تحریر: سید بدرسعید۔۔
کالم نگاری کے حوالے سے اب تک کا یہی مشاہدہ ہے کہ کالموں کا مجموعہ بکنا بہت مشکل ہے ۔ کالم نگاروں میں منفرد نثر لکھنے والے عرفان صدیقی تک کے کالموں کا مجموعہ مارکیٹ میں پٹ گیا تھا۔ عامر خاکوانی اور جاوید چودھری کے کالموں کی کتب نے مارکیٹ میں اچھی جگہ بنائی لیکن بنیادی طور پر وہ کالموں سے زیادہ داستان اور موٹیویشنل تحریریں ہیں جو کالموں کی جگہ شائع ہوئیں ۔ کالم کی خوبصورتی یہی ہے کہ بھلے اس کی عمر ایک دن ہوتی ہے اور یہ اخبار کے پرانے ہونے کے ساتھ ہی مر جاتا ہے یا پھر آئی سی یو میں چلا جاتا ہے لیکن اس ایک دن میں یہ کسی بھی دوسری تحریر سے زیادہ ڈسکس ہوتا ہے۔ سہیل وڑائچ صاحب کی کتاب دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی تھی ۔ وہ انتہائی منجھے ہوئے صحافی ہیں ۔ اخبار کے ایڈیٹوریل ہیڈ ہیں اور خود بھی خوبصورت انداز میں لپیٹ لپاٹ کر اپنا کالم پیش کرتے ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر ان کا یہ منفرد انداز تحریر پسند ہے ۔ ۔ ان کی صحافتی مزاج جارحانہ کی بجائے دوستانہ ہے اور وہ اسی دوستانہ انداز میں خطرناک سوالات پوچھ لینے کا ہنر جانتے ہیں ۔ ان کی جانب سے ایسے ٹائیٹل کو پاس کر دینا حیرت کا باعث بنا کہ جو ایڈیٹر دوسروں کے کالموں میں سے سنگین جملے کاٹ دیتا ہو وہ خود ایسی بھول کیسے کر سکتا ہے۔ دوسری جانب جیسے ہی اعتراض ہوا انہوں نے فورا اعتراض کو تسلیم کرتےہوئے نئے ٹائیٹل کے ساتھ کتاب لانے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے اس حوالے سے مزاحمت کار یا ہیرو بننے کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے نہ تو اختلاف کیا اور نہ ہی کوئی اینٹی بیان دیا بلکہ انہوں نے مصالحانہ انداز میں فورا ہی ٹائیٹل تبدیل کرنے کی حامی بھر لی ۔ ظاہر ہے اب ان کی کتاب مختلف ٹائیٹل کے ساتھ آئے گی لیکن وہ کتاب جو انہیں بانٹنی پڑنی تھی یا بمشکل اس کا ایک آدھ ایڈیشن بکنا تھا اب اس کی ہزاروں یا لاکھوں کاپیاں بکتی نظر ۤ رہی ہیں ۔ وڑائچ صاحب جس طرح کالم پیش کرتےہیں کہ اسی طرح انہوں نے کمال انداز میں کتاب پیش کی ہے اور وہ جو کم بکنے والی تھی اسے بیچ دیا ہے(سید بدر سعید)