پر آتی اور فوراً کام پر لگ جاتی اور ڈھیر وںکام نمٹا دیتی۔ شیر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چیونٹی کسی قسم کی نگرانی اور رہنمائی کے بغیر اتنا زیادہ کام کر رہی ہے اور پیداوار کے ڈھیر لگائے کھڑی ہے حالانکہ اسے بہت واجبی سی تنخواہ ملتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر چیونٹی کسی قسم کی نگرانی کے بغیر اتنا کام کر رہی ہے تو اس کے سر پر ایک سپروائزر مقرر کر دیا جائے تو پھر وہ کتنا زیادہ کام کرے گی۔یہ سوچ کر شیر نے ایک کاکروچ کی بطور سپروائزر تعیناتی کر دی جو اپنے وسیع تجربے اور بہترین رپورٹنگ کی وجہ سے مشہور تھا۔ کاکروچ نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے تو حاضری کا سسٹم بنایا۔ اس نے ایک مکڑی کو بطور سیکریٹری بھی تعینات کر دیا تاکہ وہ دفتری امور میں اس کی مددگار ہو اور اس کی رپورٹس ٹائپ کرنے کے علاوہ ان کی موزوں طریقے سے فائلنگ کرے اور ٹیلی فون بھی سنبھالے۔شیر نے کاکروچ کی رپورٹیں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔ اس نے کاکروچ کو کہا کہ میاں یہ سب پڑھنا میرا بہت وقت لیتا ہے، ایسا کرو کہ گراف کی شکل میں ایگزیکٹو سمری بھی بنایا کرو جس میں پیداوار کی شرح اور ٹرینڈ بھی دکھائی دیں اور اسے ایک پریزنٹیشن کی شکل میں بھی ای میل کیا کرو۔ میں یہ پریزنٹیشن جنگل کے بورڈ کی میٹنگ میں بھی پیش کروں گا تاکہ ڈائریکٹروں کو بھی علم ہو کہ جنگل بہت ترقی کر رہا ہے۔ کاکروچ کو یہ سب کچھ کرنے کے لئے ایک کمپیوٹر اور لیزر پرنٹر خریدنا پڑا اور اس نے ایک مکھی کو بطور آئی ٹی ایکسپرٹ نوکری دے دی جو انہیں سنبھالے اور پریزینٹشن بنائے۔دوسری طرف چیونٹی حاضریاں لگا لگا کر، کاکروچ کو رپورٹیں دے دے کر اور مکھی کو پریزنٹیشن کے لئے مواد فراہم کر کر کے بیزار ہونے لگی۔ اس کا زیادہ وقت اب کام کی بجائے میٹنگوں میں صرف ہوتا۔ اس کا دن کا چین اور رات کا آرام لٹ گیا اور وہ اپنے کام سے تنگ آنے لگی۔دوسری طرف شیر کو جب پریزنٹیشن دیکھ دیکھ کر علم ہوا کہ چیونٹی کے ڈیپارٹمنٹ کی پیداوار بہت متاثر کن ہے تو اس نے سوچا کہ ڈیپارٹمنٹ کو بڑھایا جائے تاکہ جنگل مزید ترقی کرے۔ اس نے ایک جھینگر کو اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا جو مینیجمنٹ کے سامنے بہت اچھی پریزنٹیشن دینے اور اچھا بولنے کے لئے مشہور تھا۔ جھینگر نے آتے ہی سب سے پہلے اپنے دفتر کے لئے ایک نئے قالین اور آرام دہ کرسی کا آرڈر دیا تاکہ اس کے دفتر کی ایگزیکٹو لک بنے۔جھینگر کو بھی ایک کمپیوٹر اور پرسنل اسسٹنٹ کی ضرورت تھی جو اس کے لئے کام کو ترتیب دے سکے اور اس کے لئے بجٹ کنٹرول کرنے اور پیداوار کو ترقی دینے کی کی حکمت عملی بنانے میں معاون ہو۔ اس نے اپنے پرانے آفس سے ایک لیڈی بگ کا تبادلہ اپنے اس دفتر میں کروا لیا۔۔چیونٹی کا ڈپارٹمنٹ اب ایک افسردہ جگہ تھی جہاں کوئی نہیں ہنستا مسکراتا تھا اور معمولی بات پر دوسرے سے جھگڑنے لگتا تھا۔ یہ ماحول دیکھ کر جھینگر نے شیر کو قائل کر لیا کہ ڈپارٹمنٹ کا حال بہتر کرنے کے لئے کسی ماہر سے اسٹڈی کروائی جائے۔ چیونٹی کے ڈپارٹمنٹ کے اخراجات اور آمدنی کا گوشوارہ دیکھ کر شیر نے یہ محسوس کیا کہ ڈپارٹمنٹ پیداوار دن بدن گرتی جا رہی ہے اور اخراجات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی ڈپارٹمنٹ خسارے میں جا رہا ہے۔شیر نے ایک الو کو ڈپارٹمنٹ کی سٹڈی پر مامور کیا جو بزنس ری انجینرنگ کا ایک ماہر مشہور کنسلٹنٹ تھا تاکہ وہ ڈپارٹمنٹ کا آڈٹ کرے، پیداوار کے پہلے سے بہت کم ہونے کی وجوہات کا پتہ چلائے اور صورت حال بہتر کرنے کے لئے مشورے دے۔الو نے ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے انٹرویو کیے، کاکروچ کی رپورٹوں کے ڈھیر کا لفظ لفظ پڑھا، پیداوار کا عمل دیکھا اور تین مہینے میں دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ شیر کو پیش کر دی جس میں کارکنوں کے رویے، کام میں دلچسپی، پیداواری عمل اور عملے کی تنخواہوں کا جائزہ لیا اور والیم ٹین میں یہ نتیجہ نکالا کہ ڈپارٹمنٹ اس لئے خسارے میں جا رہا ہے کیونکہ ادھر ضرورت سے بہت زیادہ عملے کو نوکری دی گئی ہے۔شیر نے ایک ہفتہ لگا کر رپورٹ پڑھی۔ اس کے بعد اس نے چیونٹی کو نوکری سے نکال دیا کیونکہ الو کی رپورٹ کے مطابق وہ اپنے کام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی اور وہ فیلڈ میں کام کرنے کی بجائے دن بھر ڈپارٹمنٹ کے دوسرے اہلکاروں کے دفتروں میں بیٹھی رہتی تھی۔ اس کا رویہ بھی بہت زیادہ منفی اور سرد تھا جو دفتر کے ماحول کو بلاوجہ تلخ کر رہا تھا اور کاکروچ کی بہترین رپورٹنگ اور جھینگر کی بہترین موٹیویشنل اسپیچز کے باوجود پہلے سے کم پروڈکشن کر رہی تھی۔!!

یہ تو تھا نظام۔۔ اب دیکھیں ہمارے ملک میں سسٹم کس طرح کام کرتا ہے۔۔کاکا اور وریام پڑوسی تھے،ایک دن بکریوں کو پہلے پانی پلانے پر جھگڑا ہو گیا۔۔وریام نے کاکے کی خوب گھونسہ افزائی کی،جواباً کاکے نے منجی کا پاوا وریام کے سر پر دے مارا۔۔وریام کا سر پھٹ گیا اور لوگ اسے ہسپتال لے گئے۔۔کاکا یہ کھڑاک کر کے بہت پریشان تھا ۔۔ ایک بہی خواہ نے مشورہ دیا کہ اگر ایف آئی آر پہلے درج کرا دو تو تمہاری پوزیشن مظبوط ہو جائے گی۔۔اس نے فورا اپنی اکلوتی بھینس 30 ہزار کے گھاٹے پر بیچی اور تھانے پہنچ گیا۔۔ تھانیدار نے کاکے کی آؤ بھگت کی اور ایف آئی آر کا مینو اس کے آگے رکھ دیا جس میں دس ہزار سے دو لاکھ والے پرچے موجود تھے۔۔ کاکے نے تیس ہزار والی ایف آئی آر کا آرڈر کیا، جس پر تھانیدار نے لطف کام ودہن کے لیے اسے سرجن سے میڈیکل رپورٹ لانے کا مشورہ دیا۔۔ کاکا سرجن کے پاس گیا تو اس نے 8 ہزار سے لیکر 80 ہزار تک کی سستی رپورٹوں کا مینو اس کے سامنے رکھا۔۔ کاکے نے اپنی جیب ٹٹولتے ہوئے 14 ہزار والی اایک سستی ترین رپورٹ منتخب کی جس کے مطابق کاکے کو پیٹ کے اندرونی حصے پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔۔سرجن نے اسے رپورٹ پر لیب رزلٹ کا سلاد چھڑکنے کا مشورہ دیا تاکہ رپورٹ میں جان پڑجائے۔کاکا لیباریٹری گیا تو اسے 5ہزار سے 55 ہزار تک کے لیب رزلٹس کا مینو دکھایا گیا۔کاکے نے 7 ہزار والی رپورٹ پسند کی جس کے مطابق اس کے میٹابولزم اور یورین آرٹریز پر سوجن کے آثار تھے!!!وہ میڈیکل رپورٹ ہمراہ لیب رزلٹ لیئے تھانے پہنچا تو اس کے سامنے چھاپے کا مینو رکھا گیا۔جس میں ملزم کو فون کر کے تھانے بلانے سے لیکر دو پولیس وین ہمراہ 15 پولیس اہلکاروں کے ملزم کو ڈولی ڈنڈا کر کے لانے کا مینو شامل تھا۔قیمت تھی 2 ہزار سے لیکر 45 ہزار تک۔ تھانیدار نے تفریح طبع کے لیے اسے ایک امیرانہ ڈش بھی دکھائی۔جس میں 4 پولیس وین ہمراہ میڈیا کا کرائم سیل چھاپا مارتے ہیں۔ملزم سے شراب کی بھٹی برآمد ہوتی ہے،اور کسی سستے چینل پر اسٹوری بھی چلتی ہے۔ڈیڑھ لاکھ روپے کی ڈش!!!!کاکے نے دوبارہ جیب ٹٹولی اور 8 ہزار والا مینو پسند کیا جس میں دو پولیس والے ملزم کو موٹر سائیکل پر سینڈوچ بنا کر لاتے ہیں، اور گرفتاری کے وقت دو چار گھسن بھی مارتے ہیں،قیمت فی گھسن دوسو پچاس روپے۔چنانچہ سر پھٹول وریام کو ہسپتال سے گرفتار کر کے حوالات منتقل کیا گیا۔ تھانیدار نے دونوں پارٹیوں کو ان جنگلی بیلوں کی کہانی سنائی جو آپس میں لڑتے لڑتے آخر ایک دن شیر کی خوراک بن گئے تھے اور دونوں پارٹیوں کو صلح صفائی سے رہنے کی تلقین کی۔دونوں نے تھانیدار کی بات سے اتفاق کیا اور کارِ سرکار کا قیمتی وقت برباد کرنے کی مد میں دس ہزار روپے ہرجانہ ادا کیا۔ یوں وکیل اور جج کے مہنگے مینو کے خرچ سے بچنے پر دونوں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ”اوورتھنکنگ” یعنی حد سے زیادہ سوچنا ، ڈر کی ایک قسم ہے، یہ عمل اس وقت مزید خطرناک بن جاتا ہے جب آپ اس میں پرانی یادیں، مستقبل کی پیش گوئیاں اور خدشات شامل کرلیتے ہیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں