تحریر: ڈاکٹر مجاہد منصوری۔۔
پاکستانی یونیورسٹیوں میں کمیونیکیشن اسٹڈیز کے شعبوں کی توجہ شدت سے مطلوب ہے کہ وہ تحقیق و تدریس کے عمل میں تیزی سے ظہور پذیر ’’سٹیزن جرنلزم‘‘ کو اولیت دیں۔ فقط دو سال میں مقبوضہ کشمیر کو 10لاکھ فوج سے محصور کرکے دنیا، حتیٰ کہ بھارتی مین لینڈ سے بھی کاٹ دینے کے بعد غزہ کی سول آبادی پر گیارہ روزہ اسرائیلی ناکے اور فضائی بمباری کے حوالے سے عالمی آبادی کے عام شہریوں خصوصاً نوجوانوں کے بنائے، چلائے سٹیزن جرنلزم کی اہمیت اور حساسیت میں بےپناہ اضافہ ہوا ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہوا اس نے سیاسی اور عالمی امن و سلامتی خصوصاً بین الاقوامی تعلقات اور ابلاغیات کے حوالے سے دنیا کو کتنے ہی سبق دیے۔ انہیں پڑھنا، سمجھنا اور اس سے پاکستان کے امن و استحکام و سلامتی و دفاع، سماجی رویوں اور حکومتی کارکردگی کے معاملات کو مطلوب شکل میں لانا، ہماری ترجیحی قومی ضرورت بن گئی ہے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ نئی صورتحال پر یونیورسٹیوں، مختلف علمی و تحقیقی اداروں اور تھنک ٹینکس کی جانب سے ویبینار، گروپ ڈسکشنز اور ریسرچ آرٹیکلز کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں، فارمیسی کے استاد ڈاکٹر ذیشان دانش نے ایسے اہم موضوعات پر برین اسٹارمنگ اور علمی بحث و مباحثے کے لئے ’’گروپ آف انٹلیکچوئلز اینڈ ریسرچرز‘‘ تشکیل دیا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد نیاز اختر کووڈ بحران میں ایسی علمی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی پالیسی اختیار کر کے نیم ویران کیمپس کے اکیڈمک کلچر کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں اور پنجاب یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کی جانب سے آن لائن کلاسز کے ساتھ وقت کے چیلنجز کے حوالے سے متعلقہ موضوعات پر ویبینارز، محتاط گروپ ڈسکشنز اور نئی اکیڈمک پلاننگ کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈاکٹر ذیشان دانش نے ’’غزہ میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی، پس منظر، پیش منظر اور نتائج‘‘ کے موضوع پر ایک علمی نشست کا اہتمام کیا۔ چونکہ انٹرنیشنل مین اسٹریم میڈیا کے روایتی خبری سلسلے سے اتنا تو واضح ہوگیا تھا کہ حماس اور اسرائیل کی حالیہ گیارہ روزہ جنگ کی فوری اور اصلی وجہ اختتامِ رمضان پر مسلح اسرائیلی پولیس اور انتہا پسند صیہونیوں کا مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر کے یہاں عبادت کے لئے جمع فلسطینیوں کو باہر نکال کر اس پر قبضے کا مذموم عمل شروع کرنا تھا،پھر چند روز سے ایسٹ یروشلم میں یو این زون کےشخ جراح کے علاقے میں صدیوں سے آباد خاندانوں کو بے گھر کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ گویاحماس، اسرائیل جنگ، جس سے بوکھلائے اسرائیل نے جان چھڑانے کے لئے غزہ کی سول آبادی پر وحشیانہ بمباری کے رگ و پے میں بسا مذہبی جنون ہے جو آج کے عالمی امن، سیاست و معیشت کو خطرناک انداز میں اور عالمی سماج کے تشکیل پذیر انسان دوست رویوں میں بڑی تشویشناک رکاوٹ ہے۔ جمہوریت و انسانیت پر یقین رکھنے والے مغربی اسکالرز خصوصاً شوگر کوٹڈ سیکولر ازم سے احساس کمتری میں مبتلا ’’مشرقی ثنا خوانِ مغرب‘‘ کو اس عالمی پیچیدگی کی حقیقت سمجھانا مشرق خصوصاً مسلم دنیا کا سب سے بڑا علمی چیلنج ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی متذکرہ گروپ ڈسکشن میں اسی لئے زیربحث موضوع کے گہرے تاریخی، مذہبی اور طویل پس منظر سے ٹو دی پوائنٹ آگاہی کے لئے مسجد اقصیٰ کی جگہ (یہودیوں اور صیہونیوں کے فرق کے ساتھ) تھرڈ ٹیمپل بنانے کے سیاسی، مذہبی جنون سے آگاہی کے لئے ممتاز مذہبی اسکالر علامہ ابتسام الٰہی کو مدعو کیا تھا جنہوں نے کمال مہارت سےشرکاء کی علمی ضرورت کو پورا کیا۔ یہ نشست پروفیسر صاحبان کے انتہائی مفید مشترکہ تجزیے اور فوری ملی ضروریات کی نشاندہی کے ساتھ ناچیز کے Concluding Remarks پر اختتام پذیر ہوئی۔ پولیٹکل سائنس کے ڈاکٹر شبیر شاہ نے تاریخی علمی حوالوں سے واضح کیا کہ امریکہ اور پھر یورپ گزشتہ ڈیڑھ دو صدی میں جمہوریت اور نیشن اسٹیٹ (قوم کی بنیاد پر ریاست) کے انقلاب آفریں فلسفے کو عمل میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئے اور پوری دنیا میں ایٹ لارج اس کی حقیقت اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا، لیکن آج ٹرمپ، مودی اور نیتن یاہو نے اسے نسلی اور مذہبی تعصب سے سخت نقصان پہنچایا، جس سے جمہوریت اور عالمی امن کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ناچیز نے اپنے اختتامی کلمات میں واضح کیا کہ حالیہ حماس، اسرائیل جنگ میں حماس نے اپنے اچانک غیرمتوقع راکٹ حملوں کے جوابی حملوں سے اسرائیل کو بڑی سیاسی اور نفسیاتی شکست سےدوچار کیا، اس کو کائونٹر کرنے کے لئے تل ابیب نے حماس کی اسرائیل پر دہشت گردی کا بیانیہ بنایا، اسی کی آڑ میں خوف و دہشت پیدا کر کے اپنے ٹارگٹس حاصل کر نے کے لئے جو وحشیانہ فضائی بمباری غزہ کی آبادیوں پر کی، اسے رپورٹ کرنے کے لئے عالمی میڈیا موجود نہ تھا۔ الجزیرہ میڈیا ہائوس منہدم ہونے کے بعد غزہ ایٹ لارج تو ان رپورٹڈ ہوگیا،تاہم اس کے جواب میں موثر ترین ابلاغی حملہ جانوں کے خطرے سے دوچار اور لہو بہاتے فلسطینیوں نے منہدم دیواروں اور ملبے کی اوٹ سے اسرائیل کی دہشت گردی کو اپنے موبائل سے شوٹ کرتے ہوئے دیا، ان کا یہ سٹی جرنلزم دوررس نوعیت کے نتائج دنوں میں دینے والا ثابت ہوا۔ دنیا نے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کی اور اسے جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں اس کی تحقیقات کے لئے او آئی سی کی منظور قرارداد کی توثیق ہوئی۔ فلسطینیوں کا مورال سینکڑوں جانیں دینے اور ہزاروں زخمیوں کے بعد بلند ہوتا گیا اور اسرائیل ساری دنیا کے عوام میں دہشت گرد مانا گیا۔ بہت بڑا سوال ہے کہ کشمیر کیس میں سٹیزن جرنلزم اتنے بڑے نتائج کیوں نہیں دے سکا اور وہاں سٹیزن جرنلزم پر بھی پابندی کے نتائج کیا نکلیں گے؟ اس پر جلد برین اسٹارمنگ کی ضرورت ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔