پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں اور ووٹروں کو ’’حقیقی آزادی‘‘ مل گئی ۔ اب وہ پابند نہیں آزاد امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ مختلف جائزوں کے مطابق پی ٹی آئی کے حامی اکثریت میں ہیں۔ اب کے انہیں صرف انتخاب نہیں حسن انتخاب کرنا ہوگا۔اپریل 2022ءسے شروع ہونیوالے پی ٹی آئی کے امتحانات ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے ۔ سمسٹر بہت طویل ہورہا ہے،ممتحن بڑھتے جا رہے ہیں۔ آج 8فروری میں 20دن رہ گئے ہیں۔ معاملات الجھ رہے ہیں۔ لیکن معرکے کے کردار واضح ہوتے جارہے ہیں ۔سینئر صحافی و کالم نگار محمود شام نے سیاسی منظر نامہ بیان کر دیا ۔جنگ میں شائع ہونے والے اپنے تازہ کالم میں سینئر صحافی لکھتے ہیں کہ۔۔ مختلف جائزوں کے مطابق پی ٹی آئی کے حامی اکثریت میں ہیں۔ اب کے انہیں صرف انتخاب نہیں حسن انتخاب کرنا ہوگا۔ ان کو اپنا حافظہ بہت اچھا رکھنا ہوگا۔ انہیں دوسری پارٹیوں کے ووٹروں کی نسبت زیادہ آلات۔ زیادہ سبزیاں۔ زیادہ پھل میسر ہونگے۔ دوسری جماعتوں کے پاس صرف ایک ایک انتخابی نشان۔ ان عمرانیوں کے پاس سینکڑوں انتخابی نشان ہونگے۔ ۔ صرف دو ڈھائی ہفتے کی انتخابی مہم رہ گئی ہے۔ مد مقابل کی زرہ بکتر بھی اتار لی گئی ہے۔ سر سے آہنی خود بھی۔ اسکی وردی ایک نہیں رہنے دی گئی۔ لشکریوں سے غلط فہمی کی امیدیں بھی کی جارہی ہیں۔8فروری پولنگ ڈے تک پھر ووٹوں کی گنتی۔ نتائج کے اعلان تک مختلف پلان بنالیے گئے ہیں۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ کہنےکو ایک پارٹی سربراہ جیل میں ہے اسکے اپنے حامیوں سے رابطے نہیں ہیں ۔ مگر دیکھیں تو سب کے راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ دوسرے پہلے سے ہی عوام سے ملنے پر یقین نہیں رکھتے۔ صرف ’’بے نشاں‘‘ پی ٹی آئی ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اسکا آئین اور اسکی جزئیات کا مطالعہ ریاست کے ستونوں میں اتنی باریک بینی سے کیا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین کو رشک آرہا ہے کہ کاش مجھے بھی یہ ادارے اتنی ہی دلچسپی سے پڑھتے۔ملک بھر میں یہ سوال ہے کہ اب کیا ہوگا۔ وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔ مدعی لاکھ چاہے کہ مقابل کیساتھ برا ہو۔ لیکن تدبیر کند بندہ۔ تقدیر زند خندہ۔ مستقبل ضروری نہیں ہے کہ وہ ہو جس کی منصوبہ بندی کلیدی عہدوں پر براجمان شخصیتیں کررہی ہیں۔ ووٹرز بہت باشعور ہوگئے ہیں۔ اب سوشل میڈیا ذہن بنارہا ہے۔ جہاں ایک ایک لمحے تقدیربدلتی ہے۔ سوشل میڈیا ایسی خوفناک طاقت بن گیا ہے کہ بڑے بڑے آمر۔ مافیاز زمین بوس ہوگئے ہیں ۔ پاکستان کی اکثریت پہلے ہی سیاسی سماجی طور پر خبردار تھی۔ جفاکش تھی۔ کونسی ایسی قوم ہوگی جس نے 76سال تک اتنے جبر۔ اتنی نا انصافیاں برداشت کی ہیں۔ پھر بھی گزارہ کررہی ہے۔ آبادی میں اضافہ کررہی ہے۔ بچوں کو مہنگے سکولوں میں پڑھارہی ہے۔ کرپٹ افسروں کو ہر روز برداشت کرتی ہے۔ گندا پانی پیتی ہے۔ آس پاس کچرے کی کنڈیاں دیکھتی ہے۔ پھر بھی اچھے روشن دنوں کی امید رکھتی ہے۔
سوشل میڈیا ذہن سازی کررہا ہے، محمود شام۔۔
Facebook Comments