saat samandar paar dosto ke naam

Success stories of sindh

تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔

کراچی سے سنئیر اخبار نویس جناب آغا خالد نے فون پر استفسار کیا:سندھ کا دورہ کیسا رہا؟جواب دیا کہ ریگستان میں “گلستان” دیکھ کر اچنبھا ہوا۔۔۔”انگشت بدنداں” رہ گئے۔۔۔!!اکیس سال بعد شہر قائد جانا ہوا اور اسی طرح اندرون سندھ بھی۔۔2003میں کراچی سے روزنامہ نیا اخبار اور سکھر سے روزنامہ خبریں نکلا تو جناب عظیم نذیر کے حکم پر دونوں شہروں میں دو تین مہینے گذارے۔۔۔شاید اب بھی “ٹرین”نکل ہی جاتی لیکن جب لاہور پریس کلب کے صدر جناب ارشد انصاری نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی ہے تو مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی لاہور پریس کلب آمد یاد آگئی اور میں نے ناچاہتے ہوئے بھی “رخت سفر” باندھ لیا کہ چلیں اسی بہانے “شہید جمہوریت” کو خراج عقیدت پیش کر آتے ہیں۔۔۔یہ 2007 کی بات ہے۔۔۔تب پرویز مشرف آمریت کا سورج “نصف النہار”پر تھا اور محترمہ صحافیوں سے اظہار یک جہتی کے لیے پریس کلب کے صحن میں لگے احتجاجی کیمپ تشریف لائیں۔۔۔کیا ہی باوقار خاتون تھیں۔۔۔واقعی دختر مشرق کہلانے کے قابل۔۔!!شومئی قسمت کہ اسی سال دسمبر میں لاہور پریس کلب کے الیکشن کے لیے جناب ارشد انصاری کی قیادت میں انتخابی مہم پر روزنامہ ایکسپریس میں تھے کہ محترمہ کی شہادت کی غم ناک خبر ملی اور ہم نے سوگ میں ادھر ہی مہم ختم کردی۔۔۔۔بہر حال گزشتہ ہفتے سندھ کو پہلی مرتبہ قریب سے دیکھا تو ذہنوں پر چھائے ابہام کے بادل چھٹ گئے اور سندھ کا”نیا منظرنامہ”سامنے آیا۔۔قدرت مہربان ہو تو پہاڑوں سے بھی”چشمے” پھوٹنے لگتے اور زمینیں “سونا” اگلنے لگتی ہیں۔۔سندھ کی خوش بختی کہ قدرت” وادی مہران” پر اتنی مہربان ہے کہ وہاں سے تیل اور گیس کا ایک اور ذخیرہ چھلک پڑا ہے۔۔۔۔اوجی ڈی سی ایل نے خوش خبری سنائی ہے کہ سانگھڑ کے بلوچ ٹو کنویں سے یومیہ 388بیرل خام تیل اور 6.8کیوبک فٹ گیس دستیاب ہونے لگی ہے۔۔۔یہ نوے کی دہائی تھی جب “پیاسے سندھ” میں پانی کی تلاش کے دوران کوئلے کی “جھلک” دکھائی دی اور پھر زیر زمین کوئلےکا “بیش قیمت خزانہ”ہاتھ لگ گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے قدرت کی اس” مہربانی” کو”تھر بدلے گا پاکستان”کاعنوان دیدیا۔۔۔تھر کول منصوبہ شہید بے نظیر بھٹو کے خواب کی تعبیر ہے اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اس منصوبے کو اپنی”success story”سمجھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اتنی بڑی کامیابی کہ تھر کول منصوبے کی “دل نشین کہانی”سناتے سندھ کے سید وزیر اعلی جناب مراد علی شاہ کی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔۔۔۔وہ لاہور پریس کلب کے وفد کے روبرو اڑھائی گھنٹے خوش دلی سے بیٹھے اور دل کھول کر دل کی باتیں کہیں۔۔۔۔۔۔وزیراعلی سندھ جناب سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ تھر کول پراجیکٹ سے 3ہزار میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو رہی ہے۔۔۔۔۔یہ بھی راز کھولا کہ تھر کے کوئلے سے پورے ملک کے لیے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ تھر میں کوئلے کے 180 بلین ٹن ذخائر موجود ہیں جو سعودی عرب اور ایران  کے تیل ذخائر سے  50 بلین ٹن زیادہ ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے تھر میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے قیام کی نوید بھی سنائی۔۔۔۔مراد علی شاہ نے پیش گوئی کی کہ چالیس سال بعد تھر کراچی سے بڑا شہر ہوگا۔۔۔۔۔وزیر اعلی سندھ ہی نہیں ان سے پہلے ان کے “انرجیٹک” وزیر اطلاعات جناب شرجیل میمن بھی سندھ کی”success story”سنانے کو بے تاب تھے۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر سے نا صرف وطن عزیز کی توانائی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں بلکہ 200سال تک تھر کے کوئلے سے بنی بجلی ایکسپورٹ بھی کی جا سکتی ہے۔۔۔۔جناب مراد علی شاہ نے تھر کے بارے میں درست”پیش گوئی” کی کہ ہم نے بھی تھر کی اپنے تصور سے برعکس تصویر دیکھی۔۔۔۔بدلتا ہوا تھر دیکھا جو واقعی ایک دن پاکستان کی تقدیر  بھی بدل دے گا۔۔۔۔حیدرآباد سے ننگر پارکر تک بہترین سڑکوں کا جال۔۔۔سڑکوں کے اطراف سرسبز و شاداب پہاڑ۔۔۔۔تھر کول پراجیکٹ کے قرب و جوار میں سندھ کی بہادر خاتون سے منسوب شاندار مائی بختاور ائیرپورٹ۔۔۔دو ماڈل ویلیج اور وہاں بہترین سکول۔۔ مسجد اور مندر بھی ساتھ ساتھ۔۔۔۔مکینوں کے لیے سہ ماہی امدادی پیکیج اور مفت بجلی۔۔۔صاف پانی کے لیے چوبیس گھنٹے رواں آر او پلانٹ۔۔۔مٹھی ایسے دور افتادہ شہر میں بھی امراض قلب کا سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال دیکھ کر دل خوش ہوا۔۔شہر سے بلند مقام “پکنک پوائنٹ” جہاں صرف اگست کے مہینے دس لاکھ شہریوں نے رخ کیا۔۔۔۔۔مٹھی میں بھی تاریخی مسجد اور مندر مذہبی رواداری کی گواہی دے رہے ہیں۔۔۔کاش اقلیتوں کے حقوق کا رونا رونے والے مٹھی جا کر دیکھیں کہ اقلیتیوں کے حقوق کیا ہوتے ہیں؟؟ننگر پارکر میں پہاڑوں پر گرتے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کا تجربہ بھی اچھوتا ہے۔۔۔۔۔24کلو میٹر کی حدود میں 56 آبی ذخائر اپنی مثال آپ ہیں جہاں سے سندھ کے کاشت کار اپنے کھیتوں کی پیاس بجھاتے ہیں۔۔۔وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ ان کھیت کھلیانوں سے سالانہ 4ارب کا پیاز ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے۔۔۔۔عرض کی کہ پانی کے ذخائر کا تجربہ خوب کہ جہاں پانی ہوگا وہیں زندگی پھوٹے گی۔۔۔۔مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ وادی بھی حضرت اسماعیل کی ننھی ایڑھیوں کی برکت سے پھوٹے چشمے سے”گلزار” ہوئی۔۔۔۔یہ بھی کہا کہ ایک طرف اکیسویں صدی کا جدید تھر اور دوسری جانب بیلوں کے ساتھ صدیوں پرانا کاشتکاری کا نظام۔۔۔۔؟؟ اگر ان کاشتکاروں کو چھوٹے ٹریکٹر اور جدید مشینری دیدی جائے تو یہ سندھ کے لیے “سونا”اگائیں گے۔۔۔۔انہوں نے بغیر کسی تامل تجویز سے اتفاق کیا۔۔۔۔۔۔۔پانی سے یاد آیا کہ مٹھی کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جناب ریاض احمد شیخ نے اپنے دفتر میں سجے جگ گلاسوں کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وزیر اعلی مراد علی شاہ نے سرکاری دفاتر میں منرل واٹر کی بوتلوں کی جگہ “جگ گلاس کلچر” کو فروغ دینے کا حکم دیا ہے جس کی “گواہی” وزیر اعلی ہائوس میں بھی مل گئی۔۔۔سندھ کے سیلاب متاثرین کے لیے 21لاکھ گھروں کا منصوبہ بھی تاریخ ساز منصوبہ ہے جو سوا کروڑ لوگوں کو چھت فراہم کرے گا جو کئی ممالک کی آبادی سے بھی بڑی تعداد بنتی ہے۔۔۔۔۔ہر مہینے پچاس ہزار گھر تعمیر ہو رہے جبکہ اڑھائی لاکھ گھر بن چکے ہیں۔۔۔۔سندھ حکومت کا صحت کے شعبے پر “فوکس” بھی قابل تحسین ہے۔۔۔۔۔کراچی کے دو سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کے جدید طریقہ ہائے علاج نے بھی حیران کردیا۔۔۔۔جناح ہسپتال میں سائبر نائف ٹیکنالوجی اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں گاما نائف ٹیکنالوجی سے مفت علاج کی دنیا میں دھوم ہے۔۔۔۔قابل صد احترام ڈاکٹروں نے بتایا کہ پورے ملک کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف جناح ہسپتال میں سائبر نائف ٹیکنالوجی ہے جبکہ گاما نائف ٹیکنالوجی ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں کیا،شوکت خانم میں بھی نہیں۔۔۔کراچی کا سٹیٹ آف دی آرٹ ٹراما سنٹر بھی پورے سندھ کے زخموں پر مرہم رکھ رہا کہ اب یہ سہولت ہر شہر کی دہلیز پر دستیاب ہے۔۔۔۔ریسکیو 1122اگرچہ پنجاب کا “برین چائلڈ “ہے لیکن سندھ میں یہ سروس بھی “بے نظیر” ہے۔۔۔ماں کی گود جیسی ایمبولینس گویا موبائل ہسپتال ہی ہے جہاں وینٹی لیٹر بھی نصب ہے اور میٹرنٹی ہوم کی سہولت بھی موجود ہے۔۔۔۔گنجان آباد علاقوں کے لیے موٹر سائیکل کے ساتھ ساتھ منفرد “سائیکل سروس”بھی دل کو بھائی۔۔۔شاید سائیکل سروس بھی صرف کراچی میں ہی ہے۔۔۔۔۔کراچی میں ٹرانسپورٹ کی حالت بھی بدل رہی۔۔۔۔پنک بس سروس پراجیکٹ بھی پورے پاکستان میں خواتین کے لیے “اکلوتا منصوبہ” ہے جہاں کنڈکٹر بھی خواتین ہیں جبکہ اگلے مرحلے کے لیےخواتین ڈرائیور بھی تیار ہو رہی ہیں۔۔۔۔اسی طرح الیکٹرک اور ڈیزل ہائبرڈ بسیں بھی بے مثال ہیں۔۔۔۔ شہر قائد میں ہائیڈرنٹس کا نظام بھی ڈیجیٹل کردیا گیا ہے اور ٹینکر ڈرائیورز کنٹرول روم سے مانیٹر ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔مئیر کراچی جناب مرتضی وہاب نے بتایا کہ اگست 2025تک پانی کے دو بڑے منصوبے مکمل ہو جائینگے اور شہر قائد کو پانی کے حوالے سے بڑا ریلیف ملے گا۔۔۔انہوں نے بتایا کہ لیاری ایکسپریس وے کی تکمیل سے کراچی سے حیدرآباد کا سفر بھی صرف ایک گھنٹے میں طے ہو گا۔۔۔۔۔مرتضی وہاب سے الوداعی مصافحہ کرتے پوچھا:حافظ نعیم الرحمان تو یاد آتے ہونگے؟انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ اب وہ میرا مسئلہ نہیں۔۔۔لاہور جانے اور وہ جانیں۔۔۔۔!!!آئی جی سندھ جناب غلام نبی میمن نے شہر میں سٹریٹ کرائم کی شرح کم ہونے کا دعویٰ کیا لیکن وہ کچے کے ڈاکوئوں کے موضوع پر تسلی بخش گفتگو نہ کر پائے۔۔۔۔سوال کیا پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق سال ہا سال سے کچے کے ڈاکو مر رہے ہیں۔۔۔اگر یہ واقعی مر رہے تو یہ ختم کیوں نہیں ہورہے۔۔۔۔یہ بچے کیسےجن رہے ہیں؟؟جواب ندارد۔۔!!

سیکرٹری اطلاعات سندھ جناب ندیم میمن۔۔ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز سلیم خان۔۔۔ڈائریکٹر ایڈمن منصور راجپوت۔۔۔۔ڈائریکٹر فلمز حزب اللہ میمن اور ڈائریکٹر میر پور خاص غلام رضا کا شکریہ کہ انہوں نے لاہور پریس کلب کے وفد کے لیے دیدہ و دل فرش کردیے۔۔۔۔سچی بات یہ ہے کہ تھر سے کراچی،ایک سے بڑھ کر ایک “success story”دیکھنے کو ملی۔۔۔۔یہ بھی سچ ہے کہ سندھ حکومت کے پاس دکھانے کو بہت کچھ تھا لیکن ہمارے پاس دیکھنے کے لیے وقت بہت کم۔۔۔۔پس ہمیں مجبورا “ادھورے ہاتھ”واپس آنا پڑا۔۔۔۔(امجد عثمانی)۔۔!!!

(کالم نگار ٹی وی پروڈیوسر اور لاہور پریس کلب کے نائب صدر ہیں)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں