تحریر: سید بدرسعید
اگر آپ نے حال ہی میں صحافت میں قدم رکھا ہے تو یاد رکھیں صحافت اپوزیشن کے ساتھ چلتی ہے ، حکومتی اراکین کے پاس میڈیا کے لئے گنا چنا وقت ہی ہوتا ہے یا پھر ان کی دلچسپی چند سینئر صحافیوں تک محدود ہو جاتی ہے ، ان کا پروٹوکول اور انہیں لاحق خطرات بھی آپ کے اور ان کے درمیان رکاوٹ بنتے ہیں ۔ اس وقت آپ کے لئے بہت زیادہ سپیس ہارے ہوئے یا اپوزیشن میں بیٹھنے والے سیاست دانوں میں ہوتی ہے ۔ ان کے پاس وقت ہی وقت ہوتا ہے ۔ یہ پروٹوکول کے چکر سے بھی نکل چکے ہوتے ہیں ، انہیں میڈیا کی توجہ بھی درکار ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے پاس بتانے کے لئے بہت سی کہانیاں بھی ہوتی ہیں ۔ آپ کو یہی کہانیاں درکار ہیں ۔ یہ کہانیاں اگلے کئی برس تک آپ کے کام آتی ہیں ۔ کئی باتیں ایسی ہوں گی جو آپ کو سیاست کی اندرونی صورت حال سمجھنے میں مدد دیں گی ۔ یہ سب جیتے ہوئے لوگوں سے نہیں مل پائے گا ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ جیتنے والوں پر فوکس نہ کریں لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ صحافیوں کے کام کی چیزیں اپوزیشن کے پاس ہوتی ہیں ۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سیاست ہے ۔ یہاں آج کے ہارے کل کے فاتح ہوتے ہیں اور آج کے فاتح کو کل ہارنا بھی ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر آپ تین ہفتوں بعد زعیم قادری سے رابطہ کریں ، اب ان کے پاس آپ کے لئے وقت بھی بہت ہو گا ، وہ دل کے پھپھولے بھی پھوڑیں گے ، گپ شپ بھی لگائیں گے ، تجزیہ بھی دیں گے ، چائے پر چائے بھی منگوائیں گے اور عین ممکن ہے مزید چار پانچ ملاقاتوں کے بعد وہ آپ کو کچھ دستاویزی ثبوت بھی فراہم کر دیں اور مزید دو ماہ بعد صورت حال ایسی کروٹ بیٹھے کہ آپ وہی دستاویزات بریکنگ نیوز کے طور پر چلا رہے ہوں ۔۔۔(سید بدرسعید)۔۔