تحریر: شکیل احمد بازغ
بے پناہ طاقت کے مالک ان لوگوں پر رشک آتا ہے جنکا اندرنہایت مضبوط ہے۔ اس مضبوطی کی بڑی دلیل خود پر انکا بے پناہ قابو ہے، خود پہ قابو پالینے والے لوگ پھر دنیا قابو میں کر سکتے ہیں۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص میں internal strength کی تمام خوبیاں پائی جائیں، ہر خوبی انکی ایک طاقت ضرور ہے۔ آئیے جانتے ہیں طاقت ہے کیا۔
خاموشی:
“سب کچھ سننا، کچھ نہ کہنا، کتنا مشکل ہے”
ایک بزرگ کی محفل میں ایک عالم دین آئے اور پاس آ کر بیٹھ گئے، تو بزرگ نے ان سے فرمایا کہ آپ کچھ بولیئے تاکہ آپ کی علمی حیثیت کا اندازہ ہو، خاموشی انسان کا پردہ ہے۔ خاموش شخص خاموشی سے کئی معرکے سر کر لیتا ہےخاموشی میں عافیت ہے کئی سوالوں کا جواب یہ لوگ محض ہلکی سی زیر لب مسکراہٹ سے دے کر لاجواب کردیتے ہیں۔ یوں کئی معاشرتی جھنبیلوں میں یہ فاتح ہو کر گزر جاتے ہیں۔ جو اکثر خاموش رہتے ہیں۔ لوگوں میں ان کے لئے قبولیت ہمہ وقت بولنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو ملازم میٹنگ میں زیادہ تر خاموش رہتا ہے وہ کامیاب ہوکر تکریم سے اٹھتا ہے۔ میں نے جب یہ پڑھا کہ خاموشی عبادت ہے، تو اس پر غور کرنے سے معلوم پڑا کہ چونکہ حدیث پاک میں خاموش رہنے اور فضول گوئی سے باز رہنے کی تاکید ان الفاظ میں کی گئی ہے، “اگر تم اللہ اور روز محشر پر یقین رکھتے ہو تو بھلائی کی بات کہو ورنہ خاموش رہو”(مفہوم الحدیث) تو اطیع الرسول بھی عبادت ہی ہے۔ خاموش لوگ بلا کے خطیب ہوتے ہیں، لیکن شوق خطابت پر بھی انہیں قابو ہے، اور انکی خامشی دوسروں پر اپنا سحر اور دبدبہ جیسے اثرات ضرور چھوڑتی ہے۔ خاموشی خود کو لگام ڈالنے کے مترادف ہے۔ انسان کی سب سے بڑی دشمن اسکی اپنی زبان ہے، جو اسے اندھی کھائیوں میں گرا دیتی ہے۔ اسی پر قابو پالینا خود کو طاقتور کرنا ہے۔
رد عمل:
طبیعت میں ٹھہراؤ کی عادت رد عمل میں عجلت سے بچاتی ہے۔ رد عمل کے طور پر انسان جلدی میں ایسا رائتہ پھیلادیتا ہے جسے اپنی ہی قمیص کے دامن سے پونچھنا پڑجاتا ہے۔ طاقتور لوگ بہترین فیصلے کیلئے خود کو وقت دیتے ہیں۔ سوچ بچارکرکے بہترین حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں اور یوں رد عمل کے نتائج صد فیصد درست اور کامیاب ہوتے ہیں۔ خود کو وقت دینے سے یہ فیصلہ بھی ہو جاتا ہے کہ کس کا رد عمل دینا ہے اور کس کا نہیں۔ یوں انسان ہر بات اور ہر شخص پر توانائیاں صرف کرنے سے بھی بچ کر اپنے لئے مشکلات کو کم سے کم کرتا چلا جاتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کو بہت زیادہ معاف کرتے ہیں۔ اور درست سمت میں وقت صرف کرکے تکریم پاتے ہیں۔۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی کسی کے چڑانے سے چڑتے نہیں، انکی کوئی چھیڑ نہیں ہوتی، یہ اکثر ایسی بڑی باتوں کو بھی ٹال جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے کمزور لوگ قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں۔ میں غصے کو بھی اسی پہرے میں شامل کردیتا ہوں۔ کہ فوری رد عمل نہ دینا دراصل غصے پر قابو پانا ہے۔ جسے غصے پر قابو آ گیا وہی تو کامیاب ہوا۔
“خواہش”
اپنی خواہشوں کے اسیر لوگ بالآخر بھکاری ، فریبی، بے وقعت، دغا باز اور جانے کیسے کیسے داغ دامن پر لئے رخصت ہو جاتے ہیں۔ طاقتور لوگوں کی خواہشیں انکی سیڑھیاں ہوتی ہیں۔ یہ اپنی خواہشوں کا اظہار خود سے بھی نہیں کرتے۔ ہلکائے ہوئے کُتے کی طرح رالیں ٹپکاتے پھرنے والے لوگ خواہشوں کے تابع ہوکر دوسروں کے اختیار میں آکر انکی من مرضی کیمطابق جیتے ہیں۔ انکے زیر تسلط ہو کر رہ جاتے ہیں۔ بات بات پر خود کو جھڑکنے والے لوگ، دوسروں سے جھڑکیاں نہیں کھاتے۔ ہمہ وقت اپنا احتساب کرنے والے، لوگوں کے کٹہروں میں کھڑے نہیں ہوتے۔ اور اگر انہیں کسی طرح کٹہرے میں لاکھڑا کیا بھی جائے تو یہ بے قصور اور میزان میں نہایت باوزن ثابت ہوتے ہیں۔ خواہش جُرم کراتی ہے۔ اور جُرم سزا دلواتا ہے۔ دل کو کمزور کرتا ہے، بے عمل و بے ایمان کر چھوڑتا ہے۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے 40 سال تک اپنے دل پر پہرہ دیا ہے۔ خواہشِ نفسانی پہ جو خود پہرے لگاتے ہیں وہ جنید بغدادی ہوجاتے ہیں۔
“اعتراف”
میں ایسی طاقت رکھنے والوں کو رشک سے دیکھتا ہوں، جنہیں اپنی کم علمی، خامی اور غلطی کے اعتراف میں ذرہ سی تاخیر بھی گوارا نہیں۔ یہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں اور سرزد جُرائم کے باعث شرمندگی کا اعتراف کرنے میں ہچکچاتے نہیں ۔ انسان جب اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے یا غلطی کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے تو بالآخر شرمندہ ہوکر رہتا ہے۔ لوگ بہانے بازی کرکے اپنا گند دوسروں کے کندھوں پر ڈال کر خود کو اجلا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کمزور لوگ اپنا اور دوسروں کا وقت، عزت اور پیسہ برباد کرتے ہیں۔ بادشاہ ہونے کے قابل وہ ہے جو سب سے پہلے اپنی غلطی مان کر خود کی اصلاح کا مزاج رکھتا ہو۔ وقت ایسے شخص کو لوگوں میں ممتاز مقام ضرور دلواتا ہے۔
“احساس زیاں”
یہ ایسی خوبی ہے جو اگر کُلی طور پر انسان کے دل پہ غالب آ جائے تو انسان کو ولایت کے قریب تر کر دے۔ میں نے ایسے کمزور لوگ بھی دیکھے ہیں جو قتل عام کرکے لوگوں کو لوٹ کر قوم کو اغیار کے سامنے چارہ بنا کر پھینکنے کے بعد عدالتوں میں وکٹری کا نشان بناتے آتے جاتے ہیں۔ ان کے دل سیاہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ اور دل کی سیاہی طاقت نہیں بلکہ اندر کے کھوکھلے پن کا ثبوت ہے۔ کتنے مضبوط لوگ ہیں جو زمیں کو دیکھ کر اس لئے چلتے ہیں کہ کہیں کوئی کیڑا مکوڑا ان کے پاؤں کے نیچے نہ آ جائے، یہ حساس لوگ ظلم کرنے کے خوف سے احساس زیاں میں گرفتار رہتے ہیں۔ یہ لوگوں کیلئے بے ضرر ہوتے ہیں۔ یہ ظالم کے سامنے ڈٹ کر ظلم مٹانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اک ذرا احساس زیاں انسان کو دوسروں میں اشرف کر دیتا ہے۔ احساس زیاں میں رونے والی آنکھ رب تعالٰی کو پسند ہے۔ یہ لوگ رب کے مقرب ہو جاتے ہیں۔ یہی لوگ ایمان کے اعلٰی درجات پہ فائز ہوجاتے ہیں۔ یہی طاقت بڑی طاقت ہے۔ جس میں احساس نہیں اسے کیا کہیئے۔
“اخفاء پسندی و بیزارِ دہر”
کہانیوں میں ہم نے سلاطین کو بھیس بدل کر عام لوگوں میں گھلتے ملتے سنا ہے۔ عام ہوکر رہنا خاص ہونے سے کہیں بہتر ہے۔ وہ جو پبلک فگر ہیں کہتے ہیں کہ کاش ہمیں کوئی نہ جانتا، بابا بلھے شاہ نے بھی یہی تو فرمایا تھا۔ ” نہ کوئی ساڈی ذات پہچانے نہ کوئی سانوں منے”
آج مسند اقتدار پہ بیٹھنا یا قابض ہوجانےنے کو لوگ بڑی طاقت کہتے ہیں۔ کتنے مضبوط ہیں وہ لوگ جو شہرت کو آفت مانتے ہوئے، خود کو چھپانے کو عقلمندی اور اپنی طاقت مانتے ہیں۔ میں نے یہ حدیث پاک پڑھی تو دل کو قرار آیا ” عہدے کا حریص خائن ہے”، یعنی جو عہدے کا حرص رکھتا ہو وہ خیانت دار شخص ہے۔ خیانت داری داغ ہے، کمزوری ہے۔ جبکہ مافیہا الدنیا سے بیزاری بڑی طاقت ہے۔ آپ کسی بھی ایسے شخص کو جھکا نہیں سکتے جس کا دل نمود و نمائش اور برتری کے شوق سے پاک ہے۔ پڑھیئے، ایک فقیر ایک ایسی سڑک کے بیچ بیٹھا تھا۔ جہاں سے بادشاہ وقت کا لاؤ لشکر گزرنا تھا رستے میں فقیر بیٹھا دیکھ کر سلطان کا محافظ گھوڑے سے اترا اور جھڑکنے کے انداز میں کہا اٹھ یہاں سے، فقیر نے کہا، بادشاہ نے گزرنا ہے تو اتنی جگہ پڑی ہے وہاں سے گزر جائے۔ میں نہیں اٹھوں گا۔ محافظ نے فقیر کا بازو پکڑ کر حقارت سے اٹھانے کی کوشش کی تو بادشاہ خود منظر دیکھ کر گھوڑے سے اتر آیا اور محافظ سے پوچھا کیا بات ہے۔ محافظ نے فقیر کی ضد بارے بتایا، اب بادشاہ نے فقیر سے مخاطب ہونے سے پہلے فقیر کو ایک تھپڑ جڑ دیا۔ فقیر ہنسنے لگا بادشاہ نے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔ تو فقیر نے کہا، تو میرے غلام کا غلام ہے۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے۔ فقیر بولا، نفس میرا غلام ہے اور تو نفس کا غلام ہے۔ بڑے لوگ خود کو چھپاتے ہیں۔ کمینے خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہی فرق ہے طاقتوراور کمزورکا۔
طاقت ور ہونے کی یہ فہرست کافی طویل ہے کہ شاید ایک کتاب ہو جائے، لیکن بلاگ کتاب نہیں ہوتا، لہٰذا باقی باتیں آئندہ پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی کافی ہے اگر ہم مندرجہ بالا خوبیوں سے طاقتور ہونے کی کسی ایک خوبی کو اپنانے کا آغاز کرلیں۔۔واللہ اعلم۔۔(شکیل احمد بازغ)۔۔