bohot saray social media influencers jhoot dikha rhe

سوشل میڈیا سے خائف جغادری صحافی

تحریر: حافظ شفیق الرحمن

یہ ایک مسلمہ صداقت اور حقیقت-ثابتہ ہے کہ نجم سیٹھی ، کامران خان  ، مجیب الرحمٰن شامی ، انصار عباسی ، شاہ زیب خانزادہ ، صالح ظافر ، نجم سیٹھی ، سلیم صافی ، کامران شاہد ، منیب فاروق ، ابصار عبد العلی ، افتخار احمد ، سہیل وڑائچ ٹائپ جغادری صحافیوں کا دور لد گیا۔ یہ تین عشروں سے بلیک میلنگ ، جھوٹ ، مفاد پرستانہ اور من چاہی صحافت کے الاؤ دہکا کر یہ سمجھتے رہے کہ وہ مافیاز کے گاڈ فادرز کے حق میں  ذہن سازی کرنے میں کامیاب رہے۔ اس غلیظ  صحافت کو مذکوران نے پلاٹوں ، الاٹوں ،  پٹرول پمپوں اور ملکی و غیر ملکی کرنسی سے بھرے بریف کیسوں کے حصول کا ایک کلیدی ذریعہ بنا رکھا تھا۔ اس طرز صحافت کی نشو و نما میاں محمد نواز شریف اینڈ کمپنی نے کی۔ ان میں سے اکثر دسترخوان-شریفیہ کے قدیمی راتب خور ہیں۔ پری سوشل میڈیا ایج میں یہ میڈیا کے ہرکولیس ، ٹارزن اور سیمسن بنے ہوئے تھے۔ بزعم خویش ان میں سے ہر ایک اپنی چرب زبانی کی بدولت افلاطون اعظم اور ارسطوئے دوراں تھا۔ سوشل میڈیا نے ان کی اجارہ داری کا ہر چھوٹا بڑا بت چکنا چور کر دیا ہے۔ ٹوٹے پھوٹے سومنات کے  یہ مہنت نئے آقآؤں کی تلاش کر رہے ہیں ، عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ابن بطوطوں کی قیادت میں۔ ویسے یہ تمام تمام اسٹیبلشمنث کے مرغان دست آموز ہیں۔ شاہ سے بھی زیادہ شاہ کے وفادار نعرے لگا رہے ہیں کہ “ہم نے ہر دور میں بوٹوں والی سرکار کی خدمت کی ہے ” ۔

نسل نو کے نزدیک یہ “گزرے وقتوں کے عبارت ” ہیں اور عجائب گھر میں ہیں۔

سوشل میڈیا کے عروج کے اس دور نے غریب اور عام پڑھے لکھے شخص کو مذکورہ کرداروں سے کہیں بڑا تجزیہ کار بنا دیا ہے۔ اب وہ تجزیوں کے عنوان سے ان کی ژاژ خائی ۔ ہرزہ سرائی اور یاوہ گوئی کو پر-کاہ اتنی بھی اہمیت نہیں دیتا۔  سوشل میڈیا کے طوفان – بلاخیز کی تند رو یلغار ان کی گٹر صحافت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی اور رزق فنا بنا دیا۔ سوشل میڈیا کی سپرا میسی کا عالم یہ ہے کہ  اس وقت پاکستان میں 50 ملین (5کروڑ) فعال سوشل میڈیا صارفین ہیں۔ 183 ملین (اٹھارہ کروڑ 30 لاکھ ) موبائل صارفین تو سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز کی طرف نگاہ غلط انداز اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں 43 ملین (4 کروڑ 30 لاکھ)آبادی کو نیٹ کی سہولت بھی میسر ہے۔ اس سہولت اور  صارفین نے  پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دور کی روایتی صحافت کی  بساط لپیٹ دی ہے۔ ان زمینی حقائق سے بوکھلا کر گندی صحافت کے پرچم بردار جغادری لفافہ صحافی اور ان کے سرپرستوں نے سوشل میڈیا کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ اب مذکورہ بالا صحافیوں کا کوئی قاری ہے نہ ناظر ۔۔۔ اگر ہے بھی تو اکا دکا ۔۔۔ سوشل میڈیا نے ان کے مکروہ چہروں پر پڑے تقدس کے تمام نقاب نوچ دیے ہیں۔ بے چارے تصویر-بے بسی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں نام نہاد قومی روزناموں اور سرکاری و نجی ٹی وی چینلز کے مالکان کے لیے جائے ماندن ہے نہ پائے رفتن۔(حافظ شفیق الرحمان)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں