تحریر: سید بدرسعید۔۔
اس وقت میرے بہت سے صحافی دوست یوٹیوب چینل ، ویب ٹی وی ، اور سوشل میڈیا پیجز کی جانب آ رہے ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ صحافی ، کری ایٹیو اور ایکٹیو بندے کے لئے یہ بہترین روزگار اور اظہار رائے کا اچھا ذریعہ ہے لیکن ضروری ہے کہ اسے کیس سٹڈی کے طور پر چیک کیا جاۓ۔ اس پر مکالمہ ہو اور ریسرچ کی جائے ۔ جانے کیوں مجھے لگتا ہے موجودہ حکومت جس ٹریک پر چل رہی ہے اس میں آگے چل کر ان دوستوں کو ایک بار پھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ ایران اور ترکی ہمارے سامنے کیس سٹڈی کے طور پر موجود ہیں ۔ ہماری سرکار نے بھی پیمرا کی طرز پر یا اس کی جگہ ایک نیا ریگولیٹری ادارہ بنانے کا عندیہ دے دیا ہے جو سوشل میڈیا کو بھی مانیٹر کرے گا ۔ اگلے روز ایک چینل کے مالک کے ساتھ انہی موضوعات پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت اگلے اقدام کے طور پر توہین رسالت یا کسی بھی واقعہ کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا پر پابندی لگا سکتی ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ ہم سعودی عرب ، ایران ، ترکی ، چین وغیرہ کی طرز پر کنٹرولڈ میڈیا کی جانب چل رہے ہیں ۔ وہ حالیہ میڈیا بحران اور کچھ دیگر واقعات کو اسی تناظر میں دیکھ رہے تھے ۔ سچ کہوں تو کافی حد تک مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ سرکار ”کنٹرولڈ میڈیا و سوشل میڈیا ” کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ اسی لیے اب جس نئی ریگولیٹری اتھارٹی کی بات ہو رہی ہے وہ سوشل میڈیا کو بھی مانیٹر کرے گی ۔ یہ الگ بحث ہے کہ ایسا ہونا مفید ہے یا نقصان دہ ہے لیکن اس پر ہمارے دانشوروں اور اسکالرز کو اپنی رائے ضرور دینی چاہیے ۔ (سید بدر سعید )