تحریر: علی حسن۔۔
بلوچستان پاکستان کا ہر لحاظ سے اہم ترین صوبہ ہے لیکن وہاں جس طرح کے حالات سے واستہ پڑ گیا ہے اس کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور سیاست دانوں اور عسکری طاقتوں کو اس کے مسائل کا حل تیز رفتاری سے تلاش کرنا چاہئے ہوگا۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے سیاستداں اپنے سیاسی مشاغل میں مصروف ہیں۔ پنجاب کی وزارت آعلی کے لئے سب ہی جتے ہوئے تھے ۔ بلوچستان بارشوں سے بھی شدید طریقے سے متاثر ہوا ہے لیکن حکومتوں میں شامل وفاقی اور صوبائی وزراءکو ذرا سی بھی جنبش نہیں ہوئی ہے۔ بھارت نے مکتی با ہنی کے ذریئے جو کچھ مشرقی پاکستان میں کیا تھا اور پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ کیا بلوچستان میں مجموعی طور پر ایسی صورت حال پیدا کردینا مقصود نہیں کہ لوگ خود بے زار ہو جائیں اور جان کی امان کے لئے کہنا شروع کردیں کہ بس بہت ہو گیا اب ہمیں امن درکار ہے۔ خواہ اس کی قیمت پاکستان کی سلامتی ہی کیوں نہ ہو۔ آج بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا حکمرانوں کو ماضی سے مماثلت نظر نہیں آتی ہے۔
حکومتوں کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلطیاں اپنی جگہ لیکن بلوچستان کے علاقے یا اب صوبے میں ، ہر ہر دور میں سردار صاحبان حکومتوں کا براہ راست حصہ رہے ہیں۔ اگر کوئی قبیلہ رہ گیا ہے تو اس کانام لیجئے ۔ خان قلات سے لے کر جام لسبیلہ تک ، سب ہی اقتدار کی راہ داریوں سے گزر چکے ہیں ۔ آج بھی بلوچستان میں بلوچوں کی حکومت ہے ۔ جو وزراءہیں ان کا کسی نہ کسی قبیلہ سے تعلق ہے ۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں تقریبا پوری اسمبلی کے آراکین اکثر حکومت کا حصہ رہتے ہیں ۔ ایک عام سے محکمے کے وزیر پر بھی سرکاری خزانے سے رقم خرچ ہوتی ہے سو ان پر بھی خرچ ہو رہی ہے۔ یہ ہے جمہوریت جس کا ہم رات دن چرچا کرتے نہیں تکھتے لیکن جمہور ہیں کہ زخموں سے چور چور ہیں ۔۔ کیا جمہوریت کا علم اونچا کرنے کا ایک طریقہ یہ نہیں کہ صدر ، وزیر آعظم، وزیر داخلہ اس وقت تک بلوچستان میں اپنا اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیں جب تک حالات قابو میں نہیں آجاتے اور جمہور اطمینان کا اظہار نہیں کر دیتے۔ پاکستان سے جانے والے ایک سابق امریکی سفیر نے کچھ عرصے وبل کہا تھا کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن بد اعمالی، خراب نگرانی ، بد عنوانیاں وغیرہ کے باعث پاکستان مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان بھی بلوچستان کے مسائل کی طرف توجہ دلا چکے ہیں۔ پاکستان کے دوست ممالک اکثر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کو پالیسیوں میں تسلسل پیدا کرنا چاہئے اور حالات کو سمجھنا چاہئے۔
بلوچستان میں گزرنے والا ہر لمحہ پاکستان کو عدم استحکام کی جانب گامزن کر رہا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو حالت جنگ میں سمجھنا چاہئے۔ ہمارے پاس ان غلطیوں کا دہرانے کا وقت ہے اور نہ ہی قوت جو ہم سے مشرقی پاکستان میں سر زد ہوئیں اور جس کا خمیازہ ہم تمام زندگی بھگتے رہیں گے ۔ مملکت پاکستان کے صدر اور حکومت کے وزیر آعظم اور حزب اختلاف کے قائد کو چاہئے کہ کم از کم تین کمیٹیاں قائم کریں جو مختلف زاویوں سے بلوچستان کا جائزہ لیں اور قومی اسمبلی ان کی شفارشات پر عمل در آماد کو یقینی بنائے۔ ہماری دوڑ وقت کے مقابل ہے اور وقت ہے کہ جو ہمارے ہاتھوں سے مکھن لگی رسی کی طرح نکلا جارہا ہے۔سابق صدر آصف علی زرادری چوہدری شجاعت کے گھٹنوں پر ہوتھ رکھ سکتے ہیں تو بلوچستان کے سرداروں اور خصوصا نوجوانوں سے گفتگو کر نے میں کیا حرج ہے ۔ عام معافی پر بھی غور کرنا چاہئے۔
بلوچستان میں لاپتہ ہوجانے والے لوگوں کے مسئلے پر عدالتوں کے تبصرے اور تشویش اب کسی اور تبصرے کے محتاج نہیں ہیں۔ماضی میں سپریم کورٹ نے اس مسئلے کو اتنی اہمیت دی تھی کہ عدالت ہی بلوچستان میں لگانا شروع کر دی تھی ۔ اس سلسلے کے مقدمات کی مختلف مراحل میں جو کارروائیاں سامنے آئی ہیں، ان میں لاپتہ ہوجانے والے لوگوں کی گمشدگی کے پیچھے ان عناصر پر بھی انگلیاں اٹھائی گئی ہیں جو بلوچستان میں امن و امان کی بحالی میں مدد کے لئے صوبائی حکومت کی درخواست پر متعین کئے گئے ہیں۔ وہ تمام قوتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ فوج سے تعلق رکھتی ہیں۔ لوگوں کو اغواءکیا جاتا ہے ، انہیں غیر قانونی حراست میں رکھا جاتا ہے ، اور پھر انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ورثاءکو مسخ لاشیں دی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں کئے جانے والے اقدامات میں سر فہرست یہ مسلہ ہونا چاہئے کہ لوگ لاپتہ نہیں کئے جائیں گے۔
بلوچستان کے عوام کی زندگی میں صرف ایک بات پر سب متفق ہیں کہ اطاعت لازمی ہے۔اطاعت سے اجتناب کا اول تو تصور ہی نہیں ہے اور اگر کہیں یہ تصور خیال کا حصہ بن بھی گیا توبغاوت کی کم سے کم سزادنیا بدری ہی ہوا کرتی ہے اور اگر قسمت اچھی ہے تو پھر علاقہ بدری ہے۔ اطاعت قبائل کا پہلا اصول قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سرداروں کی روایات کا حصہ ہے، جس کے سہارے ان کی سرداری کو دوام حاصل رہتا ہے۔ اس کے بغیر کیسی سرداری، کیسا قبیلہ ہو جائے گا۔ سردار سے سوال نہیں کیا جاسکتا۔ سردار سے کچھ طلب بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حکم کرنا، طلب کرنا، سوال کرنا، سردار کا حق قرار پاتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پورا قبیلہ سردار کے اشارے کا محتاج رہتا ہے تو پھر بلوچستان حکومت یا وفاقی حکومت بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لئے سرداروں کی خدمات کیوں حاصل نہیں کرتی اور اگر سردار کوئی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو وفاقی حکومت بلوچستان میں اپنا کیمپ کیوں قائم نہیں کرتی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے عملی اقدامات سے کیوں گریزاں ہے۔بلوچستان میں 35 اضلاع ہیں ۔ صوبے میں اس سے کہیں زیادہ قبائلی سردار ہیں۔ یہ کیوں کر ممکن نہیں کہ قبائلی سرداروں کو ذمہ داری دی جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں صورت حال کو قابو میں رکھنے میں حکومت کی مدد کریں۔ جنرل رحیم الدین خان جنرل ضیاءالحق کے دور میں بلوچستان میں گورنر مقرر کئے گئے تھے ۔ انہوں نے قبائلی سرداروں کو تنبیہ کی تھی کہ انہیں بلوچستان میں امن چاہئے اور آپ لوگ (سردار حضرات) اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ بلوچستان میں کی جانے والی کارروائیاں بھاری بھاری رقوم کی عدم موجودگی میں کیوں کر ممکن ہو سکتی ہیں۔ کون ہے اس پردے کے پیچھے جو بلوچستان کو ہر روز نت نئے واقعات سے دوچار کر رہا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو ہمت کر کے فیصلے کرنا ہوں گے ۔ (بشکریہ جہان پاکستان)