تحریر: سلمان درانی
ایک صحافی کو سچ کہنے اور لکھنے کی آزادی بھی چاہیئے اور یہ بھی کہ اس کو بے جا کام سے نہ نکالا جائے.،بدقسمتی سے ان دونوں باتوں کو شروع ہی سے ایک دوسرے کی ضد بنا کر رکھا گیا کہ پریس پر اپنا غلبہ قائم رکھا جا سکے. یہ ایک پُرانہ مگر ہر بار استعمال ہونے والا حربہ ہے جس کو طاقت کے ایوانوں سے سچ کو خاموش کرانے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے.اخذ یہ ہوا کہ صحافت آج بھی طاقتور کا سب سے آسان ہدف ہے۔۔بس استحصال کے طریقے وقت کے ساتھ بدل گئے ہیں۔۔نائن الیون کے بعد سے صحافیوں پر حملوں کا سلسلہ ایک نئی شکل میں دریافت ہوا۔ صحافی اور میڈیائی ادارے دہشتگردوں کا خاص ہدف بن گئے. اس میں یہ بات بھی شامل کرلیں کہ پاکستان میں آزاد میڈیا کی شکل میں ایک پرائیویٹ گروپ نے اسی دور میں آنکھ کھولی اور لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز بن گیاسو اس طرح عام لوگوں کے ساتھ میڈیا والے بھی دہشتگردی کا نشانہ بنتے رہے.
ریاست پر ایسا وقت تھا کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ نہ دے پارہی تھی۔۔میڈیا کو کہاں سے سیکیورٹی دیتے.دوسری اہم بات یہ کہ ریاست میڈیا کو اس طرح سے کھلی چھوٹ دینا بھی نہیں چاہتی تھی.تبھی پیمرا کو ہاتھ میں کرنے والے قوانین مرتب کیے گئے جس سے ایک خاص حد کے بعد صحافیوں کے پر اپنے آپ ہی جلنا شروع ہوجائیں. ایسے وقت میں ایسی کوئی رائے رکھنا جو ریاست کی کسی بھی بات سے تصادم رکھتی ہو بالکل ناممکن بات تھی.اس دور اور بعد کے دور کے صحافیوں جن میں نوجوان صحافی ولی خان بابر،سلیم شہزاد جیسے زیرک صحافی شامل ہیں کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا. بلوچستان تنازع نے ہم سے اب تک بہت لوگ چھین لیئے. اندازے کے مطابق صرف بلوچستان میں 2009 سے 12ء کے دوران کل 23 صحافی اپنی جان سے گئے. 2001 سے اب تک 33 سے زائد صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں.اخبار جہاں میں لکھنے والے ولی چشتی کو 2008 میں بی ایل اے کی طرف سے ایک حملے میں اس بنیاد پر ماردیا گیا کہ انہوں نے بالاچ مری کی موت کے حوالے سے کچھ حقائق پر قلم کشائی کی تھی.سوات کے موسیٰ خان خیل کی ہی مثال لے لیں۔۔سوات کے علاقے مٹہ میں صوفی محمد کے امن مارچ کے تنازع میں مار دیئے گئے. ایوب خٹک کو کراچی میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا…ان سب نے سچ بولنے کی قیمت اپنی جانیں گنوا کر ادا کیں اور قوم کو وہ بتایا جس کے جاننے کی ضرورت بھی تھی.
یہاں ہم یہ بات نظر انداز نہیں کرسکتے کہ میڈیائی اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کا سب سے زیادہ استحصال انہی کے اپنے ادارے کا مالک کرتا ہے. میڈیا مالک مطلب کہ سیٹھ۔۔دراصل ان پسے ہوئے طبقے کا استحصالی ہے جس کو نکالنے کے لیئے سیٹھ کو نہ کسی نوٹس کی ضرورت پڑتی ہے اورنہ ہی تنخواہوں کی ادائیگی کا وہ خود کو ذمہ دار سمجھتا ہے. پچھلے دنوں پی ایف یو جے نے حق آزادی رائے کے فقدان کو محسوس کرتے ہوئے احتجاج کا فیصلہ کیا تو اس میں میڈیا ورکرز کے بھی معاملے کو اٹھایا گیا.سوال یہ ہے کہ یہی آواز اس وقت کیوں نہیں اٹھائی گئی جب درجنوں افراد سیٹھ نکال رہا تھا اور تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں. آج حکومت کے اور میڈیا مالکان کے معاملات طے ہونے کا وقت ہے تو یہی تنظیمیں جاگ گئی ہیں اور اب رائے کی آزادی کو بھی خطرہ ہوگیا ہے۔۔جو کہ واقعی میں ہے۔۔مگر منافقت کیسی؟ کیا صرف پیسا ہے جس کی خوشبو سے تنظیمیں اپنی سمت کا تعین کرتی رہیں گی؟ ہاں تو یہ کن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں حقوق کی جنگ لڑنے والی تنظیمیں. عام ورکر کو اب تو جاگ جانا چاہیے اور ان مخولیوں کو ہٹا کر ان قبضہ گروپوں کا اصل چہرہ سامنے لانا چاہیئے.۔۔
یہاں ایک اہم مسئلے کی نشاندہی بھی ہوتی ہے جس پر توجہ بزرگ صحافی ضیاء الدین صاحب نے دو روز قبل ایک سیمینار سے خطاب کے دوران دلائی. موصوف طلباء و طالبات سے مخاطب تھے اور اپنے دہائیوں سے اکٹھے کیئے تجربے سے لیئے سبق ہم سے شئیر کر رہے تھے.اسی دوران جس چیز کی جانب دھیان گیا وہ ان طلباء کے بھیانک مستقبل کے حوالے سے ہے. وہ طلباء جو کہ مختلف جامعات میں ماس کمیونیکیشن میں بڑی تعداد میں داخل ہیں ہم ان کو سب بتاتے ہیں مگر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ انڈسٹری کے حالات کیا جارہے ہیں. آئے روز چینلز سے صحافیوں کو ذلیل کر کے نکالا جارہا ہے۔۔تنخواہیں رُلا رُلا کر دی جاتی ہیں. میڈیا پر سیاسی معیشت کا راج ہے اور اداریے پر مالک کی اجارہ داری.۔۔
یقین مانیئے معاشی بم کسی صحافی کے لیئے اتنا ہی ہے جتنا کہ اس کو سر میں گولی مار کے مار دیا جائے. بدقسمتی سے پاکستان میں صحافت کے ساتھ یہ المیہ آزادی کے ساتھ سے ہی چلتا آرہا ہے. تو کیا یہ کچھ ان طلباء کو ڈرانے کے لیئے کافی نہیں ہے کہ ان کے ساتھ آنے والے کل میں کیا ہونے جارہا ہے؟ تعلیمی اداروں اور طلباء کی ترجیحات اور انڈسٹری کی ضروریات کا فرق ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہی رہا ہے اور بدقسمتی یہ کہ ایک سائینسی نوعیت کے اس قدر سنگین مسئلے پر آج تک کسی کا دھیان ہی نہیں گیا. بے روزگاری میں اضافے کی ایک خاص وجہ بالکل کلیئیر ہے مگر ہماری ترجیح میں نہیں. میڈیا کے اصل کلچر کا ہمیں تب پتہ چلتا ہے جب ہم کئی سال اداروں کی دھتکار اور عجیب عجیب ضرورتوں کو پورا کرنے میں صرف کرنے میں آدھے ہوچکے ہوتے ہیں. ہمارے نیوز رومز میں گھسنے کی پہلی اور آخری شرط یہ ہوتی ہے کہ خود کی سوچنے سمجھنے اور تخلیق کرنے کی سب صلاحیتوں کو گھر رکھ کر آئیں کیوں کہ اس کا دفتر میں کوئی فنکشن نہیں ہے.۔۔
تب صورتحال زیادہ خرابی کا شکار نظر آتی ہے جب کسی بھی چینل کی وابسطگی صاف ظاہر ہو۔۔ میڈیا کے اندر سیاسی معیشت کے عمل دخل کے انتہائی مضر اثرات دیکھے گئے ہیں۔۔یہ بات پوری دنیا کے میڈیا پر اسی طرح سچ ہے جیسے کہ امریکہ کے میڈیا پر.مگر ہم بات ابھی صرف پاکستان کی کر رہے ہیں. یہاں جب کسی صحافی کو یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کی کارکردگی سے کچھ سیاسی دوست خوش نہیں ہیں تو اس کے لیئے یہ سمجھنا کافی ہوتا ہے کہ اب اس کو اپنی نوکری بچانے کے لیئے کیا کرنا ہوگا۔۔مالک اس سے کیا ڈیمانڈ کر رہا ہے.۔۔آپ شائد یہ جان کر حیران ہوں کہ دوردراز علاقوں کے غریب صحافی تو بغیر اُجرت کے یہ فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں. تو کیا یہ سماج ان کو معاشرتی طور پر اپنایت کا احساس بھی نہیں دے سکتے؟
گزارش صرف یہ ہے کہ عام صحافی ورکر کو جینے دیا جائے. ایک جانب عوام جینے نہیں دیتی تو دوسری طرف سیٹھ صاحب><اور باقی کی کسر ابتر معاشی حالات نکال دیتے ہیں. صحافی پھر بھی بچ جائے تو غداری گستاخی جیسے الزامات اسکی جان نہیں چھوڑتے.جون مرشد کی وہ بات یاد آرہی ہے کہ اس خطے میں اکیسویں صدی کو گھسیٹ کر لایا گیا ہے. اس بات کے تناظر میں ہم واقعی یورپ کے ان شروع کے سالوں میں ہی بھٹک رہے ہیں جہاں سوال کرنے والا سزائے موت کا حقدار ہوتا تھا.۔۔ہم آئین پر سوال بھی اٹھا لیں تو محترم اوریا مقبول جان صاحب فرماتے ہیں کہ سوال اٹھانے والوں اور آئین رد کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے. جناب اس باریک سی لکیر کو تو کوئی بچہ بھی بتاسکتا ہے کہ اختلاف کرنے اور رد کرنے میں فرق ہوتا ہے. ہم آئین کی شق انیس پر سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ ایک ہاتھ سے آزادی دے کر دوسرے ہاتھ سے چھین لیتی ہے تو اس میں عجب کیا ہے. ہاں ہے ایسی بہت سے شقوں کو ترمیم کی ضرورت. سرل المائیڈا پر غداری کا کیس ہونا جیسے معاملات۔۔بات بات پر گستاخ رسول بنانے والی روایت۔۔مجھے ڈر ہے کہ ہمیں کہیں وہیں لاکھڑا کر دے کہ جہاں سے ہم نے سفر کا آغاز کیا تھا. ویسے ہم اس نکتے سے زیادہ دور نہیں کھڑے.۔۔(سلمان درانی)
(نوجوان صحافی سلمان درانی کی ہماری ویب کے لئے یہ پہلی تحریر ہے۔۔ان کے تحریر اور خیالات سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ علی عمران جونیئر)