تحریر: ساحل جوگی۔۔
سب سے پہلے تو یہ واضح کرتا چلوں کہ اکثر صحافیوں کا یہ موقف ہے کہ جان محمد مھر متضاد صحافی نہیں تھا، تو وہ غلط کہہ رہے ہیں، سکھر کے صحافی، سیاسی شخصیات اور سول سوسائٹی گواہ ہے کہ جان محمد مھر گزشتہ چار سالوں سے پریس کلب نہیں جاتا تھا، اس کا سبب صرف پریس کلب پر قابض مافیا کے خلاف خاموش احتجاج تھا، البتہ اس نے کھل کر اس مافیا کے خلاف احتجاج نہیں کیا لیکن اس نے خاموشی سے اس مافیا سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، جان محمد مھر سمیت ممتاز بخاری، شوکت نوناری، وسیم شمسی و بیشتر سینئر صحافی ہیں جو پریس کلب نہیں جاتے، یہ ان لوگوں کا خاموش احتجاج ہے وہ کھل کر سامنے کیوں نہیں آتے؟ اس میں ان لوگوں کی کیا مفاھمت ہے؟ یہ تو وہ ہی بتا سکتے ہیں!! میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ مجرمانہ خاموشی ہے!! اگر زیادہ خاموشی رہی تو ایک ایک کرکے سڑکوں سے صحافیوں کی لاشیں اُٹھانی پڑے گی۔۔
سینئر صحافی جان محمد مھر کے قتل کے بعد ہی قتل کیس کو خراب کرنے والے عناصر متحرک ہوگئے تھے، 14 اگست2023 کی رات 12 یا ساڑھے 12 بجے ہم جیسے ہی شہید کی لاش لے کر سول اسپتال جا رہے تھے کہ پوسٹ مارٹم سے پہلے ہی یہ بات سننے میں آئی کہ جان محمد مھر کی نماز جنازہ رات کو ہی ہوگی اور رات میں ہی تدفین ہوگی!! میرے لیے یہ بات حیران کن تھی!! پھر جان محمد مھر کے بھائی اور کزن نے مجھ سے کہا کہ نماز صبح دس بجے چک شہر میں ہوگی اور تدفین بھی وہاں پر ہی ہوگی آپ یہ اعلان کروا دیں، پھر میں نے نماز کی پوسٹ شیئر کی، لیکن اس باوجود نماز جنازہ رات کو چار بجے سکھر میں ہوئی اور تدفین بھی سکھر میں ہی کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی، ورثاء کے اسرار پر لاش چک لائی گئی۔۔
چودہ اگست کے روز دس بجے نماز جنازہ ہوئی اس کے بعد چک کے آبائی قبرستان پیر یوسف میں جان محمد مھر کو سپرد خاک کیا گیا، پہلے دن تعزیت کے لئے ایک ہی تڈہ رکھا گیا، لیکن رات کو ایک شخص تعزیت کے لئے آیا اور اس کے بعد دوسرے روز تعزیت کے لئے دوسری جگہ پر بھی تڈہ رکھا گیا، اس شخص نے رات کو آتے ہی ورثاء کو کہا کہ ایف آئی آر بھائیوں کی مدعیت میں نہیں لیکن سالوں یا پھر بیوہ کی مدعیت میں ہوگی، ایک بھائی اور ایک صحافی گواہ ہوں!! اور مثال دی کہ ناظم جوکھیو کیس ہمارے سامنے ہے، بھائی مُکر جاتے ہیں..!! جس پر ورثاء نے اعتراض کیا کہ سب کیس جوکھیو جیسے نہیں ہم وارث ابھی زندہ ہیں ہم ہی مدعی بنے گے اور ہم ہی گواہ بنے گے..!! ایسے جواب باوجود رات کو جان محمد مہر کے بھائی کرم اللہ مہر کو تڈے سے اٹھایا گیا اور سکھر لایا گیا، رات میں ہی زمین کے تنازع پر واقعے کی ایف آئی آر بنا کر درج کرنے کی کوشش کی گئی، اسی وقت میں نے ایف آئی آر کے حوالے سے ایک وی لاگ اور پوسٹ شیئر کی، پھر ورثاء اور کچھ صحافی متحرک ہوئے ۔۔کے ٹی این نیوز کے دو صحافی تھانہ سی سیکشن پر پہنچے اور ایف آئی آر رکوانے میں کامیاب ہوگئے، دوسرے روز شام پانچ بجے دوسری ایف آئی آر درج ہوئی، جس میں بہت سے ملزمان کے ناموں پر ورثاء کو تاحال اعتراض بھی ہے۔ چوبیس گھنٹے تک شہید صحافی کا مدعی بھائی کچھ عناصر کے ہاتھوں انڈر پریشر اور یرغمال رہا ایف آئی آر کے بعد مدعی کو آزاد کیا گیا اور اس نے تڈے پر پہنچ کر تعزیتیں وصول کی۔۔
وہ کون ہے جس نے ایف آئی آر کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کی، مدعی بھائی کو تڈے سے اٹھا کر کہاں لایا گیا، ساری رات وہ کہاں رہا؟ اس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے..!!لہذا آواز نہیں اٹھائے گے تو مجھ سمیت دوسرے صحافی بھی یوں ہی لاوارث ہوکر مارے جائیں گے۔۔
اب دوسرا پہلو قتل کیس کے انتہائی اہم کردار میر محمد عرف میرو مہر جس کا نام ایف آئی آر میں شامل ہے، پچھلے دو.. ڈھائی ماہ سے مرکزی ملزم شیرل عرف شیرو مہر فیملی سمیت اس کے پاس رہ رہے ہیں، قتل کے بعد ملزمان میرو مہر کی زمین پر ہی گئے، قتل سے دو روز پہلے تک قاتل پرانا سکھر میں رہے، وہاں ان کو رہائش اور کھانا پینا دیا جاتا رہا، یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ میرو مہر کس بااثر شخصیت کا بندہ ہے، شیرل مہر تک پیسے پہنچانے والے شخص بخشل عرف بخشو کو گرفتار کرلیا گیا ہے، ان سے پوچھا جائے کہ وہ کون سے سیاستدان سے پیسے لے کر دو ڈھائی ماہ تک ملزمان تک پہنچاتا رہا ہے، واضح کرتا چلوں کہ میرو مہر سکھر کی ایک بااثر شخص کی زمین کرتا ہے، اسی زمین پر ملزمان کو پناہ دی ہوئی ہے، پیسے دینے والے بخشو مہر کا سرپرست کا تعلق ضلع شکارپور سے ہے..!! اگر پولیس سنجیدہ ہو تو 24 گھنٹوں میں جان محمد مھر کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے اصل محرکات تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن قتل کیس کو خراب کرنے میں پولیس کے افسران بھی سازشی عناصر کے ساتھ آن بورڈ ہے۔۔
اب آتے ہیں جان محمد مھر کا قتل کیس خراب کرنے والے عناصر پر جن کی اکثریت کا تعلق صحافت سے ہے انہوں نے ہمیشہ شہید صحافیوں کے خون کا سودا کیا ہے اور اس خون کو تجارت کا ذریعہ بنایا ہے، اب وہ قاتلوں، سرپرستوں اور سہولتکاروں کے ساتھی بن کر قتل کیس کو ذاتی نوعیت کا قتل قرار دے رہے ہیں، کچھ ہمارے صحافی دوست بھی دانستہ اور غیر دانستہ طور پر اس سازش کا حصہ بن رہے ہیں۔۔
یہ واضح ہے کہ جان محمد مھر کے قتل کو صرف رنگ زمینی تنازعہ کا دیا گیا ہے لیکن اصل منصوبہ بندی کرنے والے سیاسی و کالی تیتر مافیا ہے، وہ کون ہے ان تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔۔(ساحل جوگی)۔۔
(یہ تحریر سکھر کے سینئر صحافی ساحل کے سوشل میڈیا سے لی گئی ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسیوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔
سکھر میں سینئرصحافی کا قتل اور کچھ حقائق
Facebook Comments