social media protection regulatery or is ke ikhtiyarat

سوشل میڈیاپروٹیکشن ریگولیٹری اتھارٹی اور اس کے اختیارات۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت حکومت ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرے گی۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ریگولیٹری اتھارٹی کو کئی اختیارات حاصل ہوں گے۔ اتھارٹی کا ہیڈ آفس اسلام آباد میں ہوگا۔ اتھارٹی صوبائی دارلحکومتوں میں بھی آفس قائم کرسکتی ہے۔ترمیمی ایکٹ ڈرافٹ کے مطابق اتھارٹی جہاں چاہے اپنے آفس قائم کرسکتی ہے، سمپرا سوشل میڈیا پرعوام کی آن لائن سیفٹی کو یقینی بنائے گی۔ سمپرا کسی بھی سوشل میڈیا کو بلاک، اکاؤنٹ کو ڈیلیٹ کرسکتی ہے۔ سمپرا سوشل میڈیا کی گائیڈ لائن بھی جاری کرے گی۔ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ سمپرا سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا اسٹینڈرڈ بنائے گی، تمام صارفین کو سمپرا کے بنائے اسٹینڈرڈ پر عمل کرنا ہوگا۔ سمپرا کسی بھی شکایت پر ایکشن لینے کی مجاز ہوگی، سمپرا قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں کو بھی تعین کرے گی۔ سمپرا آن لائن سیفٹی کیلئے کسی دوسری اتھارٹی سے بھی مدد لے سکے گی۔ڈرافٹ میں کہا گیا کہ سمپرا بین الاقومی ایجنسیزکی بھی معاونت لے سکے گی، سمپرا اختیارات کی تکمیل کیلئے کانٹریکٹ سائن کرسکتی ہے، کوئی بھی شخص جعلی یا جھوٹی خبر کیلئے اتھارٹی سے رابطہ کرسکتا ہے۔ جانچ کے بعد سمپرا 24 گھنٹے کے اندر فیصلہ کرے گی۔ جھوٹی یا جعلی خبر کو بلاک یا پھر ڈیلیٹ کردیا جائے گا۔سمپرا چیئرپرسن اور 8 ارکان پر مشتمل ہوگی، سمپرا کے چیئرپرسن اور ارکان کا انتخاب 5 سال کیلئے ہوگا۔ سیکریٹری اطلاعات، پیمرا چیئرمین بھی سمپرا کے ارکان ہوں گے۔ پی ٹی اے چیئرمین یا انکا نامزد کردہ افسر بھی رکن ہوگا۔ بری کارکردگی پر وفاقی حکومت کسی بھی سمپرا رکن کو برطرف کرسکتی ہے۔ چیئرمین کے پاس اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو کے بھی اختیارات ہوں گے۔ سمپرا کے اخراجات کیلئے سمپرا فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔حکومت کی جانب سے گرانٹ بھی اس فنڈ کا حصہ ہوگی۔ اتھارٹی کی جانب سے لاگو فیس بھی اسی فنڈ میں آئے گی۔ کسی بھی دوسرے ذرائع سے آنے والا ریونیو بھی اس فنڈ کا حصہ ہوگا۔ سمپرا لوکل یا فارن کرنسی میں 1 یا زائد اکاؤنٹس کھول سکے گی۔ وفاقی حکومت جب چاہے سپمرا کو پالیسی سے متعلق ہدایات دے گی۔ کسی بھی تنازع کی صورت میں وفاقی حکومت کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ حکومت یا اس قانون کے تحت قائم کسی اتھارٹی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوسکے گی۔سمپرا ڈرافٹ کے مطابق عوام کو قانون ہاتھ میں لینے پر اکسانے پر کارروائی ہوگی۔ نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی ترغیب پر کارروئی ہوگی۔ سماجی زندگی میں رکاوٹ ڈالنے پر کارروائی ہوگی۔ نفرت انگزیزی، توہین مذہب، لسانی بنیاد پر ہنگامہ آرائی پر اکسانے پر بھی کارروائی ہوگی۔ قابل اعتراض تصاویر یا دیگر مواد پر بھی کارروائی ہوگی۔ ارکان اسمبلی، افواج یا عدلیہ کے خلاف زہریلے مواد پر بھی کارروائی ہوگی۔شکایات کیلئے سوشل میڈیا کمپلینٹ کاؤنسل قائم کی جائے گی۔ کمپلینٹ کاؤنسل کا ایک چیئرمین اور ارکان ہوں گے۔ وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیشن ٹربیونلز بھی قائم کرے گی۔ ٹربیونلز کے چیئرمین اور ارکان کا قیام 3 سال کیلئے ہوگا۔ اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص ٹربیونلز کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ ٹریبونلز کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ٹریبونلز کے فیصلے کے 6 روز کے اندر سپریم کورٹ جایا جاسکتا ہے۔متنازع پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر 3 سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ ہوسکتا ہے۔ وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی بھی قائم کرے گی۔ این سی سی آئی اے کے ڈی جی کا اختیار آئی جی پولیس جتنا ہوگا۔ این سی سی آئی اے کے افسران پولیس افسران تصور ہوں گے، این سی سی آئی اے کے قیام کے بعد ایف آئی اے کا سائبرکرائم ونگ ختم ہوجائےگا۔ این سی سی آئی اے فورینسک تجزیہ خود کرے گی۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں