خصوصی رپورٹ۔۔
سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے ، آئی جی اسلام آباد اور سپریم کورٹ کے تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور چیئرمین پیمرا کو طلب کرلیا ۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری کارروائی کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ مداخلت کرے گی ، آئین میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے، آزادی صحافت کا ذکر تو بھارتی اور امریکی آئین میں بھی نہیں، تنخواہوں اور نوکری سے نکالے جانے کے معاملے پر عدالت صحافیوں کیساتھ کھڑی رہی عدالت نے خود کو مطمئن کرنا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی ہے. میڈیا قوم کا ضمیر اور آواز ہے۔۔ جسٹس منیب اختر نے کہا آئین پاکستان میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے. آزادی صحافت کا ذکر تو بھارتی اور امریکی آئین میں بھی نہیں. کوئی قانون آرٹیکل 19 کے متضاد ہوا تو کالعدم قرار دیدیں گے جبکہ کمرہ عدالت خالی بھی ہوا تو سماعت کریں گے۔۔جسٹس قاضی امین نے کہا بطور جج ہم سیاست نہیں کر سکتے صحافیوں کا کام بھی صحافت کرنا ہے سیاست کرنا نہیں. صحافت اور آزادی اظہار رائے تہذیب کے دائرے میں ہونا چاہیے. ججز تاریخ کے ہاتھوں میں ہیں چند افراد کے نہیں۔پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے علاوہ دیگر درخواست گزار عبدالقیوم صدیقی، اسد طور اور عامر میر نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں۔ عدالت نے کہااگر آپ عدالتی کاروائی کا حصہ بننا نہیں چاہتے تو یہ آپکی صوابدید ہے، عدالت آرٹیکل 184/3 کے تحت مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھائے گی۔اس معاملے پر جنرل سیکرٹری پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ راجہ محسن اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’معاملہ جینوئن صحافیوں کا ہے اس لیے ان کے بنیادی مسائل کے حل کا موقع اگر سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کو ملا ہے تو وہ ضرور اس درخواست کی پیروی کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود بھی تفصیلات جمع کریں گے لیکن ’اس کے علاوہ کسی صحافی سے کہیں ناروا سلوک ہوا ہے تو وہ اپنا واقعہ ہمیں بتائے، اس کا نام ہم سامنے نہیں لائیں گے لیکن سپریم کورٹ کے فورم سے اس کا مسئلہ حل کروائیں گے۔درخواست گزار صحافیوں کی جانب سے کیس واپس لینے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ ان کا ذاتی فعل ہے لیکن ہم اب اس درخواست کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔سماعت میں 20 منٹ کی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد، چئیرمین پیمرا اور اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔دوسری جانب سپریم کورٹ نے تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی طلب کرلیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری کارروائی کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔سپریم کورٹ میں زیر سماعت صحافیوں کے حقوق سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں صحافیوں کے مابین دو آرا ء پائی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صدر پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ امجد نذیر بھٹی نے کیس میں باضابطہ فریق بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔جبکہ سابق صدر پریس ایسوسی ایشن عبدالقیوم صدیقی،اسد طور اور لاہور سے عامر میر نے مقدمے میں فریق بننے سے معذرت کر لی ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے پہلے صحافی بھاگتے بھاگتے عدالت میں آئے اور اب اُن میں سے چند صحافی اپنی مقدمہ واپس لینا چاہتے ہیں،چاہے عدالت میں کوئی بھی موجود نہ ہو ہم پھر بھی یہ مقدمہ چلائیں گے،متعلقہ حکام سے بھی پوچھیں گے۔