تحریر:امیر محمد خان
چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے جمعہ کو پاکستان کے بارے میں سائبر اسپیس میں غلط معلومات پھیلانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سوشل میڈیا پر بے چینی کا ماحول پیدا ہو رہا ہے اور یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ ریاست آہستہ آہستہ بے نقاب ہو رہی ہے۔ پاکستان کے بارے میں افواہیں اور منفی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ یہ فضا سوشل میڈیا اور جعلی خبروں کے ذریعے بنائی جارہی ہے آرمی چیف نے قران و سنت کے حوالوں سے اور پاکستان کے قیام کے حوالے سے متعدد حوصلہ افزا باتیں کیں انہوںنے کہا کہ پاکستان پر انگلیاں اٹھانے والے اپنے ہی لوگ کیوں واقف نہیں کہ انسانیت کی پوری تاریخ میں دو ریاستیں اسلام اور کلمے کی بنیاد پر بنی ہیں۔ ایک ریاست طیبہ اور دوسری ریاست پاکستان۔ دوسری قدر مشترک ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کی یہ ہے کہ ریاست طیبہ کیلئے بھی پہلے ہجرت حبشہ اور پھر ہجرت مدینہ ہوئی جبکہ پاکستان کیلئے بھی لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی۔ ایک اور قدرمشترک یہ ہے کہ یہ دونوں ریاستیں ستائیس رمضان المبارک کو معرض وجود میں آئیں۔ سعودی عرب کو بھی اللہ نے قدرتی نعمتوں سے نوازا لیکن پاکستان کو بھی بے تحاشا نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہمارے پاس برف سے ڈھکے گلیشیرز اور صاف پانی کے دریا ہیں۔ ذرا عربوں سے پانی کی اس نعمت کی اہمیت کے بارے میں پوچھ لیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے پاس ہے۔ ہمارے پھلوں مثلاً آم، کینو وغیرہ کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ سندھ کے صحرائوں کے نیچے جو معدنیات ہیں اسکی مالیت کا تخمینہ چار کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے معدنی ذخائر کا تخمینہ چھ کھرب ڈالر ہے۔ ہم نے اگر ان نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا تو قصور ہمارا ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیت کہ ”اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے“ جنرل عاصم منیر کی حوصلہ افزاء باتیں سنکر ہر محب وطن پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب یہ سب کچھ ہے جو حقیقت ہے تو پھر ہماری حیثیت کرئہ ارض پر کیوں کم سے کم ہے، جب ہم گریبان منہ ڈال کر دیکھتے ہیں تو آنکھوں میں ستر سال سے قابض سیاسی لوگ کی تصویر آ جاتی ہے ان اشرافیہ کی تصویر بھی آ جاتی ہے جو اس ملک کو دیمک کی طرح چا ٹ گئے ہیں اور تاحال چاٹ رہے ہیں الیکشن کے نام پر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور ہوا کا رخ دیکھ کر ایک جماعت سے دوسری جماعت میں کود رہے ہوتے ہیں۔ آرمی چیف نے جس سوشل میڈیا کا ذکر کیا وہ اس ملک میں گزشتہ دوسال میں بھر پور گند پھیلا رہا ہے جس میں جھوٹی خبریں، پاکستان کی بہادر افواج پر الزام تراشیاں، انکے کارٹون، سب شامل ہیں۔ اور یہ سب کچھ پاکستان کے اندر سے نہیں باہر سے ایک منظم انداز میں ہو رہا ہے اور اس سوشل میڈیا کے ذریعے ہی 9 مئی بھی تھا، آرمی چیف سوشل میڈیا کے ساتھ انکا بھی تذکرہ کرتے تو بہتر ہوتا کہ ملک کے پرائیویٹ چینلز کو چھوڑ دیں، کم از کم سرکاری ٹیلی ویثن پر ہی توجہ دے لیں جو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ہمارے بہترین دوست ممالک کیلئے بھی شکوک شبہات پھیلا رہا ہے گزشتہ دنوں اس سرکاری ٹی وی نے جسطرح غیر سرکاری انداز میں زہریلی خبر نشر کی اس کا کس نے نوٹس لیا؟؟؟ ذمہ دار سے کیا پوچھ گچھ ہوئی؟ کیا سزا دی گئی؟؟ اگر کچھ نہیں ہوا تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ دوبارہ مزید پھیلانے کی کوشش نہیں ہوگی، اور جب سرکاری نشریاتی ادارے ہیں اس بات پر گامزن ہیں تو پھر ملک کے باہر بیٹھے سوشل میڈیا سے کیا شکوہ ؟؟؟ گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے مستحسن اعلان کیا کہ 2024ء نئے سال پر جشن کو محدود رکھیں چونکہ ہمیں فلسطینی بھائیوں پر ہونے والے مظالم پر انکے دکھ میں شامل ہونا چاہئے ایک تو نہ جانے ہم اگر مسلمان کہتے ہیں تو ہم انگریز کا نئے سال پر کیوں جشن مناتے ہیں یہاں میں ان دوستوں سے معافی چاہتا ہوں جنہوں نے واٹس اپ کے ذریعے مجھے بھی نئے سال کی مبارکباد بھیجی میں انہیں اس لئے واپسی مبارکباد دینے سے قاصر رہا کہ میرا نیا سال ”یکم محرم“ ہے ۔ وزیر اعظم کے اعلان کے بعد یہ امید تھی کہ ہم پاکستان میں کم از کم نہایت سادگی سے اس نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہے ہونگے مگر پاکستان کے دسیوں چینلز ہر شہر کا جشن بتا رہے تھے ناچ گانے تھے ، ہلڑ بازی تھی، ہوائی فائرنگ تھی چینلز سب دکھا رہے تھے beeper دینے والے حضرات وزیر اعظم کی لاج رکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم کے حکم کے تحت عوام نہایت سادگی سے غزہ فلسطین کی حمائت میں نیا سال منا رہے ہیں دیکھنے والے ہنس رہے تھے چونکہ پشت پر سڑکوں اور میدانوں میںہونے والے میوزک پروگراموں کا بے ہنگم شور تھا۔ کیا تماشا تھا؟؟ دنیا ہنس رہی تھی۔ یہاں پھر مجھے آرمی چیف کی گزشتہ جمعہ کی تقریر جو انہوں نے کسان کنونشن میں کی تھی یا د آتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے لگے۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر ہندو تہذیب کو اپنا لیتے۔ یہ ملک تو ہم نے اس لئے بنایا تھا کہ یہاں ہم اپنی ثقافت اور دین کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ان حقائق کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے مایوسی اور ہیجان کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ اس لئے میں سوشل میڈیا کو شیطانی میڈیا کہتا ہوں۔ یہ سوشل میڈیا آپ سے وہ سارے کام کراتا ہے جس سے ہمارے مذہب اور ثقافت نے منع فرمایا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہے کہ: ”اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو بے جا ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جائو“۔ یوں اللہ خبر کو پھیلانے سے قبل تحقیق کا حکم دیتا ہے لیکن سوشل میڈیا بغیر تحقیق کے جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے۔ اس میں تحقیق کا آپشن نہیں بلکہ فارورڈ، کٹ اور پیسٹ کے آپشن ہوتے ہیں۔اسی طرح قرآن میں اللہ نے ہدایت کی ہے کہ ”ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائو اور القابات سے نہ پکارو“ لیکن سوشل میڈیا میں گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور جب ہم یہ حرکتیں کریں گے تو اللہ کی نعمت کیوں ہماری طرف آئے گی؟ بدقسمتی سے نعمتوں سے مالامال یہ ملک اس وقت مافیاستان بن چکا ہے اور ان مافیائوں کی سرکوبی کیلئے ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا۔ فوج نے اس لئے گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے مایوس نہیں ہونا ہے کیونکہ مایوس صرف کافر ہوتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ: ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا ہے“۔ اللہ ہی نے ہمیں صبر کا درس دیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہم اگر صبر اور شکر سے کام لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
انہوں نے قرانی حوالہ دیا کہ ”اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرما دیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے“۔ محب وطن لوگ آرمی چیف کی تقریر کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں مگر جناب فروری میں ہونے والے انتخابات سے کوئی امید ہے؟؟ کوئی جماعت ایسی ہے جو عوام کو تلقین کرے گی ان باتوں کی؟؟ یا ہر مرتبہ یہ باتیں صرف عسکری قیادت کی کرنا پڑینگی؟ 9مئی ایک سیاہ دن تھا اس سے انکار نہیں مگر کیا کسی کو سزا ہوئی؟؟ سزا میں تاخیر منفی سوشل میڈیا کو حوصلہ فراہم کرتا ہے کہ وہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کریں، دنیا میں پاکستان رسوا کریں۔(بشکریہ نئی بات)۔۔