seedha faisla karen social media karden

سوشل میڈیا پر رؤف کلاسرا ٹارگٹ۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔۔

ٹویٹر یا فیس بک پر کئی ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں جب صحافیوں کسی مدے کو لے کر ایک دوسرے پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور کبھی کبھار سخت جملوں کا بھی تبادلہ ہو جاتاہے لیکن گزشتہ شب سینئر صحافی اعزاز سید اور روف کلاسرا کے درمیان ٹویٹر پر ’ جنگ ‘ چھڑ گئی اور دونوں نے ایک دوسرے پر الفاظی وار کیے جس میں کئی انکشافات بھی ہوئے ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی روف کلاسرا اور عامر متین ایک عرصہ سے ٹی وی چینل سے دور ہیں اور انہوں نے تقریبا ایک سال تک اپنا یوٹیوب چینل بھی چلایا لیکن اب ان کا ایک مرتبہ پھر سے معاہدہ ٹی وی چینل کے ساتھ ہو گیا ہے جس کے تحت اب وہ دوبارہ آن ایئر آیا کریں گے ، یہ خوشخبری انہوں نے اپنے سننے والوں کو ٹویٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے سنائی ۔ روف کلاسرا کے پیغام پر ریٹائرڈ جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی میدان میں آئے اور انہوں نے سینئر صحافی کیلئے پیغا م جاری کرتے ہوئے کہا کہ ” آپ کو بہت مس کیا جاتا تھا ، آپ کو واپس سکرین پر آتا دیکھ کر خوشی ہوئی ۔روف کلاسرا نے عاصم سلیم باجوہ کے پیغام پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ” آپ کے معاملے پر ہم نے تنقیدی وی لاگ بھی کیے لیکن اس کے باوجو د بھی جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اس طرح کے شفیق اظہار پر شکریہ ادا کرتے ہیں ۔

اب اصل معاملہ یہاں سے اس وقت شروع ہوا جب سینئر صحافی بھی اس دورڑ میں شامل ہوئے اور انہوں نے روف کلاسرا کے عاصم سلیم باجوہ کیلئے پیغام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ” اگر کسی نے جنااب کلاسرہ صاحب کا باجوہ صاحب کے حوالے سے کوئی ناقدانہ وی لاگ ، کالم یا ٹویٹ دیکھا ہے تو مجھے مطلع کرے ۔صحافی اعزاز سید کا اظہار خیال سینئر صحافی روف کلاسرا کو ناگوا ر گزرا اور انہوں نے جواب دیتے ہوئے ماضی کا ایک قصہ بھی سنایا ، ٹویٹر پر جاری پیغام میں ان کا کہناتھا کہ ”جب آپ نے ڈان ٹی وی میں نوکری لینے کیلئے اپنی سی وی میں میرا ریفرنس دیا تھا تو بیوروچیف ارشد شریف نے فون کر کے پوچھا کون ہے ، تمہارا نام استعمال کر رہاہے اور تمہیں انکار نہیں کر سکتا ، کوئی سڑک چھاپ لگتا ہے ، میں نے کہا اس کا گھر کا چولہا چل جائے گا دے دو  یہ غیر اس وقت دکھاتے صاحب۔روف کلاسرا کا اپنے اگلے پیغام میں کہناتھا کہ ” ویسے نورانی صاحب وہی نہیں جنہوں نے سپریم کورٹ پانامہ فیصلہ پہلے خود لکھ کر چھاپ دیا تھا ، نوازشریف خاندان کو کلین چٹ دے کر بری کر دیا تھا ، پھر عدالتوں میں معافیاں مانگتے رہے ، لہذا کسی خبر پر جمپ لگانے سے پہلے اس کو فائل کرنے والے کو بھی دیکھنا پڑتا ہے ۔

روف کلاسرا نے اعزاز سید کی خواہش پر جنرل ریٹائر عاصم سلیم باجوہ پر کیے جانے والے تنقیدی پروگرامز کے لنک شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ” تین وی لاگ کیے تھے ، جنرل باجوہ کے اس ایشو پر اپنے یوٹیوب چینل پر ، امید ہے آپ کے سخت اور کڑے امتحان میں پاس ہو گیا ہوں گا ، یا ابھی بھی فیل نمبر دیں گے ، جناب ہماری صحافت کے نئے سرکاری ٹھیکیدار صاحب ؟ ۔صحافی اعزاز سیدنے کہا کہ ” جناب یہ بالکل درست ہے کہ آپ کا نام میرے سی وی کے ریفرنس میں تھا لیکن کیا اس کے بعد مجھ پر پابندی ہے کہ میں کبھی آپ سے سوال نہیں کر سکتا ؟ میرے سادہ سے سوال پر آپ اتنا غصے میں آ گئے ؟ کہیں کچھ پردہ داری تو نہیں ؟ روف کلاسرا ایک مرتبہ پھر سے میدان میں آئے اور انہوں نے کہا کہ ” ضرور کریں لیکن کچھ ریسرچ کر لیتے کہ میں اور عامر متین نے یوٹیوب پر تین شوز جنرل باجوہ پر کیے ، آپ نے کبھی میرے بریک کیے سکینڈلز پر شو یا کالم لکھے ؟ ایک ٹویٹ پر شو کرتے ؟ جب تک چیزیں کلیئر نہ ہوں کیسے پروگرام کر تے ؟ جنگ جیو ، دی نیوز نے سٹوری استعمال کی ؟ میر ابراہیم کو بھی یہ سوال پوچھنا تھا ۔اعزاز سید نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ” کلاسرا صاحب آپ نے تنقید کرنا ہی سیکھی ہے یا برداشت کرنا بھی ؟ سوال کرنا ہی سیکھا ہے یا جواب دینا بھی ؟

یہان پر روف کلاسرا کا غصہ کچھ مزید تیز ہوا اور انہوں نے پھر سے لفظوں کا وار کرتے ہوئے کہا کہ ” ہم نے تین شوز جنرل باجوہ پر کیے ، آپ نے دیکھے بغیر سوشل میڈیا پر تبصرہ پڑھا ، ، کچھ غلطی کے بعد شرمندہ ہونا بھی آپ سیکھ لیں، ہمارے تین شوز دیکھ کر بھی آپ کی تسلی نہیں ہوئی یا اپنے مالک میر ابراہیم الرحمان سے سوال پوچھتے ڈر لگتا ہے ، انہوں نے احمد نورانی کی کبر جیو جنگ ، دی نیوز میں کیوں نہیں چلائی تھی ؟

روف کلاسرا کے اعزاز سید کو سی وی میں ریفرنس دینے کے جواب پر ایک اور صحافی راشد ہاشمی بھی میدان میں آئے اور انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ” کلاسرا صاحب اللہ سے معافی مانگیں ، کسی کے گھر کا چولہا ہم جیسوں کے جلائے نہیں جلتا ، اعزاز سید صاحب نے آپ سے متعلق کوئی غیر اخلاقی بات نہیںکہی تھی ، چلیں میں وہی مطالبہ کر تاہوں کہ آپ عاصم باجوہ سے متعلق تنقیدی پروگرامز دکھائیں ، میرے گھر کا چولہا تو آپ کے جلائے نہیں جلتا ۔سینئر صحافی روف کلاسرا نے راشد ہاشمی کو جواب دیتے ہوئے کہا ” آپ میاں صاحب کے وفادار ہیں ، آپ کی وفاداری پر کسی کو شک نہیں آپ کا پوچھنا بنتا ہے باس۔ میں اور عامر متین نے جنرل باجوہ پر تین پروگرام کیے ، یوٹیوب چینل پر ۔صحافی راشد ہاشمی نے روف کلاسرا کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے تصدیق کی تھی کہ روف کلاسرا گھنٹوں بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ بیٹھتے تھے جس دوران وہ انہیں پراپیگنڈہ تقاریر تیار کرنے کیلئے مشورے دیتے تھے ، روف کلاسرا نے بطور پی ٹی آئی ورکر کا م کیا ، وہ شریف فیملی سے روزانہ منی ٹریل مانگتے تھے لیکن انہوں نے عاصم سلیم باجوہ سے کوئی رسیدیں نہیں مانگیں ۔

اس کے بعد ایک اور صحافی فخردرانی بھی اس لفاظی والی جنگ میں کود گئے۔۔ انہوں نے رؤف کلاسرا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم سرائیکی دراصل پسماندہ علاقوں سے غربت کی چکی میں پس کر بڑے شہرآتے ہیں،ہم میں سے اگر غلطی سے کوئی اپنا نام بنالے اور کسی پر احسان کرلے تو اس پر احسان جتانا اپنا فرض سمجھتے ہیں،اس کی وجہ ہماری احساس کمتری ہے۔۔جس پر رؤف کلاسرا نے انہیں جواب دیا کہ ، ان کا میرے لیہ شہر سے تعلق ہے، دوہزار گیارہ میں روزنامہ دنیا نکل رہا تھا، میں ایڈیٹر تھا آفس آکر کہنے لگے، بیروزگار ہوں، چھوٹے بچے ہیں،آپ کے شہرسے ہوں، فورا رپورٹر رکھا، ان کی وجہ سے دنیا نے میری انکوائری کی کہ سرائیکی کو فیور کی ہے،دو دفعہ اسے نکالنے کی کوشش کی گئی مزاحمت کی۔۔رؤف کلاسرا کے ٹوئیٹ کے جواب میں فخر درانی نے لکھا کہ ، اس وقت گروپ ایڈیٹر عامر میر صاحب نے انٹرویو کیا، میری سابقہ ادارے میں چھپی خبروں کے بعد مجھے سلیکٹ کیا، آپ کا فون اس کے بعد آیا کہ ہم آپ کو بطور رپورٹر رکھرہے ہیں اور یہ آپ کا سیلری پیکیج ہوگا،آپ سے پہلا تعارف تب ہوا تھا۔۔جس کا جواب رؤف کلاسرا نے اس طرح سے دیا کہ جو دریا کے دوسرے کنارے گالیاں دے یا منہ پر مکرجائے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، آپ کا انٹرویو میں نے گروپ ایڈیٹرعامر میر سے کرایا تھا، ایڈیٹر کے طور پر عامر میر سب نام میں نے دیئے تھے، عامر محمود صاحب کو شکایت گئی تھی لیہ کا نااہل سرائیکی رکھ لیا ،کہاگیا برطرف کرو، میں نے انکار کیا۔۔جس پر اعزاز سید پھر درمیان میں آگئے اور فخر درانی کو ریسکیو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔ جناب کلاسرہ صاحب آپ نے جن جن پر احسان کیا ہے ایک ہی بار ان کی فہرست جاری کردیں تاکہ سب کو پتہ چل جائے، فخر درانی نےاپنے کام سے صحافت میں اپنا لوہا منوایا، طاقت ور وزیروں  اور حکومتی شخصیات کو ہمیشہ بے نقاب کیا، یہ آج کے دور میں آپ سے بڑے صحافی ہیں۔۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں