تحریر: افضال ریحان۔۔
ان دنوں ایک شور ہے کہ سوشل میڈیاہر چینل، ہر طاقت ، ہر چیز پر چھا گیا ہے باقی سب دبکتے یا کارنر ہوتے چلے جا رہے ہیں حتیٰ کہ کتاب یا تحریک کی اثر آفرینی کے سامنے بھی فی زمانہ سوشل میڈیا سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے ۔سوشل میڈیا کے ناقدین کا اصرار ہے کہ یہ شتر بے مہار ہے جسے فوری طور پر قواعد و ضوابط یا قوانین کی نکیل ڈالی جانی چاہئے ۔…سوشل میڈیا درحقیقت ہمارے سماج کی آواز یا طاقت ہے اب جیسا سماج ہوگا ویسی ہی آوازیں آئیں گی، جیسا دودھ ہو گا ویسی ہی کریم نکلے گی ، آج اگر آپ کی توقع کے مطابق کریم نہیں نکل رہی یا اس میں فاسد مادے ہیں تو ایک کھوجی کی طرح ڈھونڈ لیں کہ اس دودھ میں یہ مضر صحت کیمیکلز یا بے تحاشا پانی کی ملاوٹ کس کس عظیم ہستی، نام نہاد دانشور یا بے لگام مبلغ نے کی ہے ۔
اس نوع کی اپروچ کہ ظالمانہ قوانین سازی کے ذریعے سماج کی اس نمائندہ یا غیر نمائندہ آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے ایک آمرانہ ذہنیت کی عکاسی کے سوا کچھ نہیں اور نہ ہی آپ بزورِ لٹھ اسے دبانے کا یارا رکھتے ہیں ایسے نیکو کاروں کیلئے مفت مشورہ ہے کہ وہ طالبان جیسے استبدادی سماج میں شاید خوش رہیں، کسی بھی جمہوری و آزادسماج کیلئے ایسی ذہنیت شہد میں سرکہ کی مانند ہو گی ۔یہ عاجز عرض گزار ہے کہ سوشل میڈیا کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی البتہ اس کے فائدے نقصانات سے کہیں زیادہ اور بھاری ہیں عقل والوں کیلئے اس میں بڑی نشانیاں یا انفارمیشن کے خزینے ہیں ۔بارہا یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہماری نئی یا اصلی زندگی کا آغازہی اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ کی ہوشربا ترقی سے ہوا ہے جس نے ہمیں لائبریریوں کے روایتی قصد و خبط سے بڑی سے بڑی حد تک مکتی دلا دی ہے اور اب ایک بٹن دبانے پر معلومات یا نالج کا فلڈ ہماری دسترس میں ہے بالخصوص وہ حقائق جن تک عام آدمی کی رسائی نہیں تھی یا جن کا اظہار قابلِ گردن زدنی خیال کیا جاتا تھا اب کچھ بندشوں یا حفظ ماتقدم جیسے سیکورٹی اہتمام کے ساتھ دسترس میں ہے۔سوشل میڈیا یا سماج کی آواز پر جو صالحین، ناک بھوں چڑھاتے ہیں ان کی اس غلط فہمی کا ازالہ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہماری سوسائٹی میں بگاڑ پھیل رہا ہے حالانکہ سچائی یہ ہے کہ یہ بگاڑ یا خرابی چاہے اسے جو بھی نام دے لیں پہلے سے سوسائٹی میں موجود تھی اور موجود ہے جسےآپ لوگوں نے اخلاقی لبادوں سے محض ڈھانپ رکھا تھا یا آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ترقی نے ان لبادوں کی نقاب کشائی کی ہے۔۔
کچھ حقائق کی مزید تفہیم کیلئے ہمیں اپنی اسلامی یا مسلم سوسائٹی یا سماج کا تقابل جدید مغربی سوسائٹی یا سماج سے ضرور کرنا چاہئے۔ عاجز نےکافی عرصہ قبل اس نوع کی کاوش ’’اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب ؟‘‘ کے ٹائٹل سے کی تھی ،آج ہمیں اگر مغرب میں سائنٹفک علمی و فکری ترقی نظرآتی ہے اور اپنے پاکیزہ سماج میں تنزلی و جنونیت ہمیں پریشانی میں ڈالتی ہے تو ایک مرتبہ ہمیں اپنی اور ان کی روش کا ضرور جائزہ لینا چاہئے ۔ مغرب کی مضبوط بنیادوں میں سب سے زیادہ قدیم یونانی فلاسفرز کی محنت ، عقلیت پسندی اور عرق ریزی کی طاقت ہے اور پھر ان کے عظیم الشان جدید فلاسفرز، جنہوں نے عقل و منطق، شعور و استدلال کے ساتھ انسان نوازی کو اپنے وژن کی بنیاد بنایا آج اسی کا مظہر و عکس ہمیں مغربی سوسائٹی میں چھایا دکھائی دیتا ہے جبکہ ہمارے جتنے بھی مدبرین و علماء و فقہا تشریف لائے سوائے چند ایک کے جن کی درگت خود ہمارے لوگوں نے ایسی بنائی کہ غیروں کی کمی محسوس نہ ہوئی ۔شاہ ولی اللہ تو ابھی کل کی بات ہیں جنہیں ہمارے مدبرین میں اچھا خاصا روشن خیال سمجھا جاتا ہے جنہوں نے کتاب مقدس کا پہلا فارسی ترجمہ کیا تو فتاویٰ کےتیروں کی زد میں آگئےلیکن حضرت شاہ صاحب آج بھی ہماری روایتی مسلم سوسائٹی میں سرسید جیسے عقلیت پسندی کے علمبردار سے کہیں زیادہ پاپولر ہیں۔ حضرت علامہ اقبال کے بارے میں ان کے لاڈلے بیٹے جاوید نے اگر عقل و شعور کی کچھ باتیں کی ہیں تو ہمارے سماج میں اگر مطعون نہ بھی کئے جاتے ہوں انہیں اچھا پھر بھی نہیں سمجھا جاتا۔اپنے سماج یا سوشل میڈیا پر تنقید کے تیر و نشتر چلانے سے قبل اس امر پر غور ضروری ہے کہ ہمارے موجودہ سماج کی تشکیل میں کس کا کتنا یا کیا کردار ہے؟درویش کا پہلا دھیان محلے کے مولوی صاحب کی طرف جاتا ہے جن کے فرمودات کو اسکول ماسٹر کی باتوں سے کہیں زیادہ تقدس حاصل ہے لیکن اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمارے سماج کی موجودہ تشکیل میں بیسیوں عناصر سامنے آئیں گے مگر فی الحال ہم محض پانچ کے رول پر اکتفا کرتے ہیں سب سے پہلے ہمارے مدارس یا اسکولوں کا روایتی اور قدامت پسندانہ نصاب ہے جس کا پشت پناہ ہمارا نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا محافظ ادارہ ہے اور کسی میں اتنی تاب نہیں کہ سرتابی کی جسارت کر سکے۔
پھر ہمارا الیکٹرانکس اور پرنٹ میڈیا آ جاتا ہے جہاں تقدس کے نام پر ہر رطب و یابس سند ہے لیکن کہیں عقل کی کوئی بات آ گئی تو گویا بخار چڑھ جائے گا مابعد ہمارے شعرا و ادیب آ جاتے ہیں جن کا اثرو رسوخ وقت کے ساتھ کم سے کمتر ہوتا جا رہا ہے اگرچہ اقبال جیسے بڑے شاعر کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ہمارے لوکل چوہدری صاحبان یا لیڈران کا بھی اپنے اپنے محدود ایریاز میں اثر ضرور ہے مگر یہ زیادہ تر میڈیا یا مولوی صاحبان کو فالو کرتے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ جب سکھایا ہی یہ گیا ہو کہ عقل عبار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے تو پھر اس کے زیر اثر جنون ہی ابھرے گا اور چرب زبان ہی اس سماج کی فکری و عملی قیادت ہجوم کو پیچھے لگائے یا سوشل میڈیا میں چھائے دکھائی دیں گے۔(بشکریہ جنگ)۔۔