تحریر: سلمان عابد۔۔
سوشل میڈیا آج کی عالمی دنیا کی ایک حقیقت ہے۔ اس میڈیا نے رسمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی میں اپنی اہمیت کو ہر سطح پر تسلیم کروایا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج رسمی میڈیا اور دیگر طبقات سے جڑے افراد اور ادارے بھی سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا پر انحصار کرکے اپنا موقف پیش کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا عوام سے لے کر خواص تک پہنچ رہا ہے اور اس کا پھیلاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ لوگوں کے پاس ایسا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں وہ آزادانہ طور پر اپنا موقف پیش کرسکتے ہیں۔اب لوگوں کو اپنی بات کرنے کے لیے رسمی میڈیا کی ضرورت نہیں رہی بلکہ انھوں نے متبادل میڈیا تلاش کرلیا ہے۔ ہمارے رسمی میڈیا مختلف قسم کے مسائل کی وجہ سے محدود ہوتا جارہا ہے ، اس وجہ سے بھی سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
سوشل میڈیا کی مقبولیت کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بھی اس پلیٹ فارم کو پیش کررہی ہیں، یوں سوشل میڈیا کسی کی حمایت یا مخالفت میں بطور ہتھیار بھی استعمال ہو رہا ہے کیونکہ اب یہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس نئی ٹیکنالوجی کو مثبت یا منفی پہلو میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کی حد تک رسائی میں نئی نسل جن کی عمریں 14برس سے 40برس تک ہیں، ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اسی سوشل میڈیا کے پھیلاؤ اور نئی نسل میں اس کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں ابلاغ کی نئی جہتوں کو متعارف کرایا ہے وہیں ، سرکاری ادارے یا حکومتیں اس کو اپنے لیے بڑا خطرہ بھی سمجھ رہی ہیں۔اس وقت سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر ہائبرڈ وار یا ففتھ جنریشن وار کا نظریہ پیش کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا داخلی نہیں بلکہ علاقائی و عالمی معاملات پر اثرانداز بھی ہیں۔ دنیا کی طاقتور ریاستیں اپنے سیاسی ومعاشی مفادات کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا پر جاری مہم کو کمزور ملکوں پر مسلط کرتی ہیں یا ان کو دباؤ میں لاکر اپنی مرضی کے فیصلے بھی کرواتی ہیں۔
پاکستان میں اس وقت جو علاقائی صورتحال ہے اس میں بھارت، افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جو بڑی خرابیاں موجود ہیں یا جس انداز سے ہمارے ریاستی نظام کو چیلنج کیا جارہا ہے یا ہماری تصویر کو دھندلی بنا کر پیش کیا جارہا ہے ، اس کے تانے بانے غیرملکی حکمت عملی سے بھی جڑے ہوئے ہیں جو ہمیں یا تو کمزور کرنا چاہتے ہیں یا دباؤ میں رکھ سیاسی اور معاشی عدم استحکام یا سیکیورٹی جیسے مسائل میں الجھانا ان کا ایجنڈا ہے۔پچھلے دنوں اسلام آباد میں یوتھ کنونشن سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اور لاہور میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے ہماری نئی نسل سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں سوشل میڈیا پر جاری مخالفانہ یا پروپیگنڈے پر مبنی مہم کو ریاستی مفادات، سیاسی افراتفری اور مایوسی پھیلانے سے جوڑا ہے۔ ان کے بقول سوشل میڈیا پر خبروں کی تحقیق بہت ضروری اور مثبت سوچ کے بغیر معاشرے افراتفری کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے بقول نئی نسل چھ انچ کی موبائل اسکرین کی بنیاد پر اپنے فیصلے نہ کریں اور قرآن میں موجود ہے کہ کوئی فاسق خبر لائے تو تصدیق کرلو۔آرمی چیف نے جن خیالات کا اظہار کیا ان میں سے بہت سی باتیں حقایق پر مبنی ہیں اور ہمیں واقعی داخلی وعلاقائی یا خارجی محاذ پر قومی بیانیہ کی تشکیل پر کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ ریاستی و حکومتی نظام پر سوال اٹھانا ایک بات ہے مگر قومی سلامتی اور ملک کے خلاف پروپیگنڈے کی مہم کا حصہ بننا الگ بات ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
ہم بطور قوم ایک پرامن، محفوظ، مضبوط، منصفانہ اور خودمختار پاکستان کی بات کرتے ہیں، یہ بات بجا ہے کہ ریاستی مفادات کی اہمیت سب سے زیادہ ہونی چاہیے اور بے لگام آزادی اظہار یا سرخ لائن کو کراس کرنے کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ، اس طرح معاشرے میں پہلے سے موجود تقسیم گہری مزید ہو سکتی ہے اور اس کا فائدہ اٹھا کر ہمارے مخالفین ہمیں مزید غیرمستحکم کرسکتے ہیں۔
بنیادی مسئلہ تمام فریقین کا ملکی مفادات سے جڑا ہونا چاہیے، اگر ہم قومی مفادات کو نظرانداز کرکے پراپیگنڈا کرینگے تو اس کے نتیجے میں بداعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے اور اس کا مزید نتیجہ بگاڑ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔سوشل میڈیا پر جاری مخالفانہ مہم کا علاج علمی و فکری بنیادوں پر بھی تلاش کیا جائے، اس کا علاج ہمیں نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور تعلیمی نظام کے ساتھ جوڑنا ہو گا جہاں لوگوں کے سامنے ایک ایسا بیانیہ پیش کرنا چاہیے جو ان کی سوچوں میں بنیادی نوعیت کی مثبت تبدیلیوں کے عمل کو فروغ دے سکے۔
اسی طرح ہمارے ریاستی نظام سے جڑے فریقین کو اس بات پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ نئی نسل کے مسائل کیا ہے ، اس میں منفی تنقید کیوں فروغ پاتی ہے، اس کی وجہ اس نئی نسل کے سیاسی، سماجی، قانونی اور بالخصوص معاشی مسائل بھی ہیں۔ اس وقت ہمارے نظام میں عام آدمی سمیت نئی نسل کا حصہ بہت کم ہے۔ نوجوان نسل کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے اس کے بنیادی حقوق کی ضمانت بھی ملنی چاہیے۔
اسی طرح آزادی اظہار کو جبری بنیادوں پر ختم کرنا یا ان پر پابندیوں کے بجائے ان میں یہ سوچ پیدا کرنا کہ وہ آزادی اظہار میں جہاں ذمے داری کا مظاہرہ کریں، وہیں ریاستی مفادات کو اہمیت بھی دینی ہوگی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اور شہریوں کے درمیان جو عمرانی معاہدہ یا تعلق کمزور ہو رہا ہے اس کا علاج ہمیں اپنے موجود سیاسی، معاشی اور انصاف کے نظام سے تلاش کرنا ہوگا، یہ ہماری ترجیح ہونا چاہیے ۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔