تحریر: سید رضوان عامر
اسٹیٹ بینک نے اچانک شرح سود ایک فیصد بڑھادی۔۔پاکستان میں بنیادی شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح بائیس فیصد پر جا پہنچی ہے۔۔اسٹیٹ بینک نے رواں ماہ ہی شرح سود اکیس فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم دو ہفتے بعد ہی اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرتے ہوئے اچانک ماینٹری پالیسی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اور شرح سود ایک فیصد بڑھانے کا اعلان کردیا۔۔اسٹیٹ بینک کے فیصلے کے بعد پاکستان میں بنیادی شرح سود 22 فیصد کی بلندترین سطح پر جا پہنچی جبکہ پاکستان پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شرح سود اور مہنگائی کی شرح والا ملک بھی بن چکا ہے۔۔مانیٹری پالیسی کمیٹی کی اہلیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔۔۔
اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافے کا جواز پیش کرتے ہوئے اعلامیے میں کہا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں حالیہ تبدیلیوں کے تحت ٹیکسز اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں دس روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا ہے جس سے ممکنہ طور پر مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے اس لئے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود بڑھانی پڑی۔۔۔تاجر برادری نے شرح سود میں اضافے کو مکمل طور پر مسترد اورفیصلے پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے ورنہ کاروبار اور صنعتوں کو تالے لگ جائیں گے۔۔۔۔
معاشی حلقوں میں شرح سود اچانک بڑھنے کے پیچھے آئی ایم ایف کی شرط کو قرار دیا جارہا ہے اور اس کو حکومت کے ہر حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کرنے سے جوڑا جارہا ہے۔۔۔ شرح سود بڑھانے سے صرف تین دن قبل اسٹیٹ بینک نے اپنے پاس صرف ساڑھے تین ارب ڈالر کے کم ترین ڈالر ذخائر رہ جانے کے باوجود آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلئے تمام قسم کی درآمدات پر سے پابندی اٹھالی ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک ماہ کی درآمدات کے برابر بھی ڈالر کا ذخیرہ نہیں ہے۔۔۔
ماہرین اسٹیٹ بینک کے شرح سود بڑھانے کی دلیل پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا گھٹنا بڑھنا قیمتوں پر منحصر ہوتا ہے جس کا شرح سود سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا جبکہ شرح سود بڑھنے کا سب سے بڑا نقصان خود حکومت کو ہوتا ہے جس کے قرضوں پر بیٹھے بٹھائے سود کی مد میں اربوں روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اسٹیٹ بینک ہر بار یہ کہہ کر شرح سود بڑھاتا ہے اور اسے 7 فیصد سے 22 فیصد پر پہنچا چکا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے شرح سود بڑھائی جارہی ہے تو پھر پاکستان میں مجموعی مہنگائی 38 فیصد اور غذائی اشیا کی مہنگائی 45 فیصد کے ریکارڈ بنارہی ہے کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرض کچھ اور ہے اور اسٹیٹ بینک صحیح تشخیص نہ کرکے خود اپنی ساکھ دائو پر لگا چکا ہے بقول شاعر ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔ (سید رضوان عالم)۔۔