تحریر: میاں ٖغفار۔۔
ابھی تک حاجی صاحب 170 بکرے خرید چکے ہیں اور اونٹ و گائے خریدنے ابھی باقی ہیں۔ وہ سارے کا سارا گوشت غریبوں میں بانٹتے ہیں۔ وہ لاہور کے ایک فیکٹرٹی اونر ہیں اور گارمنٹس کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کا تعلق ملتان سے ہے۔ شیخ صاحب نے آدھے شہر کو چونا لگا رکھا ہے، زندگی کا آغاز بھرپور ناجائز کام سے شروع کر کے ابھی ڈھلتی عمر میں وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑ چکے ہیں اور ساتھ ہی متنازعہ اراضی بھی پکڑ لیتے ہیں۔ طاقت ان کے گھر کی لونڈی ہے مگر وہ اس عارضی اور انتہائی ناپائیدار طاقت کو ہی کل سمجھتے ہیں۔ جسم ڈھل رہا ہے مگر عزائم جوان ہیں گزشتہ سال انہوں نے اڑھائی کروڑ کی قربان کی تھی اس سال غالباً امکان ہے کہ تین کروڑ تک چلے جائیں گے وہ بھی سارا گوشت تقسیم کرتے ہیں اور ان کی ساری غریب پروری گوشت تقسیم تک محدود ہے۔ شجاع آباد روڈ ملتان میں بھی ایک صاحب بڑے طمطراق سے قربانی کرتے ہیں اور چند سال قبل ان کے گھر کے عقب میں قربانی کا جانور لانے کی فرمائش پوری نہ کرنے پر ایک باپ نے خودکشی کر کے قربانی سے پہلے ہی خود کو قربان کر دیا تھا۔ جو چھری بکرے کی گردن پر چلنی تھی وہی چھری اس نے اپنی گردن پر چلا کر بچوں کو خون بہتا ہوا دکھا دیا تھا۔ ہمارے رپورٹر ان دنوں میں جو نے جو معلومات لی ہیں اس کے مطابق ملک بھر سے فرج اور ڈی فریزر کی خریداری میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے میرے ایک جاننے والے سرکاری ملازم کی تنخواہ ایک لاکھ دس ہزار کے قریب ہے مگر اس کا عہدہ قیمتی ہے۔ اس نے مجھے قربانی کے جانوروں کی تصویریں شکوے کے ساتھ بھیجی ہیں کہ تم نے تو راجن پور سے سفید بکرے منگوا کر نہیں دئیے ٗ آخر میں نے انتظام کر ہی لیا۔ تم رہے نکمے کے نکمے۔ جو تصاویر اس نے مجھے بھیجیں ان میں دو بہت خوبصورت اور براون رنگ کے ساہیوال نسل کے بیل اور سات راجن پوری بکرے تھے میرے خیال میں اس نے گزشتہ سال کی ساری تنخواہ کا کم از کم 70 فیصد قربانی پر لگا دیا ہے دعا ہے کہ خدابرکت ڈالے اور ان کے اس شوق کو قبولیت بخشے۔
دو روز قبل ایک اچھوتا خیال ذہن میں آیا ، میں نے چند نوجوانوں سے پوچھا کہ قربانی سنت یا فرض، میں نے سوال 13 نوجوانوں سے کیا۔ سارے کے سارے ہی سارے تعلیم یافتہ تھے، میں نے تین نوجوانوں سے خود پوچھا اور باقی کے لئے اپنے دوست کی ذمہ داری لگائی مجھے تو یہی جواب ملا کہ قربانی فرض ہے اور ایک نوجوانوں نے کہا کہ شاید سنت ہے تو اس سے سوال کیا کہ کس کی سنت ہے تو وہ خاموش ہو گیا‘ باقیوں کا جواب ذرا مختلف تھا۔ دو نے قربانی کو عبادت قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو حج پر نہ جا سکیں ان کے لئے قربانی حج کا متبادل ہے۔ ان کو علم ہی نہ تھا کہ حج کے موقع پر بھی قربانی دی جاتی ہے اور وہ تو سنت اور فرض کا فرق بتانے سے بھی قاصر تھے بس یہی کہہ سکے کہ سنتیں تو نماز کی ہوتی ہیں اور سنتیں کیا کیا ہیں؟ انہیں علم ہی نہ تھا ایک نوجوان کا جواب تھا کہ قربانی سنت ابراہیمی ہے مگر اسے اس کی مزید کسی بھی تفصیل کا علم نہ تھا۔
شاید ہی کوئی بھارتی ڈرامہ ایسا ہو جس میں خواہ چند سکینڈ کا ہی سہی ان کے مذہب کا پرچار نہ ہو اور ہمارے ہاں ڈراموں میں اس قسم کا کوئی رواج باقی ہی نہیں رہا کہ اصلاحی پہلو نکل سکتا ہے۔ بہت سال پہلے میں نے پاکستان کے ایک چوٹی کے ڈرامہ نگار سے سوال کیا کہ آپ سے پی ٹی وی کو ایسے ڈرامے دئیے کہ جس وقت وہ ڈرامے چلتے سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں، اب آپ کو کیا ہوا۔ آپ اب کیوں نہیں ایسے ڈرامے لکھتے کہ معاشرے کے اصلاح اور رہنمائی ہو سکے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ڈراموں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کنٹرول ہو چکا ہے اور اب اصلاحی ڈرامے سپانسر شپ ہی حاصل نہیں کر پاتے ڈراموں کی کاسٹ بہت بڑھ گئی ہے اور اب تعمیری ڈراموں کو ڈبوں میں ہی بند کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پی ٹی وی کے عروج کے دنوں میں بھارت سے آنے والے سکھ یاتری پی ٹی وی لاہور سٹوڈیو کے باہر جمع ہو کر معروف پنجابی اینکر دلدار پرویز بھٹی مرحوم اور عابد علی مرحوم کا انتظار کیا کرتے تھے کہ انہیں مل کر جانا ہے۔ مجھے ایک سکھ ایگزیکٹو انجینئر کی ڈاکٹر بیوی نے کہا جو کہ ہمارے آبائی گھر کے پاس سکول میں قیام پذیر تھے۔ پی ٹی وی ڈراموں کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگی کہ ایک ڈرامے کا سین کچھ یوں تھا کہ ماں کئی سال بعد اپنے بچھڑے ہوئے بیٹے سے مل رہی ہے اور سین کی ڈیمانڈ یہ ہے کہ یہاں دوڑ کر بیٹے کو سینے سے لگائے مگر وہ حقیقی زندگی میں تو ماں بیٹا نہیں تھے جونہی وہ سین اپنے کلائمکس پر پہنچا تو ڈرامے کا وقت ختم ہو گیا اور وہ سین اب اگلی قسط میں مکمل ہونا تھا۔ میں نے اپنی فیملی سے کہا کہ یہ پی ٹی وی کی اخلاقیات کا اصل امتحان ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ڈرامہ پروڈیوسر ماں بیٹے کا ملاپ کیسے کراتا ہے؟ اگلا ہفتہ آیا تو کمال خوبصورتی سے پہلے ماں کی آنکھوں کا کلوزاپ لیا گیا پھر بیٹے کا اور پھر بغیر دونوں کو گلے ملائے ہوئے سارا سین انتہائی جذباتی انداز میں مکمل کر دیا پھر وہ وقت بھی چند ہی سالوں میں آ گیا کہ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی نے آن کیمرہ دعویٰ کیا کہ ہم نے پاکستان کو میڈیا وار میں مات دے دی ہے۔
آج جو بھی چینل دیکھ لیں سوشل میڈیا دیکھ لیں بکروں کا مقابلہ جاری ہے۔ سنت ابراہیمی نہ جانے کہاں کھو گئی اور اس میں سے بکروں کے فیشن شو نکل آئے؟ افسران کے گھروں کے لئے سستے بکرے بھی ماتحت ملازمین کی ذمہ داری ہے۔ بکروں کی خریداری سے لے لیکر قصاب کا انتظام بھی ماتحت ملازمین ہی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بکروں کے اس میڈیا مقابلے نے عام آدمی کے احساس کمتری میں اتنا زیادہ اضافہ کر دیا ہے کہ بعض لوگوں کے لئے یہ عید قربان ان کے ارمانوں کی قربانی کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان میں ہے کوئی جو اس خلیج کو کم کر سکے۔ کہتے ہیں کہ آٹا مہنگا ہو تو عزت سستی ہو جاتی ہے اور 50 روپے کلو والی گندم کا آٹا اب 100 روپے کلو ہو چکا ہے۔ ایک گریڈ 18 کی ایماندار آفیسر کے الفاظ سے بات ختم کرتا ہوں۔ پہلے عیدیں خوشیاں لاتیں تھیں اب مقابلے بازی کے دور میں محرومیاں بڑھا کر چلی جاتی ہے۔(میا ں غفار)